Friday, 18 May 2012

راز July 14, 2011

ہمارے ایک وزیر صاحب کا قول زریں ہے جو آج کے اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ انہوں نے ”فرمایا“ ہے کہ ہم عزت اور غیرت کی قیمت پردوستی اور سیاست نہیں کریں گے۔ بظاہر یہ کتنی اچھی اور دل موہ لینے والی بات ہے کیونکہ عزت اور غیرت کو طلاق دے کر انسان مٹی کا ڈھیر بن جاتا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ حیوان کی سطح پر اتر آتا ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ انسان بولتا ہے جبکہ حیوان قوت نطق سے محروم ہوتاہے۔ ویسے میں اپنے طویل سرکاری مشاہدے کے پس منظر میں کبھی کبھی لیڈروں اورحکمرانوں کے فلسفہ زدہ اقوال زریں پڑھ کر تذبذب میں مبتلا ہو جاتا ہوں کیونکہ میرا تجربہ راہنمائی کرتا ہے کہ علم و ادب کے حوالے سے معصوم سیاستدانوں کے بیانات میں جو الفاظ ہیروں کی مانند چمکتے دکھائی دیتے ہیں وہ اکثر اوقات ان کے تقریر نویس یا پی آر او کا کارنامہ ہوتے ہیں جوخودتوبے نام رہتا ہے لیکن اپنے باس کو نامور بنا دیتا ہے۔ 1974 میں کوئی ڈیڑھ برس کے لئے میں وزارت ِ اطلاعات و نشریات کا نمک خوار رہا کہ میں وزارت کے ایک محکمے کا سربراہ تھا۔ مولانا کوثر نیازی مرحوم وزیرتھے جوبہرحال پڑھے لکھے کہلوانے کے حقدار تھے۔ ایک بار کراچی میں یوم اقبال پر انہوں نے ایسی تقریر کی کہ سامعین جھوم جھوم گئے۔ ان کی یہ تقریر بر وزن مقالہ جنگ میں بھی شائع ہوئی اوران کی کتاب کاحصہ بنی۔ چونکہ یہ مقالہ میرے ذریعے وزیرصاحب کو بھجوایاگیا تھا اس لئے مجھے علم تھا کہ اس علم و حکمت کے مصنف میرے شعبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ممتاز افسانہ نگار منیر احمد شیخ ہیں جو اب اللہ کو پیارے ہوچکے۔ جب شیخ صاحب اورمیں مولانا کواس تقریر پر دادسمیٹتے دیکھتے تو شیخ صاحب دھیرے سے مسکرانے لگتے اور میں مزیداداس ہوجاتا۔ مزید اداس یہ سوچ کرکہ چند ”سینکڑے“ روپوں کیلئے اپنا ذہن، مطالعہ اورفکر فروخت کرنا سرکاری ملازم کا مقدر ہوتا ہے۔ میں ایسے درجنوں واقعات کاشاہدہوں۔ صدر ایوب خان کی 1965 کی جنگ میں تقریر نے بھی قوم کوتڑپا تڑپا دیا تھا۔ وزارت اطلاعات کے ایک دیرینہ ملازم بتایا کرتے تھے کہ جب الطاف گوہر صاحب مرحوم ایوب خان کے لئے اس تقریر کی ڈکٹیشن دے رہے تھے تو وہ اپنے آفس میں ٹہلتے ہوئے اس قدر اونچی آواز سے بول رہے تھے کہ سارا وِنگ ان کی آواز سے گونج رہا تھا۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کی باتوں میں… تخلیق کار اور معروف شاعر شعیب بن عزیز مجھے اس لئے عزیز ہے کہ وہ ایک مخلص دوست ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازاہے۔ وہ طویل عرصے تک وزیراعلیٰ پنجاب کا پریس سیکرٹری اورپنجاب کا سیکرٹری اطلاعات رہا ہے۔ 
خادم اعلیٰ پنجاب نے اسے ریٹائرمنٹ کے بعد میڈیا کنسلٹنٹ مقرر کیا ہے کیونکہ جو لوگ شعیب کی صلاحیتوں کے نشے میں گرفتار ہوجائیں ان کا گزارہ اس کے بغیر نہیں ہوتا۔ میں اس خبر کو پڑھ کر مزید اداس ہو گیاہوں۔ وجہ ظاہر ہے …ویسے میرا مشاہدہ ہے کہ نشہ صرف نشہ آور اشیاء کا ہی نہیں ہوتا،نشہ دوستی ، محبت، کتاب، قلم، زبان، غیرت، عزت، خدمت وغیرہ وغیرہ کا بھی ہوتاہے۔ بھٹو صاحب کو عوامی جلسوں اور اقتدار کا نشہ تھا، حبیبجالب کو اقتدار کے ایوانوں سے ٹکرانے کا نشہ تھا۔ فیض صاحب کوزندہ شاعری کا نشہ تھا، ایدھی، عمران خان اور نعمت اللہ خان کوخدمت کا نشہ ہے۔ عمران خان کا نشہ دو آتشہ ہے کیونکہ اس میں کرکٹ کے ورلڈکپ کے ساتھ ساتھ شوکت خانم ہسپتال اور میانوالی میں ابھرتی ہوئی عالمی سطح کی یونیورسٹی کا نشہ بھی شامل ہے۔ 
ہمارے بہت سے سیاستدانوں اور بزنس مینوں کو دولت کے نشے نے بدمست کر رکھاہے اوروہ انسان کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ نشہ ایک کیفیت کا نام ہے جو کسی شخص پر نشہ آور اشیاء کے استعمال سے سوار ہوتاہے اور کسی پر اچھا شعر کہہ کر، اچھا شعر یا اچھی کتاب پڑھ کر اور اچھی تقریر سن کر یا زمانے کو ٹھوکر مارکر، کسی مغرور حاکم کو للکار کر، کسی عظیم قومی مقصد کیلئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرکے یا کسی بڑی قومی خدمت کو سرانجام دے کر حاصل ہوتا ہے۔میں گورنمنٹ کالج لاہور کے ہوسٹل میں رہتا تھا تو ہوسٹل کے سامنے فٹ پاتھ پر ایک نابینا لنگوٹ پہنے دن رات پڑا رہتا تھا۔ اسے نہ سردی نمونیہ کرتی تھی اور نہ گرمی پگھلاتی تھی حالانکہ میں کئی بار سامنے کی سڑک پرپڑی ہوئی ”لک“ کو گرمی سے پگھلتے دیکھ چکا تھا۔ وہ ہر وقت باطنی جذب کے نشے میں ڈوبا رہتا تھا۔ میں کبھی کبھار رات کے اندھیرے یا چاند کی چاندنی میں اس کے پاس بیٹھ جاتا اور کبھی کبھارپوچھنے کی جسارت کرتا کہ آپ کے لئے کھانا یا پانی لاؤں۔ جواب ملتا میری حاجتوں کارکھوالا میرا رب ہے۔ مجھے کسی شے کی ضرورت نہیں۔ یہ کہتے ہوئے اس کی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھ جاتی او رمجھے یوں لگتا جیسے ہمارا پروردگار، ہمارا رب پہلے آسمان پر آ گیا ہے اور اس مجذوب سے باتیں کررہا ہے اور اس پر اپنے انوار کی بارش کر رہا ہے۔ دنیاکی محبتیں اکثر یکطرفہ ہوتی ہیں لیکن رب کی محبت کبھی یک طرفہ نہیں ہوتی۔
یہ ٹو وے (Two way) ٹریفک ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ دنیا کی محبت میں مست حضرات اس کیفیت کو سمجھنے سے قاصررہتے ہیں کیونکہ جن دلوں میں دنیا کی جاہ و حشمت اور ہوس ڈیرے ڈال لے ان دلوں سے روحانی روشنی اور روحانی نشے کا گزر نہیں ہوتا اور ماسکو سے محبت کرنے والے کیاجانیں کہ مکہ اور مدینہ کی محبت کیا شے ہوتی ہے؟ ہاں ذکر ہو رہا تھا اس مجذوب کا… ایک روزمیں ایک تھالی میں کچھ ڈال کر ان کے پاس لے گیا اور چپکے سے ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ کہنے لگے لڈو لائے ہو؟ مجھے اس سے خلوص کی خوشبو آتی ہے۔ میں نے تھالی پیش کردی اور انہوں نے جو کچھ اس میں تھا کھا لیا۔ جب تھالی خالی ہوگئی تو اس مجذوب نے تھالی کو دونوں ٹانگوں کے درمیان پھنسایا اور اسے طبلے کی مانند بجا کر ایک فلمی گانا شروع کر دیا۔ گانے کے ایک ایک لفظ سے فراق ، اداسی اور سوز ٹپکتا تھا۔ دراصل یہ طلعت کی گائی ہوئی وہ مشہور غزل تھی ، ”اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیاکروں“ ان کی آواز اس قدررسیلی اور پرسوز تھی کہ مجھے یوں لگا جیسے میں اس کے سوز میں جل کر راکھ ہوجاؤں گا۔ نوجوان تھا اور آداب فقر سے بالکل ناواقف۔ اس روز مجھے محسوس ہوا کہ جوشخص بظاہر مست لگتا ہے اندرسے کس قد رباہوش اور بیدارہے۔ میں ان گنت دنوں تک اس گانے کے حصار میں گرفتار رہا اور میری ناتجربہ کار جوانی یہ سوچتی رہی کہ انہوں نے یہ گاناکیوں گایا کیونکہ میں گانے کو جذب کے حوالے سے قدرے معیوب سمجھتا تھا۔ کئی برس بعد کئی دہائیاں گزر گئیں۔ میری جوانی بیت گئی، بڑھاپے نے بال سفید کرنا شروع کردیئے اور اس سفر میں بے شمارتجربات نے میری سوچ کے کئی نئے دروازے کھول دیئے۔ پھر میں عمرے کی تمنا لے کرمکہ معظمہ پہنچا۔وہاں سے مدینہ منورہ گیا۔ کئی روز تک دن رات آستانہ رسول پرحاضری دیتارہا۔ ایک دن ایک نیم مجذوب نے مجھے چونکا دیا۔ وہ روضہ مبارک کے قریب ایک طرف جذب و مستی کی کیفیت میں بیٹھا تھا اور یہ گانا گا رہا تھا ”تیری اک نگاہ کی بات ہے، میری زندگی کا سوال ہے“ اس روز مدینہ منورہ میں عاشق رسول صوفی اسلم صاحب مرحوم نے کہا کہ اس شخص کی فریاد نے مجھے بہت متاثر کیا۔ خیال کی بجلی کوندی اورمیں کئی دہائیوں کا سفر چشم زدن میں طے کرکے کالج کے ہوسٹل کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھے اس مجذوب کے حضور پہنچ گیا۔ تب یہ عقدہ کھلا کہ اس گانے اور مسجد نبوی کے اندر اس عاشق کے گانے میں گہرا ربط اور اٹوٹ تعلق تھا لیکن وہ تعلق کیا ہے میں ابھی تک اس راز کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

No comments:

Post a Comment