موبائل کی گھنٹی بجی۔ میں نے اسے کان کے ساتھ لگایا تو دوسری طرف سے آواز آئی، سر! میں لندن سے حسن بول رہا ہوں۔ میں پاکستانی ہوں اور لندن یونیورسٹی سے ایم اے کر رہا ہوں۔ میں پاکستانی صحافت کے تازہ رجحانات اور کالم نگاروں پر تحقیقی مقالہ لکھ رہا ہوں۔ اس ضمن میں میں نے چند نیوٹرل اور پسندیدہ کالم نگاروں کی فہرست بنائی ہے جن سے اس ریسرچ کے حوالے سے انٹرویو کرنا ہے۔ اسی مقصد کے لئے میں نے آپ کو زحمت دی ہے ۔ میں کچھ سوالات پوچھنا چاہتا ہوں کیا آپ مجھے پندرہ بیس منٹ دے سکتے ہیں۔ مجھے لب و لہجہ سے حسن بہت اچھا لگا چنانچہ میں نے اسے ویلکم کیا اور جواب دیا کہ میں حاضر ہوں۔ میں نے ”لب و لہجہ“ کی بات اس لئے کی ہے کہ میرے تجزیے کے مطابق گفتگو اور موڈ کا خاصا انحصار اندازِ تخاطب اور لب و لہجہ پر ہوتا ہے۔ بعض اجنبی لوگ فوج پر اس طرح گفتگو کرتے ہیں کہ ان سے جلد از جلد خلاصی حاصل کرنے کو جی چاہتا ہے اور بعض لوگ اس قدر ”شیریں لب “ ہوتے ہیں کہ ان کا سخت سے سخت تبصرہ بھی ہوا کے جھونکے کے ساتھ گزر جاتا ہے۔ مجھے ڈیرہ اسماعیل خان سے دو خان حضرات اکثر فون کرتے ہیں اور ایک صاحب مظفر آباد سے ہفتہ وار یاد فرماتے ہیں۔ ایک خان صاحب بات سچی کرتے ہیں لیکن ان کے الفاظ ہتھوڑہ بن کر میرے کانوں پر برستے رہتے ہیں جبکہ دوسرے خان صاحب ہر فقرے میں مٹھاس کے ساتھ اتنی بار ”جی“ کہتے ہیں کہ میں ان کی طویل گفتگو سے بھی ہرگز نہیں تھکتا ۔ مظفرآباد والے صاحب طویل عرصے سے ٹھنڈی جگہ پر آنے کی دعوت اس قدر دلربا انداز سے دے رہے ہیں کہ میں کئی بار سامان باندھتے باندھتے رہ جاتا ہوں۔ لندن سے عزیزم حسن کا انداز گفتگو اتنا مہذب تھا کہ میں وقت کی پرواہ کئے بغیر دیر تک اس کے سوالوں کے کٹہرے میں کھڑا رہا۔ سوالات کا سلسلہ ختم ہوا تو قدرے بے تکلفی اور اعتماد کا رشتہ قائم ہو چکا تھا چنانچہ میں نے اس سے اس کی تحقیق اور تحقیقی مقالے کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا۔ ذکر صرف جنگ کے کالم نگاروں کا نہیں بلکہ سارے اخبارات میں لکھنے والوں کا تھا۔ حسن نے مجھے بتایا کہ میری ابتدائی تحقیق کے مطابق پاکستان کے کالم نگاروں کی اکثریت کسی نہ کسی پارٹی، شخصیت یا ادارے سے وابستہ ہے اور وہ ایک طرح سے ان کے ترجمان، پبلسٹی منیجر اور طبلچی (ڈرمر) بن چکے ہیں۔ ان میں اکثر لوگوں کو ان پارٹیوں، لیڈروں یا شخصیات سے باقاعدہ تنخواہ یا معقول رقم ملتی ہے، کچھ حضرات کو ڈھکے چھپے عہدے دیے گئے ہیں، کچھ حضرات مستقبل کو ذہن میں رکھ کر قلم کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ جب ان کا ہیرو اقتدار میں آئے گا تو وہ سینیٹر یا مشیر، یا سفیر یا کوئی اور بڑا عہدہ ہتھیانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور ساری کسر نکل جائے گی۔ کچھ لوگ نظریاتی وابستگی کی بنا پر ان سے جڑے ہوئے ہیں اور کچھ ایجنسیوں کے پے رول میں ہیں۔ وہ اکثر تنقیدی کالم لکھتے ہیں لیکن جب کوئی اہم ایشو ابھرتا ہے اور جہاں ایجنسیوں کو ان کی ضرورت ہوتی ہے وہاں وہ ان کے نقطہ نظر کی حمایت کرتے ہیں۔ کچھ حضرات نے گزشتہ بیس پچیس برسوں میں اتنی بار وفاداریاں بدلی ہیں اور اتنے رنگ بدل کر فائدے اٹھائے ہیں کہ وہ چیتھڑوں سے ارب پتی بن گئے ہیں اور قیمتی پلاٹ حاصل کرنے میں بھی کامیابی کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ اس ضمن میں اسلام اور نظریہ بیچنے والے چند صحافی بھی لوئر مڈل کلاس سے ارب پتی بن کر سب کو مات کر گئے ہیں اور ان کی (NUISANCE)ویلیو کی وجہ سے ہر حکمران ان سے ”کھم“ کھاتا یعنی گھبراتا ہے اور ان کی خدمت کرتا ہے۔ حسن کہہ رہا تھا کہ ان تمام صحافیوں اور لکھاریوں کے الفاظ ان کے عزائم اور ضرورتوں کی چغلی کھاتے ہیں اور اگر انہیں تواتر سے باریک بینی کے ساتھ پڑھا جائے تو راز، راز نہیں رہتا۔ ان میں کچھ حضرات کے لئے انتخابات یا مڈٹرم انتخابات دولت کی بارش بن کر آتے ہیں۔ وہ رئیس پارٹیوں کی میڈیا ٹیم بن جاتے ہیں اور کروڑوں کا بجٹ پاتے ہیں۔ پھر انتخابات کے بعد بھی ضرورت پڑنے پر ان کا نمک حلال کرتے رہتے ہیں۔
حسن بات کرتے کرتے رک گیا اور پھر کہنے لگا سچ بولنے والے اور سچ لکھنے والے ہمیشہ زیر عتاب رہتے ہیں انہیں نہ حکومت پسند کرتی ہے اور نہ اپوزیشن۔ انہیں خفیہ کی طرف سے بھی دھمکیاں ملتی ہیں اور سیاستدانوں کی طرف سے بھی یہی کچھ ملتا ہے۔ میری ریسرچ کے مطابق کچھ حضرات کو الفاظ کی بدہضمی ہے تو کچھ حضرات کو علم کی بدہضمی ہے۔ جنہیں علم کی نمائش کا شوق ہے وہ منفی ذہن کے مریض ہیں، وہ مثبت پہلو دیکھنے کے اہل ہی نہیں اور جو فاضل لکھاری تجزیہ نگاری کا بھرم رکھنے کے لئے اندازے لگاتے اور پیش گوئیاں کرتے ہیں ان کے نوے فیصد ”ٹیوے “ غلط ثابت ہوئے ہیں لیکن اگر اتفاق سے ان کا کوئی ایک آدھ اندازہ ٹھیک نکل آئے تو وہ قلمی دکان چمکانے کے لئے اس کا خوب ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔
گفتگو ختم کرتے ہوئے میں نے حسن سے اس کی تحقیق کے نچوڑ کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگا اول تو یہ بات نہایت حوصلہ افزا اور خوش کن ہے کہ پاکستان کا میڈیا آزاد اور طاقتور ہو چکا ہے۔ میڈیا نے بڑی قربانیاں دی ہیں ۔ دوم، پاکستانی کالم نگاروں اور صحافیوں میں پارٹیوں، شخصیات اور ایجنسیوں سے وابستہ حضرات کی تعداد دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے اور جب تک رائے عامہ پختہ اور طاقتور نہیں ہوتی یہ رجحان نہیں بدلے گا۔ سوم ، گزشتہ چند برسوں میں صحافت کی دنیا میں بہت پڑھے لکھے لوگ آئے ہیں جن کی علمی سطح ماضی سے بہت بہتر ہے۔چہارم،پاکستان واحد ملک ہے جہاں بعض اوقات کالم پڑھتے ہوئے رپورٹنگ کا گمان ہوتا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا کہ کالم نگار اپنے کالم کو کسی تقریب کی نذر کر دے اور خبر کے انداز میں تقریب کی روئیداد سنا دے۔ یہاں کالم نگار کبھی اپنے اور کبھی کسی کے طبلچی اور خوشامدی بن جاتے ہیں اور اخبارات کی قیمتی جگہ ضائع کرتے ہیں۔ بات ختم کرتے ہوئے حسن نے وضاحت کی کہ ڈاکٹر صاحب ایسے کالم نگار میری ریسرچ کا حصہ نہیں ہیں جو کام نکلوانے کے لئے ،تصویر چھپوانے کے لئے یا محض کالم لکھنے کے لئے لکھتے ہیں یا کسی اور سے اپنے نام پر لکھواتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ حسن تو بات کر کے غائب ہو گیا لیکن میں پریشانیوں، سوچوں اور حیرانیوں کی وادی میں بھٹکنے لگا۔ مجھے ایک دھچکا سا لگا اور میں اپنے آپ میں گم ہو گیا۔ شاید اس لئے کہ ہم کالم نگار دوسروں کو تو ہر وقت نہایت بہادری سے کٹہرے میں کھڑا کرتے اور ننگا کرتے ہیں لیکن ہمیں خود کٹہرے میں کھڑا ہونے کی عادت نہیں ہوتی۔ ہم لوگوں پر تو پتھر اور پھول پھینکتے ہیں لیکن ہمیں پتھر کھانے کی عادت نہیں ہوتی بلکہ صرف پھولوں کے عادی ہوتے ہیں اور پھول بھی وہ جن کے ساتھ کانٹے نہ ہوں۔
No comments:
Post a Comment