Friday, 18 May 2012

پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی June 18, 2011


بظاہر تو یہ بات بہت چھوٹی سی ہے لیکن ذرا غور کریں تو اتنی چھوٹی بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی ایک ممتاز آرٹسٹ اور مشرف لیگ کی نائب صدر اسلام آباد ایئر پورٹ پر غیر ملکی شراب کے ساتھ پکڑی گئی اس نے سرکاری اہل کاروں کو دھمکیاں دیں پھر دو تین فون کالیں کیں۔ نتیجے کے طور پر سرکاری اہلکاروں کو بااثر حضرات اور افسران کی کالیں یا حکم نامے موصول ہوئے اور انہوں نے نہایت احترام سے ”مجرم“ کو چھوڑ دیا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لے لیا اور یوں قانون کی حکمرانی کا عمل شروع ہو گیا۔ اس ساری کہانی کا مرکزی کردار ہمارا وی آئی پی کلچر ہے جس کی جڑیں ہمارے جاگیردارانہ اور فیوڈل کلچر میں اتنی گہری ہیں کہ اسی کلچر اور انسانی عدم مساوات کو ختم کرنے کے لئے طویل محنت درکار ہے۔ اسے مہینوں اور برسوں میں ختم کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اسی کلچر کا شاخسانہ تھا کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود نامور آرٹسٹ نے سرکاری اہل کاروں کو دھمکیاں دیں اور یہی وجہ تھی کہ اہل کاروں نے خوفزدہ ہو کر اسے فون کالیں کرنے دیں اور اسی کلچر کا شاہکار یہ تھا کہ حکم نامے ملنے پر سرکاری اہلکاروں نے اسے عزت و احترام کے ساتھ رخصت کر دیا اور اس سے قانون پر عمل درآمد کرنے کے لئے معذرت بھی کی۔ اسی فیوڈل اور وی آئی پی کلچر کی حکمرانی کے تحت بڑے لوگ یعنی دولت مند حضرات، ایم این اے، ایم پی اے افسران اور سیاستدان ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے قانون توڑتے ہیں، دیدہ دلیری سے رعب کے ذریعے دھاک بٹھاتے ہیں، بینک قرضوں کے ذریعے بینکوں کو لوٹتے ہیں، ٹیکسوں اور آمدنی میں ہیرا پھیری کرتے ہیں، بجلی چوری ان کی ہابی ہے، ڈرا دھمکا کر کام نکلوانا ان کا مشغلہ ہے، اغواء، چوری، ڈاکے قبضہ گروپوں اور قتل و غارت کرنے والے مجرموں کی سرپرستی ان کی مجبوری ہے اور ہیرا پھیری کے ذریعے دولت بنانا ان کا محبوب ہول ٹائم جاب بن چکا ہے۔ یہی لوگ وی آئی پی کلچر کے علمبردار ہیں اور طاقتور ہونے کے سبب اس کے خاتمے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جمہوریت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہوتا ہے کہ جمہوری نظام معاشرتی تفریق کو ختم کر کے انسانی مساوات کی راہ ہموار کرتا ہے، قانون کی حکمرانی قائم کرتا ہے اور معاشرتی عدل کی بنیاد رکھتا ہے۔ سچی جمہوریت جاگیردارانہ اور وی آئی پی کلچر کو ختم کرتی ہے لیکن ہماری ٹریجڈی یہ ہے کہ ہم جمہوریت کے دعوے دار بھی ہیں لیکن جمہوریت کے میٹھے اور سچے پھل سے محروم بھی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ہماری سوسائٹی کئی طبقوں میں منقسم کیوں ہے کچھ مستقلاً محروم ہیں اور کچھ پیدائشی حاکم اور غالب ہیں؟ ہر طبقے کا اپنا اپنا قانون کیوں ہے؟ دولت مند اور بااثر بڑے سے بڑا جرم کر کے بچ جاتا ہے لیکن غریب مرغی چوری پر بھی پولیس کے غیض و غضب کا اس قدر نشانہ بنتا ہے کہ بعض اوقات جان بھی گنوا بیٹھتا ہے۔ پولیس قانون کی کسٹوڈین اور نگران ہے لیکن اس کا سارا غصہ غریب، بے اثر، بے سفارش اور بے وسیلہ پر نکلتا ہے جبکہ ساری محبت، عزت و احترام بڑے لوگوں کے لئے مخصوص ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں صحیح معنوں میں جمہوریت کبھی آئی ہی نہیں، کبھی نافذ ہوئی ہی نہیں کیونکہ ہماری جمہوریت کو جاگیرداروں، صنعتکاروں، امراء اور موروثی و وراثتی سیاستدانوں نے اغوا کر لیا ہے۔ جس جمہوریت نے انسانی برابری لانی تھی، قانون کی حکمرانی قائم کرنی تھی اور وی آئی پی کلچر کے خاتمے کا انتظام کرنا تھا اس جمہوریت پر خود امراء، روساء، صنعت کار اور وی آئی پی حضرات قابض ہو گئے ہیں چنانچہ جمہوریت ہمارے ملک میں محض ایک خواب اور سراب بن کر رہ گئی ہے۔ کیا اقتدار پر قابض وی آئی پی حضرات اپنے پاؤں پر کلہاڑا ماریں گے اور اپنے مفادات کو داؤ پر لگائیں گے؟ جن لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھوں میں کھلونا بنا لیا ہے کیا وہ قانون کی حکمرانی میں مخلص ہوں گے؟ چنانچہ آپ نے دیکھ لیا کہ اس بار بجٹ بناتے ہوئے اسمبلیوں کے جاگیرداروں اور وڈیروں نے وہ ٹیکس نہیں لگنے دیئے جن سے ان کے مفادات پر زد پڑتی تھی لیکن ایسے ٹیکس جن سے عام شہری کا کچومر نکلتا ہے ان پر انہیں بالکل اعتراض نہیں تھا۔ مان لیا کہ جاگیردارانہ نظام اور فیوڈل کلچر کو زرعی اصلاحات کر کے کمزور کیا جا سکتا تھا اور پاکستان میں زرعی اصلاحات کا ایجنڈا تشنہٴ تکمیل رہا لیکن آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر ہم فیوڈل وی آئی پی کلچر کو ختم کرنے میں مخلص تھے تو ہم نے جمہوریت پہ شب خون مارنے والوں کو ووٹ کیوں دیئے؟ ہم نے انہی موروثی سیاستدانوں بجلی اور ٹیکس چور صنعت کار وں اور جاگیردارانہ ذہنیت کے علمبرداروں کو اسمبلیوں میں کیوں بھیجا؟ جواب ملتا ہے کہ غریب کے پاس الیکشن کے وسائل نہیں ہوتے، اسے کوئی پارٹی ٹکٹ نہیں دیتی۔ یہ درست ہے اور اسی لئے میں بار بار عرض کرتا ہوں کہ غریبوں تم اس ملک میں اسی نوے فیصد ہو، جمہوری نظام میں حکمرانی تمہارا حق ہے اور اس حق کو حاصل کرنے کے لئے منظم ہو جاؤ۔ جب تک تم صاف و شفاف کردار کے امیدواروں، اپنی صفوں سے ابھرنے والے غریبوں اور ایماندار لوگوں کو ووٹ نہیں دو گے تمہارا مقدر نہیں بدلے گا۔ ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ نے تمہارا جینا دوبھر کر دیا ہے اگر تم جمہوریت سے انتقام لینا چاہتے ہو تو اپنی صفوں سے قیادت پیدا کرو اور اپنے جیسوں کو ووٹ دو ورنہ یقین رکھو کہ تمہاری آئندہ نسلیں بھی وی آئی پی کلچر، جاگیردارانہ سوچ اور معاشرتی تفریق کے ہاتھوں یرغمال بنی رہیں گی اور تم نہ انسانی برابری کا سورج طلوع ہوتے دیکھ سکو گے، نہ قانون کی حکمرانی کے مزے لے سکو گے اور نہ ہی انصاف تمہارے دروازے پر دستک دے گا۔ خدا نے تمہیں ہرگز غلام پیدا نہیں کیا اور نہ ہی غلامی تمہارا مقدر ہے۔ تم نے خود یہ زنجیریں پہن رکھی ہیں اور تم نے خود ہی ان زنجیروں کو توڑنا ہے۔ تمہارے دلوں میں مچلنے والے جذبات، ذہنوں میں پرورش پانے والے خواب اور باطن میں پلنے والے احساسات اس وقت تک ادھورے رہیں گے جب تک تم روائتی سیاست کے سانچوں کو توڑ کر تبدیلی لانے کے لئے جدوجہد نہیں کرتے، باہر نہیں نکلتے اور اپنے مقدر کو بدلنے کی عملی کوشش نہیں کرتے۔ تم سوچو گے تو زنجیریں ٹوٹنے لگیں گی، تم باہر نکلو گے تو قیادت خود تمہاری صفوں سے ابھرنے لگے گی اور تم جدوجہد کا آغاز کرو گے تو تمہارا مقدر بدلنے لگے گا۔ ان ساری جماعتوں اور قائدین کو تم بار بار دیکھ چکے، ان کی قابلیت اور عوام دوستی کا امتحان کئی بار لے چکے، ان کے دعوؤں کو تم کئی بار پرکھ چکے، ان کی اندرون بیرون جائیدادوں کی رنگین کہانیاں اور ان کے مغل طرز شاہانہ انداز زندگی کے افسانے سن سن کر تمہارے کان پک چکے، ان کی لوٹ مار کی کہانیاں سارے عالم میں پھیل چکیں اور ان کی اہلیت اور عوام دوستی کے پردے چاک ہو چکے، ان کی امریکی غلامی ملک میں خون کی ندیاں بہا چکی اور اب پاکستان کی چین اور ایران جیسے اچھے ہمسایوں سے دوستی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے، تم نے دیکھ لیا کہ حکمران بجلی مافیا، شوگر مافیا اور ایسے ہی دیگر مافیاؤں کے ہاتھوں میں قید ہیں اور ان مافیاؤں کے مفادات کی نگرانی کر رہے ہیں تو پھر ان سے کس سہولت، انصاف اور بہتری کی امید رکھتے ہو؟ دوستو یقین رکھو کہ جس جسم نے گرمی کے پسینے کا مزا نہیں چکھا وہ کبھی بھی آگ برساتی گرمی میں لوڈ شیڈنگ کی اذیت کو نہیں سمجھ سکتا، جو پیٹ بھوک کے تجربے سے نہیں گزرا وہ تمہاری بھوک کی تکلیف نہیں سمجھ سکتا، جس شخص نے محض عیش و عشرت دیکھی ہے اور اس کا یومیہ خرچہ لاکھوں میں ہے وہ تمہاری بے سروسامانی، ناداری اور محرومی کا اندازہ کر ہی نہیں سکتا۔ خدارا آنکھیں کھولو، حقائق کا ادراک کرو اور اپنا مقدر بدلنے کی کوششیں کرو۔ محض الفاظ اور آرزوئیں تبدیلی نہیں لاتیں، تبدیلی لانے کے لئے عمل پہلی شرط اور ناگزیر شرط ہے۔ یقین رکھو جس دن تم نے اپنا مقدر بدلنے اور تبدیلی لانے کا تہیہ کر لیا اسی دن سے تمہیں رب کی حمایت حاصل ہو جائے گی اور تبدیلی کے آغاز کا نقارہ بجنا شروع ہو جائے گا۔ اب یہ تم پہ منحصر ہے کہ تم کیا چاہتے ہو؟ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔

No comments:

Post a Comment