Friday, 18 May 2012

مجھے سونے دو June 12, 2011

بظاہر حالات کا منظرنامہ بدلتارہتا ہے لیکن اگر غور کریں تو احساس ہوتا ہے کہ منظرنامہ بد ل نہیں رہا بلکہ پاکستان کی صورتحال ایک مقام پر آن کررک گئی ہے جس نے پاکستانی عوام کی نیند اورسکون حرام کردیاہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کی زمین خون کی پیاسی ہوچکی ہے اوردھرتی کی یہ پیاس اتنا خون بہنے کے باوجود بجھ نہیں رہی۔ دن دو دن نہیں گزرتے کہ ہماری آنکھیں ظلم کی کوئی نہ کوئی بہیمانہ داستان دیکھ لیتی ہیں اور رات کی نیند اور دل کے چین سے محروم ہو جاتی ہیں۔ اب تو مجھے یوں لگتاہے جیسے میں طویل عرصے سے سویا نہیں۔ ذرآنکھ لگتی ہے تو کسی نہ کسی مظلوم کی آہ وبکا، کسی بیوہ کی فریادیا کسی ماں کا بین مجھے جگا دیتاہے۔ اس مسلسل بے خوابی اور نیندسے محرومی نے مجھے بدل کر رکھ دیا ہے۔ میں محسوس کرتاہوں کہ میں کسی ظالم کا ہاتھ پکڑ سکتاہوں نہ خون بہنے کا سلسلہ بندکرسکتاہوں اس لئے میں اس منظرنامے کا ایک بے بس کردارہوں۔ اسی بے بسی نے آہستہ آہستہ مجھ میں ایک عجیب سے ردعمل کو جنم دیا ہے۔ اب میرا جی چاہتاہے کہ میں کسی کو ماروں اور خوب ماروں اور اپناسارا غصہ اس پر نکال دوں لیکن پھر سوچتاہوں کہ ظالم میری پہنچ سے باہرہیں اور قاتل مجھ سے زیادہ طاقتور ہیں چنانچہ میں اندر ہی اندرتڑپ کر رہ جاتا ہوں۔
عرصہ گزرا مجھے ایک ای میل موصول ہوئی تھی۔ ای میل کی عبارت، ہجوں کی غلطیاں اور طعنوں کی زبان اس بات کی چغلی کھاتے تھے کہ ای میل ایک مخصوص کیمپ سے آئی ہے۔ بہرحال اس ای میل کا پیغام ہم سب کے لئے باعث توجہ ہے۔ کسی انجینئرمحمد عدیل اکرم نے لکھا کہ ”افغانستان میں پندرہ لاکھ معصوم شہری حکومت ِ پاکستان کی مدد سے مارے جاچکے ہیں اور ان کا لہو چیخ چیخ کر انتقام کا مطالبہ کر رہا ہے۔ نیٹو افواج اور امریکی افواج افغان شہریوں کا قتل عام کر رہی ہیں لیکن پاکستان نیٹو کو سپلائی اور امریکہ کو ہوائی اڈے فراہم کر رہا ہے۔ جب ان کے لوگ مرتے ہیں تو وہ جواباً تم پر خودکش حملے اور بم دھماکوں کے ذریعے حملے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تم ان کو دہشت گردکہتے ہو۔ تمہیں کس نے کہا تھا کہ ڈالروں کے عوض افغانستان کے خلاف جنگ میں پارٹی بنو۔ افغانستان نے تمہاراکچھ نہیں بگاڑا تھابلکہ وہ تو تمہارا برادر ملک تھا۔ جنگ اورمحبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے اس لئے چیخ و چلاؤنہیں بلکہ ڈالر کماؤ اور عیش کرو۔“ یقین کیجئے جس روز مجھے یہ ای میل ملی میں کئی راتیں نہ سوسکا۔ آنکھ لگتی تو افغانستان اور پاکستان میں خون کی ندیاں بہتی نظر آتیں اور لوگوں کی آہ و بکا سنائی دیتی اور میں ہڑبڑا کر جاگ جاتا اور سوچنے لگتا کہ کسی شاطر نے مسلمان کو مسلمان کے خلاف کھڑا کرکے ہاتھوں میں رائفلیں تھما دی ہیں چنانچہ اب افغانستان ہو یا پاکستان ہر طرف مسلمان کا خون بہہ رہا ہے۔ پھر خیال آتا اے کاش میں دونو ں ممالک کے حکمرانوں کو ہاتھ باندھ کر یہ سمجھا سکتا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون کیوں بہا رہے ہو، تم تو صدیوں سے محبت اور بھائی چارے کے رشتے میں بندھے ہو اور تم مستقل طور پرہمسائے ہو تم کسی کی جنگ کے شعلوں سے اپنا دامن کیوں جلا رہے ہو۔ خدا کے لئے ہوش کرو، معاملات سمجھنے کی کوشش کرو اور مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کے خون کا سلسلہ بند کرو۔ امریکہ چلاجائے گا تمہیں ایک دوسرے کے پڑوس میں رہنا ہے خدا کے لئے نفرت کی آگ نہ بھڑکاؤ۔
میری بے بسی مجھے رلاتی رہی اور ہر روز ہونے والے ڈرون حملوں میں معصوم بچوں اور عورتوں کا بہنے والا خون مجھے تڑپاتا رہا۔ ابھی یہ سلسلہ پیچ و تاب جاری تھاکہ ایک روز ٹیلی ویژن نے کوئٹہ میں چیچن شہریوں پر بربریت کی فلم دکھا دی۔ اس ظلم کی داستان کو دیکھ کر میں غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گیا۔ سونے کی کوشش کرتا تولاشوں کے ڈھیر میں ایک مظلوم عورت کا لہراتا اورزندگی کی بھیک مانگتا بازو میرے ذہن اور دل پر چرکے لگانے لگتا۔ میں سوچنے لگتا میرے رب میں کس ملک میں رہ رہا ہوں؟ میرے ملک کو کیا ہوگیا ہے ؟میرے لوگ کیوں خون کے پیاسے ہوگئے ہیں؟ ابھی میں غم کی اس ندی میں بہہ رہا تھا کہ خبر ملی کہ ہمارے ملک کے ایک مایہ ناز سچ لکھنے والے بہادر صحافی سلیم شہزاد کو نہایت بے دردی اور بہیمانہ انداز سے شہیدکردیا گیا ہے۔
میں سلیم شہزاد سے کبھی نہیں ملا لیکن مجھے اس کی بہادری اورحق گوئی پر فخر تھا۔ اسے اس حق گوئی کی قیمت ادا کرنا پڑی اور وہ قیمت ادا کرتے کرتے شہید ہو گیا۔ ہم تو چند دن ماتم کرکے صبرکی چادر اوڑھ لیں گے لیکن اس کے معصوم بچے اور وفاشعار بیوہ کو ایک طویل سفر طے کرنا ہے، سنگلاخ وادیوں سے گزرنا ہے اور ہرروز آنسوؤں کو پینا ہے۔ ایسے صدموں سے ہمیشہ خون رستارہتاہے اور ایسے زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے۔ سلیم شہزاد کی دل سوز خبر سن کر میں غم کے سمندر میں ڈوب گیا، خاموشی نے میرے ہونٹ سی دیئے اور مجھے یوں لگا جیسے میں ایک دہشت کدے میں زندہ ہوں جہاں غم و اندوہ سے پتھرائی آنکھیں یوں ایک دوسرے کو دیکھ رہی ہیں جیسے اپنے رشتوں کو پہچاننے سے قاصر ہوں۔
میں نے سونا چاہا توسلیم شہزاد کی تصویر نے مجھے یہ کہہ کر جگا دیا کہ ذرادیکھو تو میرے سینے پر کتنی گولیاں لگی ہیں، مجھے کس طرح آہنی سلاخوں سے مارا پیٹا گیا ہے اور میری کتنی پسلیاں توڑی گئی ہیں۔ بھلا اس میں میری پسلیوں کا کیا قصور تھا؟ قصور تو سارا انگلیوں کاتھا جوسچ لکھتی تھیں۔ دیکھ لو سچ لکھنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے؟ چنانچہ میں کئی دن تک پیچ و تاب کھاتا رہا، بستر انگاروں اورکانٹوں کی سیج بن گیا، نیند روٹھ گئی۔ آنکھیں بند کرتا توسلیم شہزاد کی تصویر گھورنے لگتی۔ دل کو یہ سمجھا کر حوصلہ دے رہا تھا کہ زندگی و موت خدا کے اختیار میں ہے۔ تم ظالموں کے نرغے میں پھنسے ایک بے بس انسان ہو تم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ انصاف تویوم حساب کوہوگا جب ہر رائفل، بندوق اور خنجربول بول کر بتائے گا کہ اس سے کس نے کس پر فائر کیا اور کس نے کس کے سینے میں گھونپا۔ میں اپنے آپ کو سمجھا ہی رہا تھا کہ تم ایک بے بس انسان ہو آخر کب تک یونہی جاگتے رہو گے اورخون کی بہتی ندیاں دیکھ کر تڑپتے رہو گے خدا سے صبرمانگووہی انصاف کرنے والا اور قادر المطلق ہے۔اپنے رب سے سکون کی نیند مانگ ہی رہا تھا کہ کراچی میں دن دہاڑے نہایت سنگدلی سے ایک نوجوان سرفراز شاہ کو قتل کر دیا گیا۔ اس کی موت کا جانکاہ منظر ٹیلی ویژن کی سکرین پردیکھا تو دیکھ نہ سکا اور آنکھیں ہاتھوں سے ڈھانپ لیں۔ یوں لگا جیسے اس ظلم کی شدت سے ٹی وی سکرین پگھل جائے گی، زمین پھٹ جائے گی اور آسمان اس خون ناحق پرماتم کرنے لگے گا۔ اس رات مجھے بہت سے ایس ایم ا یس آئے۔ لوگ رو رہے تھے اورپھٹی پھٹی آنکھوں سے آسمان کی جانب دیکھ رہے تھے۔ ایک نوجوان نے لکھا کہ میری بیوی امید سے ہے ہم چند دنوں میں نئے مہمان کی آمد کے خیال سے بہت خوش تھے۔ کراچی کے بہیمانہ قتل کے بعد میری بیوی زار و قطار رو رہی ہے اور ضد کر رہی ہے کہ مجھے کسی اور ملک میں لے چلو، میں یہاں بچے کو جنم نہیں دینا چاہتی میں۔ ننھی جان کوکہا چھپاؤں گی؟ اس ایس ایم ایس نے آنسوؤں کا بند توڑ دیا اور میری بے خواب دہشت زدہ آنکھیں برسنے لگیں۔ سونا چاہا تو سرفراز شاہ کی زندگی مانگتے ہاتھوں نے سونے نہ دیا۔ میں ایک بار پھر نیند سے محروم ہوں، اپنے آپ میں تڑپ رہا ہوں۔ خدارا مجھے سونے دو، ظلم کے یہ مناظر ہمیں پاگل کردیں گے۔ سوچتے سوچتے کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ کسی کوماروں اور اتنا ماروں کہ…!!

No comments:

Post a Comment