Friday, 18 May 2012

ٹوٹے رشتوں کا درد June 08, 2011


ہاں تو میں عر ض کر رہا تھا کہ ہر ٹوٹنے والی شے اپنے پیچھے نشان چھوڑ جاتی ہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ کہ اولاد ِ آدم کے بارے میں سائنسی اصول وضع نہیں کئے جاسکتے۔ جب ہم انسانی رویوں، ردعمل اور انداز کی بات کرتے ہیں تواس کا مطلب اکثریت ہوتا ہے یعنی ہم عمومی مشاہدات کی بات کرتے ہیں جن کوہر انسان پر اپلائی نہیں کیا جاسکتا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی رشتے جب ٹوٹتے ہیں تو عام طور پر انسانی نفسیات اور خاص طور پر متاثرہ بچوں کی نفسیات پر گہرے اوربعض اوقات پیچیدہ اثرات مرتب کرتے ہیں جوان کے رویوں اور سوچ کو ڈھالنے میں اہم کردار سرانجام دیتے ہیں۔ میں نے جب بھی کسی ”ابنارمل“ انسان کے اندرجھانکا تو مجھے عام طور پر اس کے باطن سے ٹوٹے ہوئے رشتوں کی دردناک صدا سنائی دی لیکن میں نے زندگی کے سفر میں ایسے لوگ بھی دیکھے جو بالغ ہونے کے بعد اپنے نفسیاتی مسائل پر قابو پا کر بالکل نارمل اور نفیس انسان بن گئے تھے۔ ایسے لوگوں سے بھی پالا پڑا جو نفسیاتی الجھنوں کا شکار تھے لیکن انہیں سمجھنے سے قاصر رہے چنانچہ زندگی بھر طاقتور جبلتیں، انجانے جذبے، پیاسی حسرتیں، انتقامی خواہشات، سہاروں کی تلاش اور آوارہ آرزوئیں انہیں اس طر ح ہانکتی رہیں جس طرح چرواہا اپنی بھیڑوں کو ہانکتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ انسانی رشتوں کے ٹوٹنے کے زخم مندمل بھی ہو جائیں تو اپنے پیچھے نشانات چھوڑ جاتے ہیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ خون بہانے کی آرزو کے غلام، بڑے بڑے گینگوں کے اراکین، بڑے وارداتئے، سنگدل دہشت گرد، منشیات کے سوداگر، گولیوں کی آوازوں پر قہقہے لگانے والے، خفیہ ایجنسیوں کی خدمات سرانجام دینے والے اور سازشوں کے تانے بانے بننے والے عام طور پر ابنارمل نفسیات کے شاہکارہوتے ہیں اور کبھی کبھار اس ابنارمل نفسیات کی تشکیل میں ان جذبوں کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے جنہیں ٹوٹتے انسانی رشتوں نے جنم دے کر انسان کے باطن میں عدم تحفظ، انتقام اور انجانے بے راہرو جذبوں کوجنم دیا ہوتا ہے۔ کبھی کبھار اس طرح کے کردار نہ صرف اپنی ذات اور خاندان کے لئے گمبھیر مسائل پیدا کرتے ہیں بلکہ ملک و قوم کے لئے بھی عذاب بن جاتے ہیں۔
وہ ایک ابھرتا ہوا آرٹسٹ تھا اور گاتا بہت اچھا تھا۔ نہ جانے کیوں وہ مجھے آج سے بتیس تینتیس برس قبل کبھی کبھار ملنے آیا کرتا تھا۔ وہ پڑھا لکھا اور برسرروزگار تھا اور دو بچو ں کا باپ تھا۔ کبھی کبھی میرے سامنے بیٹھے ہوئے گم ہو جاتا۔ میں نے اس کے اندر جھانکا تو پتہ چلا کہ اس کی ماں بچپن میں فوت ہوگئی تھی اور اسے اس کی خالہ نے پالا جوخود بھی کثیر الاولاد تھی۔ اس کا خالو نہایت ظالم شخص تھا جو اس پر بڑے مظالم ڈھاتا تھا۔ مثلاً جب وہ صبح دفتر جانے کے لئے نکلتا تو اس بھانجے کوبھی سکول چھوڑناہوتا تھا۔ وہ کرائے کے ٹانگے کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ جاتا اسے کہتا کہ تم اس ٹانگے کے ساتھ بھاگتے آؤ۔ اس کا ہاتھ ٹانگے کے پائیدان پر رکھوا کر اس پر اپنا پاؤں رکھ دیتا۔ کچھ اس طرح کے بھی مظالم ڈھاتا جن کا ذکر کرتے ہوئے مجھے ابکائی محسوس ہوتی ہے۔ اب یہ شخص جوان ہوچکا تھا لیکن میں محسوس کرتا تھا کہ اس کی رو ح پر گہرے زخم ہیں جو اسے بیٹھے بٹھائے اداس کردیتے ہیں اور اس کے اندر معاشرے سے انتقام کی آگ بھڑکا دیتے ہیں۔ ایسا کئی بارہوا کہ وہ میرے پاس تنہائی میں بیٹھے آنسوؤں پر ضبط نہ کرسکا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا۔ انسانوں کی اکثریت محرومیوں کا شکار ہوتی ہے اور اکثر یہ محرومیاں اور معاشرے کے تلخ رویئے انسان میں ایسے اندھے انتقام کو جنم دیتے ہیں کہ اسے بچوں کے اغوا، تاوان اور قتل، دہشت گردی اور بے دریغ قتل و غارت پر بھی افسوس نہیں ہوتا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں میرا ایک کلاس فیلو تھا جوبعد ازاں بڑ افسر بنا، کبھی کبھی اپنی سوتیلی ماں کے سلوک کا ذکر کرکے رونے لگتا تھا۔ اس کا باپ تھانیدار تھا چنانچہ میں نے اس کی شخصیت پر دو گہرے اثرات دیکھے۔ اول سوتیلی ماں کے مظالم دوم پولیس افسر کا بیٹا۔ معاف کیجئے گامیرے مشاہدے پولیس افسران کی اولاد کے بارے میں چشم کشا ہیں لیکن دوبارہ عرض کر رہا ہوں کہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اسی طرح اگر آپ مغرور اور سرد مہرلوگوں کے پس شخصیت جھانکیں تو اس کی وجہ فوراً سمجھ آجائے گی۔ مصنوعی حد تک مروت بھی اکثر منافقت ہوتی ہے۔ میرے عزیز دوست اور شاگرد شیخ طاہر یوسف ایڈووکیٹ نے قوم کی تعمیر کا جذبہ اپنے والد گرامی کی میراث سے پایا جوٹرسٹ سکولز کی شکل میں رونماہوا۔ ایک بار چند ایک ایسے مشہور لوگوں کا ذکر ہو رہا تھا جنہوں نے ہر حکومت سے فائدے اٹھائے اور کروڑپتی ہوگئے۔ شیخ صاحب نے ایک فقرے میں ساری بات کہہ دی ”ان لوگوں کا خاندانی پس منظر غیرمحفوظ (Insecure) تھا۔ وہ ہر طریقے سے دولت کما کر اپنا حال اور بچوں کا مستقبل محفوظ بنا رہے ہیں۔“
میں نے گزشتہ کالم میں غیرملکی اور غیرمسلمان خواتین کی پاکستانیوں سے شادیوں کا ذکر کیا تھا جن کی اکثریت ناکام رہی۔ میں نے عرض کیا تھاکہ میں نے ان گنت ایسے لوگوں سے رشتہ ٹوٹنے کی وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ یہ تہذیبی تصادم تھا جس نے شادی کا بندھن توڑ دیا۔ علامہ عبداللہ یوسف علی نامور سکالر تھے اور ان کا قرآن حکیم کا انگریزی ترجمہ نہایت مقبول ہے۔ انہو ں نے دو بار انگریز خواتین سے شادی کی اوردونوں بار”ٹٹ گئی تڑک کرکے“ اس ٹوٹنے کی اصل سزا اولاد کو ملتی ہے جس کی نفسیات پر اس کے گہرے اثرات پڑتے ہیں۔ میرے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلے سے قبل مشہور پروفیسرسراج پرنسپل ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی خاندانی شادی کو ترک کرکے گورنمنٹ کالج کے ایک ہندو پرنسپل سوندھی کی بیٹی سے شادی کرلی تھی جو ان کی شاگرد تھی۔ میں اسے 1960کی دہائی میں اکثر پروفیسر سراج کے ساتھ کالج کی گراؤنڈ (اوول) میں سیر کرتے دیکھا کرتا تھا۔ میں جب ”مسلم لیگ کے دورِ حکومت“ پرتحقیق کر رہا تھا تو صبح سے شام تک اخبارات کی لائبریریوں میں بیٹھنا پڑتا تھا۔ وہاں ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی جس کا نام امدادحسین تھا۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کررہا تھا اوراس کے تحقیقی مقالے کا عنوان تھا ”پاکستان کی سیاسی جماعتیں“ وہ آکسفورڈ سے پاکستان میں اپنے تحقیقی مقالے کے لئے مواد اکٹھا کرنے کے لئے آیا ہوا تھا۔ میری اس سے دوستی ہوگئی کیونکہ لائبریری میں ہم دونوں ہی ہوا کرتے تھے۔ ہم بجلی کے پیلے بلب کی زرد رشنی میں اخبارات کی فائلیں پڑھا کرتے تھے اور ان پربرسوں سے پڑی ہوئی مٹی سے سانسوں کوسجایا کرتے تھے۔ امداد سے دوستی ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ پروفیسر سراج کی پہلی بیوی سے بیٹا تھا۔ علامہ اقبال کی پہلی بیوی اور آفتاب اقبال کی والدہ کی مانند یہ خاتون بھی اپنا درد چھپانے کیلئے انگلستان میں آباد ہوگئی تھی۔ آفتاب اقبال ڈاکٹر جاویداقبال نہ بن سکا کہ یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ بہرحال میرے پوچھنے پرامداد نے بتایا کہ وہ لاہور میں عارضی قیام کے دوران کبھی کبھار اپنے والد سے ملنے جاتا ہے۔ اس نے آکسفورڈ سے ایم اے کیا تھا اور وہیں سے پی ایچ ڈی کرکے اپنے والد کی مانند پروفیسر بننا چاہتا تھا۔ اس کی نفسیات پر اس خاندانی حادثے نے گہرے اثرات چھوڑے تھے۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ اتنا مشہور اور نامور ہو کہ باپ کو پیچھے چھوڑ جائے اور اس کا باپ اور سوتیلی ماں اس پررشک کریں۔ وقت گز رگیا اور میں جب اس ملاقات کے بیس برس بعد آکسفورڈ میں پڑھنے گیا تو امداد سے ملنے کی خواہش نے بے چین کر دیا۔ ڈھونڈنا چاہا توپتہ چلا کہ امداد نے کچھ عرصہ آکسفورڈ میں پڑھایا پھر اس کی بے چین روح نے یہ رشتہ توڑ دیا۔ اسے جاننے والے نے بتایا کہ وہ آج کل برطانیہ کے گانے والے ایک گروپ میں شامل ہے اور شہرت کی تلاش میں آواز کا جادو جگا رہا ہے۔ میں نے یہ سنا تو چند لمحوں کے لئے اپنے آپ میں کھو گیا اور سوچنے لگا ”آہ امداد… ٹوٹے رشتے کا درد تمہیں کہاں سے کہاں لے گیا۔“

No comments:

Post a Comment