Friday, 18 May 2012

دیگ کا ایک دانہ July 20, 2011

ماشاء اللہ مسلم لیگ (ن) کے انجم عقیل تو مقبولیت میں نہرو، گاندھی، غفار خان، ولی خان حتیٰ کہ اپنے قائد محترم میاں نواز شریف صاحب کو بھی بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ نہرو، گاندھی، غفار خان، ولی خان، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا مودودی اور ذوالفقار علی بھٹو کئی بار جیل گئے لیکن کتنے بے حس اور بے جذبہ تھے ان کے سیاسی کارکن اور پیروکار کہ کبھی انہیں حوالات کے دروازے توڑ کر نہ چھڑایا گیا نہ بھگایا گیا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ محترم میاں نواز شریف صاحب ایک فوجی آمر کی جیل میں بند تھے لیکن ان کے جانثاروں نے انہیں چھڑانے کی ذرا بھی کوشش نہ کی حالانکہ یہی جانثار ان کے جیل جانے سے قبل قدم قدم پر نعرے لگاتے تھے ”قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں“ لیکن قدم اٹھا کر جب نواز شریف نے دیکھا تو پیچھے صرف اسے گرفتار کرنے والے سرکاری اہلکار تھے اور چوری کھانے والے طوطے اپنے گھروں میں بیٹھے حلیم نان سے ناشتے کر رہے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے تو نہرو، گاندھی اور بھٹو جیسے مقبول لیڈروں پر ترس آتا ہے جن پر انجم عقیل بازی لے گئے ہیں حالانکہ ان لیڈروں کی مقبولیت کا گراف نوے فیصد اور ساٹھ فیصد تھا جبکہ انجم عقیل بیچارا تو نہ تیرہ میں نہ تینوں میں۔ انجم عقیل تو کل تک اسلام آباد میں پراپرٹی ڈیلر تھا اور مسلم لیگ (ن) نے اس کی دولت سے متاثر ہو کر اسے پارٹی ٹکٹ دے دیا اور خدا کا کرنا دیکھو کہ وہ اپنے لیڈروں سے بھی زیادہ مقبول اور طاقتور نکلا اور ہاں میری نالائقی اور کم علمی دیکھئے کہ میں کئی برس اسلام آباد رہا لیکن میں اتنی مقبول اور پاپولر شخصیت کے نام سے مانوس بھی نہ تھا۔ میں نے اس کا نام پہلی بار اس وقت سنا جب بذریعہ ٹیلی ویژن پتہ چلا کہ اصول پرست جماعت کے ایم این اے صاحب پولیس فاؤنڈیشن سے پلاٹوں اور زمین کے گھپلے میں فقط چھ ارب روپے کی کرپشن میں ملوث ہیں۔ دوبارہ ان کا ذکر اس وقت سنا جب انہوں نے سپریم کورٹ کے خوف اور پولیس فاؤنڈیشن کے سابق حاکموں کی منت سماجت سے متاثر ہو کر ”مال غنیمت“ واپس کر دیا اور اب پھر ان کا اسم گرامی اس وقت میڈیا کی زینت بنا جب پولیس نے ہمت کر کے انہیں گرفتار کیا حالانکہ یہ مقدمہ 2010 میں درج ہوا تھا اور ان کے حمایتیوں نے پولیس کو شکست دے کر انہیں تھانے سے چھڑا لیا۔ یہ خبر پڑھ کر میں اپنی کم علمی پر افسوس کرتا رہا کہ ایسی مقبول اور نابغہ روزگار شخصیت کے تعارف سے محروم رہا۔ خیر یار زندہ صحبت باقی۔ ہمارے اراکین اسمبلی کی اکثریت خاص طور پر جاگیرداروں وڈیروں اور دیہی خداؤں نے اپنے اپنے ڈیروں پر ایسے لاتعداد ”کن ٹٹے“ اور بدمعاش بٹھا رکھے ہیں جن کا کام ہی باغی سروں کو صراط مستقیم پر ڈالنا، حکم نہ ماننے والوں کو سبق سکھانا اور مخالفوں کو راہ راست پر لانا ہے۔ اس کا ایک ہلکا سا مظاہرہ چند روز قبل سیالکوٹ میں ہوا تھا جہاں وریو فیملی کے طاقتور چودھریوں نے حکم عدولی کرنے والے پر اس قدر ظلم کیا کہ وہ اس ”جہان بے انصافی“ سے چلا گیا۔ شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو کہ خواتین پر ظلم و ستم اور اپنے مخالفوں کو اپنے ڈیروں پر لا کر تشدد کی وارداتیں اخبارات میں نہ چھپتی ہوں۔ پولیس خاموش تماشائی بنی کمزوروں کے پٹنے اور مٹنے کے تماشے دیکھتی رہتی ہے چنانچہ جب کبھی اس علاقے کا تھانے دار مشکل میں گرفتار ہوتا ہے تو ایم پی اے صاحب اس کے سفارشی بن جاتے ہیں۔ اس طرح منتخب اراکین اسمبلی اور پولیس مل جل کر صوبوں کا انتظام چلا رہے ہیں، انصاف کا بول بالا کر رہے ہیں اور قانون کی عملداری کا جھنڈا بلند کر رہے ہیں پھر بھی سیاستدان یہ چاہتے ہیں کہ ان کے کرتوتوں پر پردہ ڈالا جائے کیونکہ ان کو بے نقاب کرنے سے جمہوری نظام کمزور ہوتا ہے اور جمہوری نظام کمزور ہو تو فوج آ جاتی ہے۔ جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگانے والوں میں میں بھی شامل ہوں بلکہ صف اول میں کھڑا ہوں لیکن کیا اس نعرے کا مطلب قانون کو پامال کرنے والوں، ظالموں اور حرام کمانے والوں کی پردہ پوشی ہے؟ 
انجم عقیل کی بے پناہ دولت نے تو ایسے تجربہ کار ”وار داتیے“ بھرتی کر رکھے تھے جنہوں نے تھانے پر حملہ کر کے اسے چھڑا لیا ورنہ ایسے لوگوں کے لئے حوالات اور جیل بھی گھر کا ڈرائنگ روم ہوتا ہے۔ رات گھر بسر کرنا اور دن حوالات میں بیٹھ کر کھانا پینا ایسے با اثر حضرات کا معمول ہوتا ہے اور ایک دو دنوں کی معمولی مشقت کے بعد کسی ٹھنڈے ہسپتال منتقلی ان کا طے شدہ لائحہ عمل ہوتا ہے۔ یہاں تک لکھ چکا ہوں تو میرے قلم نے خون کے آنسو بہانے شروع کر دیئے ہیں اور مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ جس ملک کے قانون ساز خود قانون کو پامال کرتے ہوں کیا اس ملک میں قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے؟ کیا وہاں قانون ساز اداروں اور اسمبلیوں کے وقار اور احترام کا تصور باقی رہتا ہے؟ انجم عقیل تو ہماری جاگیردارانہ اور منافقانہ سیاست کی محض علامت اور دیگ کا ایک دانہ ہے ورنہ کیا ہمارے اراکین تھانے سے لے کر ٹریفک تک دن رات قانون نہیں توڑتے؟ مجرموں کی سفارشیں نہیں کرتے؟ چوروں اور بدمعاشوں کی سرپرستی نہیں کرتے؟ اپنے حلقے میں اپنی پسند کے اہل کار تعینات کروا کر علاقے کی حکمرانی نہیں کرتے؟ کرپشن، قبضہ گروپ اور دولت بنانے میں مصروف نہیں رہتے؟ میرا قلم مجھ سے پوچھتا ہے کہ جن اسمبلیوں کی ایک بڑی تعداد نے جعلی ڈگریوں اور جھوٹے حلف نامے دے کر الیکشن لڑے ہوں، جھوٹے حلف اٹھائے ہوں اور جن اسمبلیوں کی ایک بڑی تعداد کے خلاف تھانوں میں مقدمات رجسٹر ہوں کیا وہ اسمبلیاں عوام کے دلوں میں احترام کما سکتی ہیں اور کیا ایسی اسمبلیاں اقتدار اعلیٰ کا خواب دیکھ سکتی ہیں؟ تم مجھ سے پوچھتے ہو کہ ہماری اسمبلیوں کی قرار دادوں کو ردی کی ٹوکری میں کیوں پھینک دیا جاتا ہے؟ تمہارے اس سوال کا جواب وہی ہے جو میں لکھ چکا۔ جب قانون ساز قانون شکنی کے مرتکب ہوں، جب حکومتیں عدالتوں کے فیصلوں اور احکامات پر عمل نہ کریں، جب کرپٹ لوگ کرپشن روکنے پر مامور ہوں، جب خزانہ چور خزانے کی حفاظت پر تعینات ہوں اور عوام کے نمائندے جعلی ڈگریوں اور جھوٹے حلف ناموں کا سہارا لے کر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں تو نہ ایسی اسمبلیاں احترام کی مستحق ٹھہرتی ہیں اور نہ ایسا نظام پائیدار ہوتا ہے۔ کان کھول کر سن لو کہ جب قانون ساز قانون پامالی کرنے لگیں تو ملک میں انتشار پھیلتا ہے، قانون شکنی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ہر کوئی اپنی اپنی طاقت کے مطابق قانون ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ دراصل یہ نظام کی ناکامی کی علامتیں ہوتی ہیں اور اسی چور دروازے سے مہم جو داخل ہوتے ہیں اور اسی لئے عوام پھولوں کے ہار لئے ان کا استقبال کرتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment