آتا ہے جواب آخر August 01, 2011
بات یہ ہے کہ صرف کتابیں پڑھنے سے بات نہیں بنتی کیونکہ علم کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ اول تو وہ علم جو ہمیں کتابوں سے حاصل ہوتا ہے اور دوم وہ علم جو زندگی کی کتاب پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ میرا مشاہدہ شاہد ہے بات کچھ کچھ اس وقت بنتی ہے جب کتابی علم کو کتاب ِ زیست کے علم کے ساتھ ملایا جائے اور نتائج اخذ کئے جائیں۔مشکل یہ ہے کہ زندگی کی کتاب پڑھتے پڑھتے اور علم حاصل کرتے زندگی بیت جاتی ہے اور بال سفید ہو جاتے ہیں یا پھر غائب ہوجاتے ہیں۔جوانی تو نام ہے خواب اور رومانس کا اور جوانی تک انسان خوابوں کی دنیا میں ہی رہتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ قیامت تک زندہ رہوں گا، پہاڑوں کی چوٹیوں کو فتح کروں گا اور نقش دوام بن کر تاریخ میں محفوظ ہوجاؤں گا۔ چنانچہ جوانی تک کتابی علم پر بھی خواب اور خیال چھائے رہتے ہیں۔ یہ خواب اور خیال طلسم اس وقت چھٹتے ہیں جب وقت بالوں کی مانگ میں چاندی بھرتا ہے اور سر پر برف سی سپیدی چھانے لگتی ہے۔ اس منزل پر پہنچ کر ذہنی پختگی کا عمل شروع ہو تاہے اور انسان رومانس کی وادیوں سے نکل کر حقائق کی چٹانیں تراشنے لگتا ہے۔ تب زندگی کی وہ حقیقتیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں جنہیں جوانی کے جوش، جذبے اور خواب نے بادلوں میں چھپا رکھا تھا اور جنہیں انسان خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں تھا۔ تب کتابوں سے حاصل کیا گیا علم زندگی کی کتاب کے علم کے ساتھ مل کر انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور زندگی کے نشیب وفراز سے بہتر نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ اسی صلاحیت کوہم ویژن کہتے ہیں اور ویژن کا مطلب ہوتا ہے آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ… یعنی مستقبل کے اندھیروں کو پاٹ کر آنے والے چیلنجوں کو سمجھنا، آنے والی مشکلات کا اندازہ لگا کر حکمتِ عملی وضع کرنا اور موجودہ صورت کی مضمرات کا ادراک کرنا ہی ویژن یا بصیرت کہلاتا ہے۔ اللہ کے نیک بندوں پر بھی مستقبل کا حال کھلتا ہے لیکن اسے عرف عام میں کشف کہتے ہیں نہ کہ ویژن… لطف کے ذریعے جتنی انفارمیشن اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اپنے پسندیدہ بندوں کو دیتاہے اور چونکہ یہ انفارمیشن اللہ سبحانہ تعالیٰ کے خزانوں سے نازل ہوتی ہے اس لئے یہ پتھر پر لکیر ہوتی ہے البتہ اگر اس میں صاحب کشف اپنی سمجھ بوجھ سے کمی اضافہ کرلے تو کبھی کبھی وہ اطلاع اس حد تک غلط بھی ہو جاتی ہے جبکہ ویژن یا بصیرت انسان کے اپنے علم اور مطالعے و مشاہدے کی پیداوار ہوتی ہے۔ اس لئے یہ صلاحیت ہر انسان میں ایک جیسی نہیں ہوتی جس طرح ذہانت اور نظر ہر انسان کی مختلف اور الگ الگ ہوتی ہے۔ بلاشبہ ذہانت، صلاحیت اور نظر اللہ کی دین ہے لیکن اس کی پرورش کرکے اسے ترقی دینا اور بلندیوں پر لے جانا انسان کے اپنے بس میں ہوتا ہے۔ میں نے زندگی میں ایسے سینکڑوں انسان دیکھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خاص ذہانت دی تھی لیکن انہیں اس ذہانت کو پالش کرنے یا محنت و مطالعے کے ذریعے بلندیوں پر لے جانے کے مواقع نہ ملے چنانچہ ان کی ذہانت دھری کی دھری رہ گئی اور چھوٹے چھوٹے کاموں میں استعمال ہوتی رہی۔ جب میں مواقع کی نایابی کی بات کرتا ہوں تو اس میں غربت اور ماحول اہم ترین عوامل ہوتے ہیں جو انسان کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جنہیں قدرت نے ذہانت سے نوازا تھا اور حالات بھی سازگار تھے لیکن ان کی اپنی افتاد طبع نے انہیں ذہانت کی پرورش کرنے اور اسے چمکا کر دوسروں کی نظروں کو چکاچوند کرنے سے محروم رکھا۔ جب انسان کو ذہانت بھی ودیعت کی گئی ہو اور وہ محنت اور گہرے مطالعے کے ذریعے اسے اتنی ترقی دے کہ اس کا ویژن نئی بلندیوں کو چھونے لگے اور اسے الہامی کیفیت کا تجربہ ہونے لگے تو اسے عرف عام میں مقدرکا سکندر کہتے ہیں حالانکہ اس مقدر کو بنانے میں اس شخص کی اپنی جان سوزی، محنت اور گہرے مطالعے کا بے حد دخل ہوتا ہے۔ اس کی مثال علامہ اقبال ہیں۔ میں نے علامہ کے کئی ہم عصر شاعروں اورعالم وفاضل حضرات کے تبصرے پڑھے ہیں جوکہتے ہیں کہ”اقبال شروع میں تو یہ نہیں تھا جوبعد ازاں بن گیا“ ایک صاحب علامہ اقبال کے ساتھ لاہور کے بھاٹی گیٹ اور دوسری ادبی انجمنوں میں شریک ہوتے تھے۔ یہ اقبال کی جوانی کے ایام تھے اور ابھی ان کی فکر کو قلم، مطالعے اور مشاہدے کی بھٹی میں پکنا تھا چنانچہ اس دور میں اقبال اسی طرح عشقیہ شاعری کرتے تھے جس طرح کی ان کے دوسرے نوجوان ہم عصر شعراء کرتے تھے۔ جب اللہ سبحانہ تعالی نے اقبال کے جوہر قابل کی کیمبرج، ہائیڈل برگ اورفقراء کی خانقاہوں میں پرورش کی، قرآن حکیم کے گہرے مطالعے اور روحانی فیض کے ذریعے ان کے باطن کی آنکھ کھول دی تو وہی نوجوان اقبال مولانا روم کے رنگ میں رنگتا چلا گیا۔ مجھے کہنے دیجئے کہ پھراسی کبوتر پالنے والے اور حقہ پینے والے عاشق مزاج اقبال کے اندر ایک دوسرا اقبال پیدا ہوگیا جس نے نہ صرف اقبال ہونے کا ثبوت دے دیا بلکہ عالم ہستی میں نقش دوام بن کر محفوظ ہو گیا۔یہ وہ اقبال تھا جو حضرت مجدد الف ثانی کے مزار پر حاضر ہو کر پہروں روتا رہا اور یہ وہ اقبال تھا جس نے اپنے والد کے فرمان کی خلوص سے تعمیل کی اور زندگی کے آخری ایام میں اپنے والد سے پوچھا کہ آپ نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں اسلام کی خدمت کروں گا۔ کیا میں نے وہ وعدہ پورا کردیا۔ والد گرامی نے جواب دیا ہاں تم نے اپنا وعدہ اور میری خواہش پوری کردی۔ اس وعدے کی تکمیل کے لئے ان کے والد نے اپنا پیٹ کاٹ کر اقبال کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور اسی وعدے کی تکمیل کے لئے ان کے بھائی نے آبائی گھر بیچ کر اقبال کو اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان بھیجا۔ اقبال سے پہلے اور اقبال کے بعد کتنے ہی ہندوستانی طلبہ اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان گئے لیکن آج کسی کو ان کا نام بھی یاد نہیں البتہ میں ایسے کئی ناموں سے مانوس ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کتنے والدین اپنے بچوں سے دین کی یا انسانیت کی خدمت کا وعدہ لیتے اور اس آرزو کی تپش میں سلگتے رہتے ہیں اور کتنے بچوں کو والدین کے ساتھ کئے وعدے یاد رہتے ہیں!! انگریز نے دنیا پر اور ہندوستان پر طویل عرصے تک حکومت کی۔ انگریز ہرگز جسمانی طور پر ہم سے زیادہ طاقتور نہیں تھا۔ ہندوستان کے اکھاڑے بڑے بڑے عالمی سطح کے پہلوانوں اور رستم زماں گاما سے بھرے پڑے تھے۔ انگریزکو ہم پرذہنی بالاتری، سائنسی اور تعلیمی برتری حاصل تھی جس کی بنیاد پر وہ وطن سے ہزاروں میل دور جا کر قوموں کو غلام بناتا رہا۔ کیمبرج یونیورسٹی کی ایک تحقیقی رپورٹ چند برس قبل میری نظر سے گزری تو میں گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ اس رپورٹ کے مطابق چند درجن انگریز ذہن تھے جنہوں نے صدیوں تک انگریزی سلطنت میں سورج غروب نہ ہونے دیا۔ ہمارا کل بھی المیہ یہی تھا اور آج بھی المیہ یہی ہے کہ ہم بصیرت اور کردار سے محروم قیادت سے علمی، سائنسی اور معاشی ترقی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اقبال اورجناح نے مل کرہماری صفوں میں انقلاب برپا کردیا تھا اور دنیا کے نقشے میں ایک آزاد مملکت کا اضافہ کرکے تاریخی کارنامہ سرانجام دے دیا لیکن پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ میں نہیں جانتا کہ ہم کب تک ان اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے البتہ مجھے یقین کامل ہے کہ قوم کی تڑپ، بے چینی، تبدیلی کی شدید خواہش اور دعا یقیناً رنگ لائے گی اور قوم کے نالوں کا بالآخر آسمانوں سے جواب آئے گا کیونکہ نالہ وفریاد کبھی ضائع نہیں جاتے۔وقت دور نہیں، آتا ہے جواب آخر۔
No comments:
Post a Comment