آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبحدم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
آپ نے کبھی بسمل کی تڑپ دیکھی ہے؟ آپ نے کبھی ماہی بے آب دیکھی ہے؟ میرا اندازہ ہے کہ آپ نے یہ مناظر نہیں دیکھے ہوں گے۔ زخمی مرغ کی تڑپ اور ماہی بے آب کی تڑپ دیکھنے والے کو تڑپا دیتی ہے کیونکہ یہ زندگی اور موت کے درمیان کی آخری تڑپ ہوتی ہے۔ ایک طرف زندہ رہنے کی خواہش اور دوسری طرف موت کا شکنجہ جس سے فرار ممکن نہیں،زخمی مرغ اور ماہی بے آب کو خوب تڑپاتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جب سے یہ شعر میری نظر سے گزرا میں سوچا کرتا تھا کہ نہ جانے بسمل کی تڑپ کیسی ہوتی ہے۔ کل شام ٹی وی کی سکرین پر چیچن کے مسلمان بھائی نعمان کی والدہ کو پوسٹ مارٹم زدہ بیٹے کی لاش کے ساتھ چمٹ کر تڑپتے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ بسمل کی تڑپ اور ماہی بے آب کی تڑپ کیا ہوتی ہے؟ ظاہر ہے کہ ماں کی تڑپ کا ان سے موازنہ نہیں کیاجاسکتا کیونکہ ماں تو ماں ہوتی ہے جس کی محبت کی تشبیہ خالق حقیقی بھی دیتا ہے اور جس کی مثالی محبت کے پیش نظر نبی کریم نے فرمایا کہ رب اپنے بندوں سے ماں کی نسبت ستر گناہ زیادہ پیار کرتا ہے، آپ نے باپ کی محبت کو موازنے کے لئے استعمال نہیں کیا مجھے جب بھی یہ حدیث مبارکہ یاد آتی ہے تو جہاں اپنی بخشش کی امید پیدا ہوجاتی ہے وہاں یہ خیال بھی آوارہ جھونکے کی مانند ذہن سے گزر جاتا ہے کہ انسان کا خالق حقیقی تو اللہ سبحان تعالیٰ ہے لیکن جسمانی اور علامتی خالق تو ماں ہوتی ہے جس کے پیٹ میں نوماہ گزارنے کے بعد بچہ دنیا میں آتا ہے۔ گویا اس شاہکار تخلیق کا سلسلہ اللہ سبحان وتعالیٰ سے شروع ہوتا ہے اور ماں پر منتج ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ اس کائنات کے تخلیق کار رب عظیم نے اپنے تخلیقی عمل میں ماں کو بھی شامل کیا ہے تو پھر جوان بیٹے کی موت پر یقینا خود ماں بھی اسی تکلیف ،دکھ اور درد کے عمل سے گزرتی ہے۔ کراچی میں سرفراز شاہ کی ماں تڑپ رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ پاکستان سے اسلام اٹھ گیا ہے، اسے نیم بے ہوشی کے دورے پڑرہے تھے اور آنسوؤں کا سمندر خشک ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔ دوسری طرف کوئٹہ میں نوجوان نعمان کی لاش کے ساتھ چمٹ کر اس کی سیاہ پوش ماں یوں تڑپ رہی تھی جیسے رینجرز کی گولیاں نعمان اور اس کی نو مسلم بیوی کو نہ لگی ہوں بلکہ خود اسے لگی ہوں۔ میں روسی زبان تو نہ سمجھ سکا لیکن ماں کی زبان تو یونیورسل زبان ہوتی ہے کیونکہ وہ محبت کی زبان ہوتی ہے۔ میں صرف یہ سمجھ سکا کہ نعمان کی ماں اپنے بیٹے کو بلارہی تھی وہ سوئے ہوئے نعمان کو جگا رہی تھی ا ور تڑپ تڑپ کر آوازیں دے رہی تھی۔ نعمان کا باپ پاس کھڑا آنسو بہارہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ غم و اندوہ کا پہاڑ کندھوں پہ اٹھائے اپنے ارد گرد کھڑے لوگوں سے سوال کررہا ہو کہ پاکستان تو مسلمانوں کا ملک ہے۔ یہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا، تمہارے لیڈر پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہتے ہیں اور یہاں مسلمانوں کو اس بیدردی سے مارا جاتا ہے۔ آخر میرے بیٹے کا قصور کیا تھا؟وہ تو پاکستان کو مسلمان بھائیوں کا ملک سمجھتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ اس کے بھائی اس کی راہوں میں آنکھیں بچھائیں گے لیکن تم کیسے بھائی ہو کہ تم نے ایک مسلمان بھائی کو دن دیہاڑے نشانے باندھ باندھ کر چاند ماری کے انداز میں قتل کردیا۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھ سے ماں بیٹے کے ملاپ کا یہ منظر دیکھا نہ جاسکا اور میں نے اپنی آنکھوں کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔ خیال پر تو بس نہیں چلتا میں نے آنکھیں تو بند کرلیں لیکن یہ خیال بجلی کے کوندے کی مانند ذہن سے گزر گیا کہ یہ خاندان ایک دو روز بیٹے کی قبر پر گزار کر واپس چلاجائے گا لیکن یہ لوگ زندگی بھر پاکستان کو قتل گاہ سمجھتے رہیں گے اور جہاں کہیں بھی پاکستان کا ذکر ہوگا ان کی آنکھیں بھیگ بھیگ جائیں گی۔
ماں اور اولاد کا رشتہ بھی نہایت منفرد اور انوکھا ہوتا ہے اور اس رشتے کا دنیا کے کسی رشتے سے بھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔گورنمنٹ کالج لاہور میں میرا ایک عزیز دوست اور کلاس فیلو اعجاز ملک ہوتا تھا جو نارروال کا رہنے والا تھا۔ ایم اے کرنے کے بعد وہ ایک موذی مرض میں مبتلا ہو کر میو ہسپتال میں داخل ہوگیا۔ میں ہر شام اسے ملنے جاتا تھا۔ وہ دیکھنے میں ٹھیک ٹھاک لگتا تھا۔ ایک دن میں اسے ملنے گیا تو اس نے ایک نوجوان سے میرا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ صاحب میرے کزن ہیں اور یہاں ڈاکٹر ہیں۔وہ صاحب چلے گئے تو اعجاز نے بتایا کہ یہ ڈاکٹر صاحب میرے ہونے والے بردار نسبتی ہیں۔ میری ماں ان کی بہن سے میر ی نسبت طے کرچکی ہے۔یہ کہتے کہتے وہ اداس نہایت اداس ہوگیا اور کہنے لگا دوست میری ماں نے میری منگنی بڑی چاہ اور خوشی سے کی ہے۔ وہ مجھے منگنی کا سوٹ پہنے دیکھ کر اتنی خوش تھی کہ میں نے اسے زندگی میں کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا۔ یہ کہہ کر وہ خلاء میں گھورنے لگا میں نے اسے دلاسہ دیا اور ادھر ادھر کی باتوں میں لگادیا۔ایک دن اچانک پتہ چلا کہ اعجاز اس دنیا سے رخصت ہوگیا ہے۔ طالبعلمی کے آخری دن جب ہم ہوسٹل سے رخصت ہورہے تھے تو اعجاز نے ہوسٹل کے بڑے ستون پر یہ مصرعہ لکھا تھا۔ ہم نہیں ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا، اعجاز کی موت کی خبر سن کر میں نارروال پہنچا تو دیکھا کہ اس کی ماں صدمے سے نڈھال ہوکر پگھل چکی ہے جیسے وہ ہوش و حواس کھو چکی ہو۔اس سانحے کو46برس گزر چکے لیکن اعجاز کی ماں کی تڑپ آج تک میری آنکھوں میں زندہ ہے۔ میں زندگی بھر یہ دعا مانگتا رہا کہ اے رب، اے میرے مالک رب عظیم کبھی کسی ماں کو اولاد سے جدا نہ کرنا، میں اب بھی ہر روز یہ دعا مانگتا ہوں لیکن بھلا ہماری دعائیں نظام قدرت کو تو نہیں بدل سکتیں چنانچہ کبھی کراچی تو کبھی کوئٹہ میں قتل عام کی خبریں سن لیتا ہوں۔ اسی طرح پنجاب اور لاہور کے تھانے بھی قتل گاہیں بنے ہوئے ہیں۔ پولیس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے ،کوئی دن خالی نہیں جاتا کہ جعلی مقابلے اور پولیس تشدد ماؤں کو نہ تڑپاتے ہوں اور ان کے بین لوگوں کو نہ رلاتے ہوں۔ میں جہاں مقابلوں کی خبریں پڑھ اور سن کر تصور میں اکثر وزیر اعلیٰ سے کہتا ہوں”جناب عالی ان کی تنخواہیں مزید بڑھائیں، حضور ہور چوپو“ …پولیس تشدد میں نوے فیصد وہ مارے جاتے ہیں جو رشوت نہیں دے سکتے۔ پولیس کا پیٹ بھرتا ہی نہیں۔
کوئی چالیس برس گزرے کہ میں ایک بیمار بزرگ کی مزاج پرسی کے لئے میو ہسپتال گیا۔ستر بہتر سالہ وہ بزرگ موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھے۔ میں جب ان کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ان کو کئی نالیاں لگی ہوئی ہیں اور وہ ڈاکٹر ان کے سرہانے کھڑے ہیں۔ میں دبے پاؤں ان کے قریب گیا اور ان کی زندگی کے لئے دعائیں مانگنے لگا۔ وہ نیم بے ہوش بستر پر پڑے تھے۔ اچانک انہوں نے آنکھیں کھولیں، اپنے کمرے کے خالی دروازے کی طرف دیکھا اور اپنی ماں کو مخاطب ہو کر کہنے لگے ”ماں جی میں تو آتا ہوں لیکن یہ ڈاکٹر مجھے نہیں آنے دیتے“ ان کی والدہ طویل عرصہ قبل وفات پاگئی تھیں۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو دروازے پر کوئی بھی نہیں تھا، تب خیال آیا کہ شاید ان کی والدہ انہیں لینے آئیں تھیں تاکہ ان کے بیٹے کو موت سے خوف نہ آئے۔ ماں اور اولاد کا رشتہ اٹل ہوتا ہے جو موت کے بعد بھی قائم رہتا ہے۔ اس اٹل رشتے ہی کی وجہ سے ماں کا اولاد کی موت پر کلیجہ پھٹنے لگتا ہے اور اس کی تڑپ دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے زمین آسمان پھٹ جائیں گے ۔ کیا تم نے کبھی بسمل کی تڑپ دیکھی؟ کیا تم نے کبھی ماہی بے آب کی تڑپ دیکھی؟ اسے دیکھنا ہے تو نعمان اور سرفراز کی ماں کی تڑپ دیکھو پھر تمہیں اندازہ ہوگا کہ ماں کیا ہوتی ہے؟
No comments:
Post a Comment