حقیقت یہ ہے کہ قول و فعل کا تضاد ہمارے معاشرے کا نمایاں المیہ ہے اور ہمارے زوال میں اس المیے کا بڑا کردار ہے چند روز قبل ہمارے ایک نامور سیاستدان دعویٰ کر رہے تھے کہ ہم کبھی بھی غیرت اور عزت کی قیمت پر سیاست نہیں کریں گے۔ میں ان کے منہ سے یہ خوشنما الفاظ سن کر سوچتا رہا کہ سیاستدانوں کے دعوے ایک طرف لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری سیاست غیرت اور عزت دونوں سے تہی دامن ہے۔ہمارے سیاستدان مطلب براری کے لئے قیمتی الفاظ کے خوشبو دار پھولوں کو ہمیشہ مسلتے رہے ہیں۔ دور کی بات کا کیا فائدہ کہ ہمارا قومی حافظہ نہایت کمزور ہے، اسی لئے ہم ایک سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے ہیں ابھی کل کی بات ہے کہ ہمارے مہربان محترم میاں نواز شریف صاحب جدہ سے لندن پہنچے اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے مشرف کو دیس نکالا دینے کے لئے عہد و پیماں میں مصروف ہوگئے۔ یہ ایک فطری بات تھی کہ میاں صاحب ہر قیمت پر اس آمر کو شکست دے کر انتقام کی آگ سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے جس آمر نے آئین کو پامال کرکے میاں صاحب کو پہلے قید و بند میں ٹارچر کیا اور پھر جلاوطنی کی سزا دی غور کیجئے قدرت کے نظام پر کہ آج وہ شخص جو ہوا میں مکے لہرا لہرا کر اپنی قوت کا اظہار کرتا تھا، خود جلاوطنی کا شکار ہے تبر یٰ بھیجئے اس کی ایمانداری کی قسمیں کھانے والے نمک خوروں پر کہ جس شخص نے بحیثیت کیڈٹ چند سو روپے کے کل اثاثوں کے ساتھ زندگی کا آغاز کیا تھا آج اربوں روپوں کی جائیداد کا مالک ہے جو اس نے فقط سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لے کر جنرل اور صدر بننے تک کمائی اور بنائی ہے اور اس جائیداد کا سلسلہ پاکستان سے لے کر امریکہ برطانیہ، دبئی اور ترکی تک پھیلا ہوا ہے۔ ابھی چند روز قبل ہی خبر تھی کہ جنرل مشرف کے پاکستان میں بینک اکاؤنٹ میں آٹھ کروڑ روپے اور دو لاکھ ڈالر چمک رہے ہیں۔ جائیداد کی تفصیلات اکٹھی کرنے میں وقت لگے گا کیونکہ وہ ڈی ایچ اے لاہور کراچی، پنڈی سے لے کر پولیس فاؤنڈیشن تک پھیلی ہوئی ہے ماشا اللہ غیر ممالک میں بھی خاصے موٹے بینک اکاؤنٹ ہوں گے جن کے بل بوتے پر وہ کئی برسوں سے شہزادوں کی سی زندگی گزار رہا ہے۔ گزشتہ سال رمضان میں لندن کے ایک اخبار نے خبر دی تھی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابق جنرل مشرف رمضان کے مہینے میں ایک ہوٹل میں قیمتی لنچ کرتے اور شراب نوشی کرتے پائے گے۔ وہ گلوکار کی محفل میں پچاس پچاس پونڈ کے نوٹ یوں برساتے دیکھے گئے میں نے اس خبر کا ذکر کالم میں کیا تو ان کے وفادار گالیوں سے لیس ہوکر حملہ آور ہوئے۔ میرے رب سبحان تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ سوچا جائے تو انسان کو اور کیا چاہئے کہ اس کا رب اس کے ساتھ ہو۔ اسی لئے میں تمام تر اپنی انسانی کمزوریوں کے باوجود عرض کرتا ہوں کہ زیادتی کے مقابلے میں صبر کی عادت ڈالئے اور مطمئن رہئے کہ اس کا اجر ضرور ملے گا۔ جلاوطنی ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بن چکی ہے۔1958ء میں صدر پاکستان سکندر مرزا کو جلاوطن کیا گیا تھا ۔ طویل سرکاری ملازمت کے باوجود اس کا بینک بیلنس اس قدر کم تھا کہ اسے اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ پالنے کے لئے لندن کے ایک ہوٹل میں ملازمت کرنی پڑی۔ بس یہی فرق ہوتا ہے جرنیلی صدر اور بلڈی سویلین صدر میں؟
ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ میاں صاحب ہر صورت جنرل پرویز مشرف سے خلاصی حاصل کرنا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے اپنی دیرینہ سیاسی حریف بے نظیر بھٹو سے مشترکہ محاذ بنانے کے لئے سمجھوتہ کیا جس کے نتیجے کے طور پر اس میثاق جمہوریت نے جنم لیا جس کے بعدازاں ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہوا میں اڑا دیئے گئے۔ انہی دنوں محترمہ نے میاں صاحب کو ملاقات کے لئے لندن میں رحمان ملک کے گھر بلایا میرے نزدیک یہ محترمہ کا سوچا سمجھا فیصلہ تھا کیونکہ محترمہ جانتی تھیں کہ پاکستانی غیرت کے تقاضے کیا ہیں اور یہ بھی جانتی تھیں کہ رحمان ملک نے بطور ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے میاں صاحب کے والد گرامی اور لاہور کی ایک شریف النفس، پاپولر، نیک اورمخیر شخصیت کو ان کے دفتر سے اٹھا لیا تھا۔ جب میاں صاحب نے رحمان ملک کے گھر جانے کا فیصلہ کیا تو میں ان چند لکھاریوں میں سے تھا جنہوں نے لکھا کہ سیاست اپنی جگہ لیکن غیرت و عزت کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ بی بی لندن میں بڑی جائیداد اور سرے محل کی مالک ہے آخر اس نے میاں صاحبان کو رحمان ملک ہی کے گھر کیوں بلایا ہے؟ میرے نزدیک بے غیرت اور بے عزت سیاست کے درخت کا پھل کبھی میٹھا نہیں ہوتا۔ میاں صاحب بھٹو کے سابق جیالوں کے نرغے میں تھے اور ان کے مشورے میاں صاحب کو کوئے ملامت میں لے گئے۔ میثاق جمہوریت بی بی کی مقدس سیاسی میراث تھی جو زرداری صاحب کو وراثت میں ملی۔
انہوں نے ہماری نگاہوں کے سامنے اس مقدس میراث کو لاوارث سمجھ کر جس طرح پاؤں تلے روندا وہ ایک سبق آموز کہانی ہے میثاق جمہوریت کی نفی کرنے کے لئے انہوں نے ایم کیو ایم اور مشرف کے کئی قریبی ساتھیوں کو گلے لگا لیا جسے وہ سیاست کا شاہکار سمجھتے ہیں اسے ہم سیاست بیکار سمجھتے ہیں۔ جب زرداری صا حب نے پرویز مشرف کی مسلم لیگ (ق) کو قاتل مسلم لیگ کہا تو اس کا ایک اپنا پس منظر تھا جو چوہدری ظہورالٰہی کے جنرل ضیاء الحق سے وہ قلم مانگنے سے شروع ہوتا تھا جس سے جنرل ضیاء نے بھٹو کے پھانسی نامے پر دستخط کئے تھے اور محترمہ کے چوہدری پرویز الٰہی کو اپنا قاتل نامزد کرنے پر منتج ہوتا تھا۔ چوہدریوں اور پی پی پی کے درمیان ایک دیوار چین حائل تھی جسے آپ غیرت اور عزت کی دیوار کہہ سکتے ہیں کیونکہ ایک طرف بی بی نے اپنے قاتلوں میں پرویز الٰہی کو نامزد کیا تھا تو دوسری طرف چوہدری خاندان پیپلز پارٹی کو چوہدری ظہور الٰہی کے قتل کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔جب 2008ء میں پی پی پی کی حکومت بنی تو مسلم لیگ ن نے اس سے تعاون کیا ۔ چوہدری شجاعت حسین اس تعاون کے سب سے بڑے مخالف اور نقاد تھے۔ چوہدری شجاعت حسین کے سینکڑوں بیانات اخبارات کی رونق ہیں جن میں انہوں نے جاٹوں کی غیرت کی عکاسی کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی پی سے کبھی بھی اتحاد نہیں ہوسکتا۔ گویا مختصر الفاظ میں پی پی پی اور چوہدری برادران کے درمیان غیرت اور عزت کی خونی دیوار حائل تھی جسے عبور کرنے کے لئے غیرت کو طلاق دینا ضروری تھا۔ مونس الٰہی کرپشن کے مقدمے میں پھنسا تو غیرت اور عزت کی دیوار گرا کر اس پر ضرورت کا محل تعمیر کر دیا گیا۔ کیونکہ سیانے اور حقیقت پسند چوہدری جانتے ہیں کہ ابھی ان کے لئے کئی پھندے اور بھی ہیں جن سے بچنے کا و احد طریقہ اقتدار میں شمولیت ہے۔
دوسری طرف ایم کیو ایم نے پی پی پی سے خلع لیا اور اقتدار سے معذرت کی تو زرداری صاحب نے اقتدار بچانے کے لئے غیرت کو پاؤں تلے مسل کر مسلم لیگ (ق) کو گلے لگا لیا۔ گویا دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔اسی لئے میں کہتا ہوں کہ غیرت اور عزت بڑے ہی خوشنما الفاظ ہیں لیکن ہماری سیاست ان سے تہی دامن ہے ہماری سیاست موقع پرستی اور خودغرضی کی سیاست ہے جس کا مروجہ اصولوں سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ اسی لئے لوگ سیاست کے لفظ سے شاکی ہے سوچنے کی بات فقط یہ ہے کہ جو سیاست خود اصولوں سے تہی دامن ہو کیا وہ عوام کو اصول پرستی کا درس دے سکتی ہے؟ کیا عوام ایسی سیاست کو قلبی حمایت کی قوت فراہم کرسکتے ہیں؟ اور ہاں ذرا رکئے اور سوچئے کہ کیا ڈرون حملے اور ایبٹ آباد آپریشن بھی ہماری بے غیرت سیاست ہی کا شاخسانہ نہیں؟
No comments:
Post a Comment