1965
کی جنگ میں میرے ایک عزیز شدید زخمی ہوگئے۔ وہ فوج میں میجر تھے ، دوران جنگ ان کے قریب ایک خوفناک بم پھٹا جس میں زندہ رہنا معجزے سے کم نہیں تھا لیکن ا س بم دھماکے کی خوفناک آواز نے ان کے ایک کان کا پردہ مجروح کردیا اور ان کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ میں جب ہسپتال میں انہیں دیکھنے گیا تو وہ بے ہوش پڑے تھے۔ پتہ چلا کہ بم کے زمین دوز دھماکے کی آواز نے ان پر اس طرح خوف کا عالم طاری کیا ہے کہ وہ ہوش میں آتے ہیں اور پھر صدمے سے بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ آج کل میں بھی کچھ اس طرح کے بم دھماکے کی زمیں دوز آواز سے بے ہوش پڑا ہوا ہوں اور یہ دھماکہ ہے میرے ایک مہربان مرحوم دوست کے داماد ڈاکٹر ذوالفقارمرزا کے اس بیان کا جس میں انہوں نے مہاجرین پر غصہ نکالا ہے اور کچھ اس طرح کی باتیں کی ہیں جنہیں پڑھ کر میں کئی دنوں سے صدمے کی حالت میں ہوں۔یہی وجہ ہے کہ میں کالم کئی دنوں کے وقفے سے لکھ رہا ہوں۔ مرزا صاحب اکثر زبان کی کلاشنکوف سے گولیاں چلاتے رہتے ہیں لیکن اس بار انہوں نے الفاظ کا بم دھماکہ کیا ہے جس نے زمیں ہلا کر رکھ دی ہے۔ حضرت علی کا قول ہے کہ ہر شخص کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس قول کے مطابق مرزا صاحب وقتاً فوقتاً اپنے باطن کا بے لگام اظہار کرتے رہتے ہیں اور میں ہر بار محسوس کرتا ہوں کہ میرے مہربان نرم خو دوست اور مرزا صاحب کے سسر جناب قاضی عابد مرحوم کی روح قبر میں تڑپ گئی ہوگی کہ انہوں نے کس”شیریں گفتار“ کو گلے لگالیا؟
قیام پاکستان کے وقت میں کم سن تھا اور میرا تعلق موجودہ پنجاب سے ہے اس لئے میں نے پاکستان بنتے نہیں دیکھا لیکن کتابوں میں پڑھا بہت کچھ ہے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ مرزا ذوالفقار مہاجرین کی تاریخی قربانیوں اور انمٹ ایثار سے آگاہ نہ ہوں اور انہیں اس حقیقت کا بھی ادراک نہ ہو کہ نہ صرف قیام پاکستان بلکہ قیام کے بعد استحکام پاکستان میں بھی مہاجروں کا کردار قابل رشک اورتاریخی تھا۔ آج اگر ہم آزاد پاکستان میں سانس لے رہے ہیں تو اس کا بڑا کریڈٹ مہاجرین کی قربانیوں کو جاتا ہے۔پاکستان بنا تو ہجرت کو ہجرت مدینہ سے تشبیہ دی گئی اور اسی جذبے سے سارے صوبوں کے لوگ ریلوے اسٹیشنوں پر مہاجرین کی آمد کے منتظر رہتے تھے ان کا استقبال کرتے اور مہمان نوازی سے ان کے زخموں پر مرہم رکھتے تھے۔ گھر بار، دولت و کاروبار لٹا کر اور اپنے پیاروں کی قربانی دے کر آنے والے مہاجرین کے جوش و جذبے اور پاک دھرتی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی سجدہ ریز ہوجاتے ۔ یہی مہاجرین تھے جو اپنے غم بھلا کر نئے وطن کی تعمیر میں ہمہ وقتی مصروف ہوگئے لیکن ذرا ہماری قومی بدقسمتی اور جذبوں کے لٹنے کا منظر ملاحظہ فرمائیے کہ اسی نسل کے ایک نمائندے نے یہ فرمادیا تھا کہ اگر و ہ 1945-46ء کے انتخابات کے وقت موجود ہوتے تو قیام پاکستان کے خلاف ووٹ دیتے۔ حالانکہ قیام پاکستان کا راستہ تو مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی جیسے قدرآور بزرگوں کا مخالفانہ ووٹ بھی نہ روک سکا ۔بات جذبے اور لگاؤ کی ہے اور ہماری قومی ناکامی یہ ہے کہ جن مہاجرین نے قیام پاکستان کے لئے سب کچھ قربان کردیا ان کی نوجوان نسل کا نمائندہ کہتا ہے کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو پاکستان نہ بنتا۔ اسی ناکامی کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جس مرزا ذوالفقار کے بزرگوں نے ریلوے ا سٹیشنوں پر مہاجرین کے گرم جوش استقبال کئے تھے انہی کا نوجوان نمائندہ آج مہاجرین کو جلی کٹی سنارہا ہے۔
لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
ہمارے قومی کارواں کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ وہ جذبہ ،وہ محبت، وہ ایثار، وہ رواداری اور یگانگت کہاں گئی اور یہ باہمی نفرت، ملک سے بدظنی اور فرقہ واریت کہاں سے آگئی؟ وقتاً فوقتاً پھٹ جانا اور زرداری صاحب پر چھینٹیں ڈال دینا مرزا ذوالفقار کی عادت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ زرداری صاحب اس کا علاج کیوں نہیں کرتے اور ناقدین کو یہ کہنے کا موقع کیوں دیتے ہیں کہ مرزا ان کی تھپکی کے بغیر ہرگز نہیں بول سکتااور یہ ایک سیاسی چال ہے سندھ کے ووٹروں کو مطمئن کرنے کی۔ میرے نزدیک ہماری انہی ناسمجھ چالوں نے قوم میں تفریق کے بیج بوئے اور باہمی محبت کو نفرت سے بدلا ہے۔خدارا قوم کو جوڑنے کی سیاست کرو نہ کہ قوم کو توڑنے کی۔
شہر قائد میں کھڑے ہوکر مہاجرین پر طعنوں کی بارش کرنے والے بھول گئے کہ یہ وہ لوگ ہمیں جو قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان میں آئے تھے اور یہ لوگ قائد اعظم کی امانت ہیں۔ خود قائد اعظم بھی عملی طور پر مہاجر ہی تھے کیونکہ انہوں نے کراچی کو خیر باد کہہ کر بمبئی کو اپنا وطن اور دہلی کو اپنا گھر بنالیا تھا۔اپنی تاریخ کھنگال لیجئے آپ کو قائد اعظم جیسی ایثار کی مثال نہیں ملے گی جنہوں نے ساری زندگی اور زندگی کا ہر سانس قوم کے لئے وقف کردیا اور ساری جائیداد خاندان کے لئے تھوڑا سا حصہ نکالنے کے بعد قوم کو دے دی۔ مہاجرین کو ایثار کی دوسری مثال نوابزادہ لیاقت علی خان تھے جو مشرقی پنجاب میں سینکڑوں مربع اراضی چھوڑ کر آئے تھے لیکن پاکستان میں انہوں نے متروکہ جائیداد کے بدلے ایک ایکڑ زمین بھی الاٹ نہ کروائی حالانکہ وہ ملک کے وزیر اعظم تھے۔ ان دونوں بزرگ رہنماؤں کی زندگی سادگی، ایثار اور قوم سے محبت کی اعلیٰ ترین مثالیں تھیں اور ہمارے موجودہ لیڈروں کے برعکس قومی خزانے پر کم سے کم بوجھ ڈالتے تھے۔ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے معیار اور انداز زندگی کا مطالعہ کریں تو احساس ہوتا ہے کہ ان کا معیار زندگی حکومت پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری سے بہتر نہیں تھا جب کہ موجودہ حکمران تو مغل بادشاہوں کی یادیں تازہ کررہے ہیں۔ منہ پھٹ ذوالفقار مرزا نے مہاجرین کی قربانیوں پر کیچڑ اچھال کر نفرت کے جذبات کو ہوادی ہے جس کے نتائج دور رس اور افسوسناک ہوں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا باہمی نفرت ،تفریق اور صوبائیت کے بیج بونے والے اس ملک و قوم کے دوست ہیں یا نادان دشمن؟
کوئی تیرہ چودہ برس گزرے میں ہالینڈ کے دورے پر تھا۔ ہالینڈ کے دارالحکومت ڈین ہاگ گیا تو پاکستانی سفیر نے اپنی رہائشگاہ پر رات کے کھانے پر بلایا۔میں سفیر کی رہائش گاہ کی خوبصورتی سے متاثر ہو کراسے محل سے تشبیہ دے بیٹھا تو سفیر محترم نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب یہ شاہی محلات میں سے ہی ایک محل تھا۔ میں حیرت زدہ ہو کر اس کی طرف تکنے لگا پھر اس نے بتایا کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ان کی بیوہ محترمہ رعنا لیاقت یہاں سفیر بن کر آئیں تو انہوں نے اپنی صلاحیتوں سے شاہی خاندان میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرلیا۔ وہ ملکہ کے ساتھ اکثر چیس کھیلتی تھیں اور ان کی دوست بن گئی تھیں۔ ایک دن چیس کی بازی بڑے خطرناک موڑ پر آگئی توملکہ نے جذباتی ہو کر کہا اگر تم آج یہ بازی جیت جاؤ تو یہ محل تمہارا۔ خدا کا کرنا یوں ہوا کہ مرحومہ رعنا لیاقت علی یہ بازی جیت گئیں اور انہوں نے یہ محل حکومت پاکستان کو دے دیا۔میں نہ مہاجر ہوں نہ کسی سیاسی تنظیم کا مہرہ، مہاجرین کے ایثار کا مذاق اڑانے والے مجھے ساری تاریخ کھنگال کرکوئی ایسی مثال دکھادیں جن کا موازنہ قائد اعظم اور قائد ملت کی ان چند مثالوں سے کیا جاسکتا ہو۔ خدا کا خوف کرو۔ سیاست دھری رہ جائے گی ایک دن ہمیں اپنے اعمال کا حساب بھی دینا ہوگا۔ ذرا سوچو تم اپنی زبانوں کا حساب کیسے دوگے؟؟
No comments:
Post a Comment