بلاشبہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے لیکن مکمل آزادی کسی انسان کوبھی نصیب نہیں ہوتی اور محتاجی انسانیت کی خاصیت ہے۔اگر انسان مالی، معاشی اور معاشرتی طورپرمکمل آزاد ہو بھی جائے تووہ کچھ عادتوں کے سبب مجبور ہوتاہے جن سے وہ آزادی حاصل نہیں کرسکتا۔ میرے مشاہدے کے مطابق کچھ لوگ صرف عادت سے مجبور ہو کرجھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ حالانکہ اگروہ سچ بول بھی دیں تواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک صاحب وفاقی وزیراور بعد ازاں گورنر پنجاب ہواکرتے تھے۔وہ اس قدر بہادری اورڈھٹائی سے جھوٹ بولتے تھے کہ لوگوں نے انکا نام ہی ”جھوٹا“ رکھ دیا تھا۔ ہر شے کی فراوانی اور آزادی میسر تھی لیکن وہ اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں بے شمار سیاستدان، حکمران، افسران، صنعت کاران، اور دانشوران دیکھے اور سچی بات یہ ہے کہ ہر شخص کو کسی نہ کسی مجبوری یا مزاج کی بیماری کے سبب مکمل آزادی سے محروم پایا۔ مثلاً ایک صاحب کو لطیفے سنانے کی اس قدر شدید بیماری لاحق تھی کہ وہ موقعہ محل دیکھے بغیر لطیفوں کی دکان سجا لیتے۔ ایک بار ہمارے ایک عزیز دوست کے والد کا انتقال ہوگیا ہم ان کے گھر کے لان میں دریوں اور قالینوں پر بیٹھے قرآنی آیات اور درود شریف پڑھ رہے تھے اتنے میں دور کونے پر نظر پڑی تو پتہ چلا کہ وہ صاحب اپنے چند دوستوں کے ساتھ لطیفوں اور چٹکلوں سے محظوظ ہو رہے ہیں ایک شام ہم کسی تقریب پر اکٹھے تھے مغرب کی اذان ہوئی تو نمازی حضرات ایک طرف ہو کر باجماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام کرنے لگے۔ جب نماز ادا کرنے کے بعد سب حضرات واپس آکر کرسیوں پر بیٹھ گئے تو ان صاحب سے نہ رہا جا سکا کیونکہ نہ جانے کتنے منٹوں سے وہ صبر کئے بیٹھے تھے چنانچہ انہوں نے امامت کے حوالے سے ایسا لطیفہ سنایا کہ میں شرم سے پانی پانی ہوگیا اور غصے سے اٹھ کر دوسری طرف چلا گیا۔ خاصی دیر تک میں پریشانی اور صدمے کے عالم میں سوچتا رہا کہ یہ صاحب اپنی عادت سے اس قدر مجبور ہیں کہ انہیں نماز کے تقدس کا بھی احساس نہیں رہا۔
میرے جاننے والوں میں ایک صاحب نہایت دولت مند، صنعت کار اور سیٹھوں کے سیٹھ ہیں، دولت اور اقتدار گردن تواکڑا ہی دیتا ہے اورچہرے پررعونت اور تکبرکی چھاپ بھی لگا دیتاہے لیکن عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کو دولت مندی کے اظہارکی بھی شدید بیماری لاحق ہوتی ہے۔ ان صاحب سے میری پہلی ملاقات نہایت دلچسپ تھی کیونکہ اس کے بعد ان کی دولت کی شیخی اور امارت کا غرورمیرے لئے معمول کی بات بن گئی۔ وہ جب پہلی مرتبہ مجھے ملنے میرے گھر تشریف لائے تو بیٹھتے ہی فرمانے لگے۔ ”میں پرسوں اسلام آباد بورڈآف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین سے ملنے گیا تھا۔ اس نے مجھے پندرہ منٹ انتظار کروایا چنانچہ جب ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے ہاتھ ملاتے ہی کہا کہ چیئرمین صاحب میں نہایت مصروف انسا ن ہوں۔ میری روزانہ آمدنی ایک کروڑ روپے ہے۔ آپ نے میرے پندرہ منٹ ضائع کردیئے۔“ میں سمجھ گیا کہ اس روداد کا مقصد مجھے ایک کروڑ روپے روزانہ آمدنی کی خبر سنانا تھا۔ ان صاحب کی مجبوری تھی دولت کی شیخی مارنااور دولت کے انبار پر کھڑے ہو کردوسروں پررعب جھاڑنا۔ میں بھی اپنی عادت سے مجبور تھا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں کلی طور پر آزاد انسان نہیں ہوں۔ میں بھی چند عادات کا غلام ہوں جن میں سچ کا پتھر مارنا اور شیخی مارنے والوں کی ”پھوک“ نکالنا میری وہ عادتیں ہیں جن کے طفیل میں نے زندگی میں کئی دشمن کمائے ہیں۔ مطلب کہنے کا یہ تھا کہ سچ بولنا اور شے ہے اور سچ کا پتھر مارنا یا سچ سے سر پھوڑنا دوسری بات ہے۔ میری یہ بری عادت ہے کہ میں اکثر سچ سے سرپھوڑ دیتا ہوں اور لوگوں کو ناراض کردیتا ہوں۔ مختصر یہ کہ جب وہ نودولتئے مجھے ایک کروڑ روپے کی خبرسنا چکے تو میں نے بڑے پیار سے ان کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور عرض کیا کہ حضور دولت تو آپ کی اپنی ہے۔ میں نہ اس میں حصہ دارہوں اور نہ ہی مجھے اس سے فرق پڑتا ہے۔ میں توفقط آپ کے اخلاق میں حصہ دارہوں اورمجھے اگر کوئی فرق پڑتا ہے تو وہ آپ کے اخلاق سے۔ رہی آپ کی دولت تو وہ آپ کو مبارک۔ آپ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور مجھے بھی وہی میسر ہوتا ہے۔ نہ آ پ کے آلوشوربے میں ہیرے ہوتے ہیں اور نہ میرے شوربے میں۔میری بات سن کر وہ فوراً سنبھلے اور موضوع بدل کر سیاست پرگفتگو کرنے لگے کیونکہ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ میں دولت کی شیخی سے متاثر نہیں ہوتا۔ سیاست کا ذکر چھڑا تو انہوں نے بڑے بڑے نام ڈراپ کرنا شروع کردیئے اوراپنے تعلقات کی شیخی بگھارنے لگے۔ مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے پھر سچ سے ان کا سر پھوڑ دیا۔ میں نے عرض کیا کہ حضور میں اتفاق سے ان تمام لیڈروں کو جانتا ہوں ۔ ان میں سے کچھ تودولت کے سہارے لیڈر بنے بیٹھے ہیں، کچھ مقدر کی وجہ سے چمک رہے ہیں اور کچھ موروثی سیاست کا تحفہ ہیں۔ الا ماشاء اللہ ان میں سے کسی میں بھی سیاسی وژن، ذہنی بلوغت اور قوم کی رہنمائی کرنے یا ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگلے انتخابات میں نئی لہر چلے گی اور ان سب کی کجکلاہی کا غرور عوامی غصے سے ٹکرا کرپاش پاش ہوجائے گا۔ یہ بڑھکیں مارنے والے، یہ ووٹ بنک اور مقبولیت کے دعویدار اور یہ جعلی انقلاب کی نویدیں سنانے والے سب کے سب تماشا بن کر رہ جائیں گے۔
ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ انسان کبھی بھی کلی طور پر آزاد نہیں ہوتا کیونکہ وہ کسی نہ کسی عادت کا اسیر ہوتا ہے جو اس کی مجبوری بن کر اسے مکمل آزادی سے محروم رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ میں دنیا داروں کی بات کر رہا ہوں اور دنیا تو نام ہی مجبوریوں اور معذوریوں کا ہے۔ میں فقیر منش یا اولیاء اکرام کا ذکر نہیں کر رہا جنہوں نے سب کچھ اپنے رب کے حوالے کرکے اپنے آپ کو دنیا سے آزاد کرا لیا ہوتا ہے۔ وہ بھی محتاج ہوتے ہیں کہ محتاجی انسانی فطرت کا خاصا ہوتا ہے لیکن وہ محتاج رضائے الٰہی کے ہوتے ہیں نہ کہ دنیا کے۔ جبکہ ہم دنیا دار دنیا کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس لئے میں عرض کر رہا ہوں کہ انسان دنیا کی تمام تر نعمتوں کے میسر ہونے کے باوجود کلی طور پر آزاد نہیں ہوتا اور کسی نہ کسی حوالے سے محتاج ہی رہتا ہے شاید یہی انسانیت کا خاصا ہے اور یہی منشائے الٰہی ہے؟ فرعون فرعونیت کی علامت بن کر تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے لیکن وہ بھی فرعون بننے کے لئے جادوگروں کا محتاج تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے مقابلے میں جادوگروں کو اکٹھا کیا…؟؟ سکندراعظم بھی محتاج تھا اور ہٹلر و مسولینی بھی۔ گویا محتاجی انسانیت کی خاصیت بھی ہے اور شان بھی۔
No comments:
Post a Comment