انجم عقیل کی بے پناہ دولت نے تو ایسے تجربہ کار ”وار داتیے“ بھرتی کر رکھے تھے جنہوں نے تھانے پر حملہ کر کے اسے چھڑا لیا ورنہ ایسے لوگوں کے لئے حوالات اور جیل بھی گھر کا ڈرائنگ روم ہوتا ہے۔ رات گھر بسر کرنا اور دن حوالات میں بیٹھ کر کھانا پینا ایسے با اثر حضرات کا معمول ہوتا ہے اور ایک دو دنوں کی معمولی مشقت کے بعد کسی ٹھنڈے ہسپتال منتقلی ان کا طے شدہ لائحہ عمل ہوتا ہے۔ یہاں تک لکھ چکا ہوں تو میرے قلم نے خون کے آنسو بہانے شروع کر دیئے ہیں اور مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ جس ملک کے قانون ساز خود قانون کو پامال کرتے ہوں کیا اس ملک میں قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے؟ کیا وہاں قانون ساز اداروں اور اسمبلیوں کے وقار اور احترام کا تصور باقی رہتا ہے؟ انجم عقیل تو ہماری جاگیردارانہ اور منافقانہ سیاست کی محض علامت اور دیگ کا ایک دانہ ہے ورنہ کیا ہمارے اراکین تھانے سے لے کر ٹریفک تک دن رات قانون نہیں توڑتے؟ مجرموں کی سفارشیں نہیں کرتے؟ چوروں اور بدمعاشوں کی سرپرستی نہیں کرتے؟ اپنے حلقے میں اپنی پسند کے اہل کار تعینات کروا کر علاقے کی حکمرانی نہیں کرتے؟ کرپشن، قبضہ گروپ اور دولت بنانے میں مصروف نہیں رہتے؟ میرا قلم مجھ سے پوچھتا ہے کہ جن اسمبلیوں کی ایک بڑی تعداد نے جعلی ڈگریوں اور جھوٹے حلف نامے دے کر الیکشن لڑے ہوں، جھوٹے حلف اٹھائے ہوں اور جن اسمبلیوں کی ایک بڑی تعداد کے خلاف تھانوں میں مقدمات رجسٹر ہوں کیا وہ اسمبلیاں عوام کے دلوں میں احترام کما سکتی ہیں اور کیا ایسی اسمبلیاں اقتدار اعلیٰ کا خواب دیکھ سکتی ہیں؟ تم مجھ سے پوچھتے ہو کہ ہماری اسمبلیوں کی قرار دادوں کو ردی کی ٹوکری میں کیوں پھینک دیا جاتا ہے؟ تمہارے اس سوال کا جواب وہی ہے جو میں لکھ چکا۔ جب قانون ساز قانون شکنی کے مرتکب ہوں، جب حکومتیں عدالتوں کے فیصلوں اور احکامات پر عمل نہ کریں، جب کرپٹ لوگ کرپشن روکنے پر مامور ہوں، جب خزانہ چور خزانے کی حفاظت پر تعینات ہوں اور عوام کے نمائندے جعلی ڈگریوں اور جھوٹے حلف ناموں کا سہارا لے کر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں تو نہ ایسی اسمبلیاں احترام کی مستحق ٹھہرتی ہیں اور نہ ایسا نظام پائیدار ہوتا ہے۔ کان کھول کر سن لو کہ جب قانون ساز قانون پامالی کرنے لگیں تو ملک میں انتشار پھیلتا ہے، قانون شکنی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ہر کوئی اپنی اپنی طاقت کے مطابق قانون ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ دراصل یہ نظام کی ناکامی کی علامتیں ہوتی ہیں اور اسی چور دروازے سے مہم جو داخل ہوتے ہیں اور اسی لئے عوام پھولوں کے ہار لئے ان کا استقبال کرتے ہیں۔
Friday, 18 May 2012
دیگ کا ایک دانہ July 20, 2011
انجم عقیل کی بے پناہ دولت نے تو ایسے تجربہ کار ”وار داتیے“ بھرتی کر رکھے تھے جنہوں نے تھانے پر حملہ کر کے اسے چھڑا لیا ورنہ ایسے لوگوں کے لئے حوالات اور جیل بھی گھر کا ڈرائنگ روم ہوتا ہے۔ رات گھر بسر کرنا اور دن حوالات میں بیٹھ کر کھانا پینا ایسے با اثر حضرات کا معمول ہوتا ہے اور ایک دو دنوں کی معمولی مشقت کے بعد کسی ٹھنڈے ہسپتال منتقلی ان کا طے شدہ لائحہ عمل ہوتا ہے۔ یہاں تک لکھ چکا ہوں تو میرے قلم نے خون کے آنسو بہانے شروع کر دیئے ہیں اور مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ جس ملک کے قانون ساز خود قانون کو پامال کرتے ہوں کیا اس ملک میں قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے؟ کیا وہاں قانون ساز اداروں اور اسمبلیوں کے وقار اور احترام کا تصور باقی رہتا ہے؟ انجم عقیل تو ہماری جاگیردارانہ اور منافقانہ سیاست کی محض علامت اور دیگ کا ایک دانہ ہے ورنہ کیا ہمارے اراکین تھانے سے لے کر ٹریفک تک دن رات قانون نہیں توڑتے؟ مجرموں کی سفارشیں نہیں کرتے؟ چوروں اور بدمعاشوں کی سرپرستی نہیں کرتے؟ اپنے حلقے میں اپنی پسند کے اہل کار تعینات کروا کر علاقے کی حکمرانی نہیں کرتے؟ کرپشن، قبضہ گروپ اور دولت بنانے میں مصروف نہیں رہتے؟ میرا قلم مجھ سے پوچھتا ہے کہ جن اسمبلیوں کی ایک بڑی تعداد نے جعلی ڈگریوں اور جھوٹے حلف نامے دے کر الیکشن لڑے ہوں، جھوٹے حلف اٹھائے ہوں اور جن اسمبلیوں کی ایک بڑی تعداد کے خلاف تھانوں میں مقدمات رجسٹر ہوں کیا وہ اسمبلیاں عوام کے دلوں میں احترام کما سکتی ہیں اور کیا ایسی اسمبلیاں اقتدار اعلیٰ کا خواب دیکھ سکتی ہیں؟ تم مجھ سے پوچھتے ہو کہ ہماری اسمبلیوں کی قرار دادوں کو ردی کی ٹوکری میں کیوں پھینک دیا جاتا ہے؟ تمہارے اس سوال کا جواب وہی ہے جو میں لکھ چکا۔ جب قانون ساز قانون شکنی کے مرتکب ہوں، جب حکومتیں عدالتوں کے فیصلوں اور احکامات پر عمل نہ کریں، جب کرپٹ لوگ کرپشن روکنے پر مامور ہوں، جب خزانہ چور خزانے کی حفاظت پر تعینات ہوں اور عوام کے نمائندے جعلی ڈگریوں اور جھوٹے حلف ناموں کا سہارا لے کر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں تو نہ ایسی اسمبلیاں احترام کی مستحق ٹھہرتی ہیں اور نہ ایسا نظام پائیدار ہوتا ہے۔ کان کھول کر سن لو کہ جب قانون ساز قانون پامالی کرنے لگیں تو ملک میں انتشار پھیلتا ہے، قانون شکنی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ہر کوئی اپنی اپنی طاقت کے مطابق قانون ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ دراصل یہ نظام کی ناکامی کی علامتیں ہوتی ہیں اور اسی چور دروازے سے مہم جو داخل ہوتے ہیں اور اسی لئے عوام پھولوں کے ہار لئے ان کا استقبال کرتے ہیں۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment