Friday, 18 May 2012

عادت کی سیاست July 28, 2011

ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ انسان چاہے جتنا بھی بڑا انسان بن جائے، وہ پہاڑوں کو روند ڈالے یا دریاؤں کا رخ موڑ دے یا دنیا کو فتح کر لے لیکن وہ اپنی ذات کو فتح نہیں کر سکتا ماسوا اس معدودے لوگوں کے جو اپنی ذات کی نفی کر کے اپنے آپ کو رحمت الٰہی کے سپرد کر دیتے ہیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ انسان اپنی ذات کو فتح نہیں کر سکتا تو اس سے مراد عام لوگ ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان عمر بھر اپنی عادتوں کا غلام اور ضرورتوں کا اسیر رہتا ہے مثلاً ہمارے محبوب صدر زرداری صاحب کو زر سے بہت پیار ہے، وہ کبھی بھی زر کی محبت سے آزاد نہیں ہو سکتے اور اسی لئے انہوں نے ببانگ دہل زر کو نام کا حصہ بنا لیا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کو بھی زر سے محبت ہے اور اس حوالے سے اُن پر کئی الزامات بھی لگ چکے ہیں حتیٰ کہ گزشتہ دنوں ان کے علاقے کے ایک ایم این اے دستی نے رحیم یار خاں میں گیلانی صاحب کی ذات پر کرپشن کے الزامات کے اس قدر چھینٹے اڑائے اور پھینکے کہ ان کی صاف ستھری چمکدار شخصیت گیلی لگنے لگی۔ وزیر اعظم صاحب مفاہمت کے اس قدر دلدادہ ہیں کہ وہ غصے کا اظہار بھی کریں تو ان کی گفتگو فلمی ڈائیلاگ لگتی ہے چنانچہ مفاہمت ان کی عادت ہے اور اس عادت کا سہارا لے کر وہ الزامات پر مٹی ڈال دیتے ہیں۔ مٹی ڈالنے سے یاد آیا کہ مٹی ڈالنا ہمارے چوہدری شجاعت حسین کی محبوب عادت ہے۔ وہ ملک کے وزیر اعظم بنیں یا صرف وزیر بنیں یا کچھ بھی نہ بنیں وہ صبح سے رات تک مٹی ڈالتے رہتے ہیں۔ اس عادت کا ان کو حال ہی میں یہ فائدہ ہوا ہے کہ وہ خون پر مٹی ڈال کر اپنے دیرینہ حریف صدر زرداری صاحب کے حلیف اور دست راست بن گئے ہیں۔ اگر وہ مٹی نہ ڈالتے تو کھلے آسمان تلے پڑے تارے گن رہے ہوتے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا ہے کہ پی پی پی کی قیادت نے ان کی اس صلاحیت سے فائدہ اٹھا کر انہیں ایم کیو ایم کو منانے کے لئے بھیج دیا۔ چوہدری صاحب نے ایم کیو ایم کو بھی مٹی ڈالنے پر رضامند کر کے دونوں گھروں کی لاج رکھ لی۔ وہ یوں کہ پی پی پی بھی ایم کیو ایم سے جدا ہو کر ان کے وصال میں تڑپ رہی تھی جبکہ خود ایم کیو ایم بھی اقتدار کے سمندر سے نکل کر ماہی بے آب کی مانند تڑپ رہی تھی۔ دونوں کی تڑپ کو محبت میں بدل کر چوہدری صاحب نے ثابت کر دیا کہ وہ موجودہ دور کے گاندھی ہیں۔ ویسے یہ منظر بھی دیدنی اور چشم کشا تھا۔ اقتدار کی ماری اور ہمہ وقت اصولوں کا رونا رونے والی ایم کیو ایم جب کوئی پانچویں بار پی پی پی سے علیحدہ ہوئی تو مسلم لیگ (ن) نے دائیں بائیں گھوڑے دوڑانے شروع کر دیئے اور ماضی پر مٹی ڈال کر ایم کیو ایم کو سینے سے لگانے کے لئے کوششیں کرنے لگی۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت ماضی میں ایم کیو ایم پر جس طرح کیچڑ اچھالتی رہی اور جواباً جس طرح ایم کیو ایم مسلم لیگ (ن) کے راہنماؤں کو چوراہے میں ننگا کرتی رہی اس کے بعد یہ ملاپ مفاہمت سے زیادہ منافقت لگتا تھا۔ بہرحال میرے دوست حاجی صاحب اس صورت حال پر ہنستے رہے اور مسلم لیگ (ن) کے ویژن اور سیاسی شعور پر آنسو بہاتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) والے سیاسی طور پر اتنے پیدل ہیں کہ وہ ایم کیو ایم کی چالیں سمجھ ہی نہیں سکے۔ انہوں نے اپنے ضمیر اور دل پر پتھر رکھ کر اسحاق ڈار، میاں شہباز شریف اور پرویز رشید کو ایم کیو ایم سے ایک نیا میثاقِ جمہوریت طے کرنے کے لئے میدان میں اتار دیا ہے اور وہ محبت کی جھولی پھیلائے ان لیڈروں کے پیچھے پھر رہے ہیں جن کی حب الوطنی پر وہ کھلے عام شبہ کرتے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی مجبوری دراصل تنہائی اور خلوت سے نجات حاصل کرنا تھا کیونکہ یہ لوگ خلوت میں بھی جلوت کے عادی ہیں جبکہ ایم کیو ایم نے بڑی ہوشیار سے پتے کھیلے، پی پی پی سے فلمی ناراضگی کا اظہار کیا، اپنی اہمیت جتائی اور مسلم لیگ (ن) کا شیر دکھا کر اندر کھاتے اپنی شرائط منوا لیں اور پھر دامے درمے سخنے اقتدار کی حلیف بھی بن گئی۔ حاجی کے بقول ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) اپنی عادت کے مطابق سیاسی ویژن کے فرنٹ پر مار کھا گی اور ہاتھ ملتی رہ گئی۔ دراصل یہ مسئلہ عادتوں کا ہے جن کے متعلق صوفی شاعر میاں محمد صاحب کا کہنا ہے کہ عادتیں سر کے ساتھ نبھتی ہیں۔ اس طرح کا سیاسی کھیل کہ نخرے دکھلا کر اور اہمیت جتا کر اقتدار سے علیحدگی اور پھر واپسی ایم کیو ایم کی عادت ہے جبکہ تنہا اڑان اور حقیقت سے زیادہ اعتماد جسے چوہدری برادران تکبر کہتے ہیں مسلم لیگ (ن) کی عادت ہے۔ خوشامدیوں درباریوں میں گھرا رہنا مسلم لیگ (ن) کا سیاسی کلچر ہے۔ نتیجے کے طور پر تلخ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا کوئی پختہ سیاسی ویژن بن ہی نہیں سکا۔ انہیں چند دانشور اور پی پی پی کے چند جعلی جیالے میسر آ گئے ہیں جنہوں نے تعریفوں کے پل باندھ کر انہیں مزید تنہا کر دیا ہے اور کسی حد تک قیادت اور جماعت کی سیاسی شناخت بھی مکدر کر دی ہے۔ اسی سیاسی کلچر کا نتیجہ ہے کہ ایک طرف سرانجام خان ناراض ہو کر حجرے میں بند ہو گئے ہیں تو دوسری طرف قربانیوں کے سرخیل جاوید ہاشمی اپنی سیاسی ساکھ اور عزت بچاتے پھرتے ہیں۔ ناراض ساتھیوں اور کارکنوں کی مایوسی کا یہ حال ہے کہ پارٹی انتخابات سے دو دن پہلے تک بہت سے سینئر کارکنوں نے عہدوں اور انتخابات میں سرگرم دلچسپی کا اظہار تک نہیں کیا۔ پارٹی کو جاگیر سمجھنا مسلم لیگ کی پرانی عادت ہے۔ یہ عادت اب بدل نہیں سکتی۔ جو بزرگ مشرف کے دور میں سیاسی تحریک یا احتجاج کے دوران حکمرانوں سے درخواست کر کے گھر میں نظربند ہو جاتے تھے، ان سے چھٹکارا تو قابل فہم ہے لیکن انتخابات سے کئی روز قبل سیکرٹری جنرل کے لئے جناب سرتاج عزیز کی نامزدگی بلا مقابلہ انتخاب کی تیاری کے مترادف ہے۔ جناب سرتاج عزیز ذہین اور بزرگ سیاستدان ہیں اور اعلیٰ شہرت رکھتے ہیں لیکن اول تو وہ بھی راجہ ظفر الحق کی مانند عمر کی اس بریکٹ میں آتے ہیں جہاں سرگرم رول کی بجائے سرپرستانہ رول بہتر ہوتا ہے ۔ دوم وہ قصوری خاندان کی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں ۔ سوم ان کا کارکنوں سے رشتہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ کارکنوں کو متحرک کرنے اور سیاسی تحریک چلانے کا فن نہیں جانتے اس لئے وہ محض مسلم لیگ کے آفس سیکرٹری بن کر رہ جائیں گے اور ماضی کے متحرک سیکرٹری جنرلوں کی یاد تازہ نہیں کر سکیں گے۔ مناسب ہوتا میاں صاحب گھر کی بات گھر میں ہی رہنے دیتے اور خود صدر بن کر اسحاق ڈار صاحب کو سیکرٹری جنرل بنا دیتے جو مقابلتاً جوان ہیں۔ میں نے سیاسی پارٹیوں پر تحقیق اور غور کرتے عمر کا معتدبہ حصہ گزارا ہے ۔ اصولی طور پر جو شخص ایم این اے منتخب نہ ہو سکتا ہو اسے سیکرٹری جنرل نہیں بنانا چاہئے ۔ اسی طرح صدر اور سیکرٹری جنرل کا ایک ہی صوبے سے ہونا پارٹی کی کمزوری اور تہی دامنی کی چغلی کھاتا ہے ۔مشورے دینا اور دخل در معقولات میری عادت ہے اور اپنی مرضی کرنا اور خوابوں کے جزیروں میں رہنا مسلم لیگ (ن) کے قائدین کی عادت ہے۔ چنانچہ ہم سب اپنی اپنی عادت سے مجبور ہیں۔ اسی طرح حکومت کی گرفت کمزور ہونے پر اور متحارب دھڑوں کی قوت آزمائی کے لئے کراچی کا خون بہنا وہاں کے لیڈروں کی عادت بن چکی ہے جس نے کراچی کو لہولہان کر دیا ہے۔ کراچی پاکستان کے صنعتی ماتھے کا جھومر ہے اور ہماری مالی شہ رگ ہے۔ خدا کے لئے قتل و غارت بند کرو اور امن بحال کرو۔ جلتی آگ پر تیل ڈالنے کے لئے سندھ کی تقسیم کی افواہیں نہ اڑاؤ۔ سازشیں تمہاری عادت ہے لیکن یہ سازش تمہیں مہنگی پڑے گی۔ خدا کے لئے بازو آؤ ورنہ مرزا اسلم بیگ سابق آرمی چیف اپنی عادت کے مطابق فوج کو مداخلت کے لئے خط لکھتے رہیں گے۔ اگر تم نے اپنے وطیرے نہ بدلے تو یاد رکھو کہ ایک دن یہ خط حقیقت بن جائیں گے۔ پھر جو ہو گا وہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ 

No comments:

Post a Comment