Friday, 18 May 2012

موجیں ہی موجیں؟ July 11, 2011

 گزشتہ دنوں میں اس تحقیق میں ”مبتلا“ رہا کہ جتنی ”موجیں“ پاکستانی سیاستدانوں کی ہیں کیا دنیا کے کسی اور ملک میں سیاستدانوں کی اتنی موجیں ہوتی ہیں؟ تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمارے سیاستدانوں کی موجیں ہی موجیں ہیں اور اس قدر موج دوسرے ممالک کے سیاستدانوں کو ہرگز میسر نہیں۔ آپ اکثر ٹی وی چینلوں پر تبصرہ نگارو ں کے اس طرح کے فقرے سنتے اور اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ سیاست میں کوئی آخری حد نہیں ہوتی اور سیاست میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ میں تحقیق کے دوران اس نتیجے پر پہنچا کہ دراصل اس فلسفے کا پرچار کرنے والے ہمارے سیاستدانوں کو ہر قسم کی کارروائی کے لئے ڈھال مہیا کر رہے ہیں جس کے سائے تلے ہمارے سیاستدانوں کی ہر بے اصولی، بے ایمانی اور غیر جمہوری حرکت پناہ لیتی ہے اور جائز ٹھہرتی ہے۔ چنانچہ عوام بھی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ گویا ہر قسم کی مار دھاڑ، اصولوں کی پامالی، آمرانہ فیصلے ا ور لوٹ مار سیاست میں جائز ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سیاستدان سیاست کو عبادت اور عوام سیاست کو گالی سمجھتے اور کہتے ہیں۔ دراصل تجزیہ نگاروں کا یہ فتویٰ کہ سیاست میں سب کچھ جائز ہے اور سیاست میں کوئی آخری حد نہیں ہوتی۔ سیاستدانوں کو ہرقسم کی غیر اخلاقی حرکت کا لائسنس مہیا کرتی ہے کیونکہ دنیا کے ہر ملک میں سیاست کی آخری حد بھی ہوتی ہے اورسیاست کا ایک دائرہ کار بھی ہوتا ہے جس سے سیاستدان باہر نہیں نکل سکتے۔ وہ آخری حد اخلاق، جمہوری اصول، ایمانداری اور قومی محبت ہوتی ہے۔ اگرچہ ان تمام قدروں کا محتسب معاشرہ اور ووٹر ہوتا ہے لیکن اس سے قبل اس کا احتساب پارٹی کے اندر کیا جاتا ہے یا پھر پارلیمینٹ یہ کردار سرانجام دیتی ہے۔ بے لگام، بے اصول اور بے ایمان سیاست صرف پاکستان میں ہوتی ہے۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ پاکستانی سیاستدانوں کی موجیں ہی موجیں ہیں۔ وہ اس طرح کی حرکات کسی اور سیاسی و جمہوری معاشرے میں کریں تو لوگ انہیں کندھوں سے اتار پھینکیں، پریس ان کو قلمی کوڑوں سے لہولہان کر دے اور پارٹی ڈسپلن یا پارلیمینٹ ان کو سیاسی دائرے سے باہر نکال دے ۔
صرف گزشتہ سات آٹھ سال کی سیاست پر نگاہ ڈالیں تو شاید آپ کو محسوس ہو کہ آپ حیرت کی وادیوں سے گزر رہے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ نام نہاد میثاق جمہوریت میں ایم کیو ایم کو ہرقسم کے طعنے دیئے گئے اور اسے فوج کی بی ٹیم قرار دے کر فیصلہ کیا گیا کہ نام نہاد جمہوریت کی علمبردار پارٹیاں اس سے فاصلے پر رہیں گی۔ اسی ڈاکومنٹ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مشرف کے ساتھیوں سے کسی قیمت پر بھی ہاتھ نہیں ملایا جائے گا اور یہ کہ آزاد عدلیہ کی بحالی کے لئے مخلصانہ جدوجہد کی جائے گی۔ یہ تو تھے کاغذی دعوے، لیکن عملی سیاست نے ان الفاظ کو کس طرح پامال کیا کہ وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ پہلے زرداری صاحب کراچی میں ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر میں پھولوں کی پتیوں پر قدم رکھتے ہوئے پہنچے اور پھر ایم کیو ایم ان کی اتحادی بن گئی جو اس سے قبل مشرف کے اقتدار کا حصہ بنی رہی تھی۔ آپ نے دیکھا کہ ایم کیو ایم کا پی پی پی سے روٹھنا اور منایا جانا کسی روایتی محبوبہ کے ناز نخروں سے کم نہ تھا۔ اگلی منزل پر ہم نے ایم کیو ایم کو مسلم لیگ (ن) سے گتھم گتھا دیکھا لیکن اب وہی میاں صاحبان ایم کیو ایم سے پینگیں بڑھا رہے ہیں اور مشترکہ دشمن کا صفایا کرنے کے لئے صف بندی کررہے ہیں۔ عوامی وعدہ تھا کہ مشرف کی حمایت کرنے والوں کو ہرگز پارٹی میں جگہ نہیں دی جائے گی لیکن ہم نے اپنی حیرت زدہ نگاہوں سے مشرف کے حمایتیوں اوراس کے عہد کے وزراء، مشیران، اراکین اسمبلی کو مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی دونوں کی زینت بنتے دیکھا۔ کل تک چوہدری برادران مشرف کی بیساکھیاں تھے اور اس کی آمرانہ سیاست کا اہم ترین ستون تھے لیکن آج وہ جمہوریت کے علمبردار، پی پی پی کی دلہن بنے بیٹھے ہیں دلہن اس لئے کہ زرداری صاحب کا فرمان ہے کہ وہ مسلم لیگ (ق) کو باقاعدہ نکاح کرکے لائے ہیں جبکہ میاں صاحبان لوٹوں کو ان کے والدین کی مرضی کے خلاف سینے سے لگا کر لے گئے ہیں۔ بقول شخصے چوہدری برادران کو ایسے طعنوں سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ اس سے قبل ایوب خان اور ضیاء الحق کی بیساکھیاں بننے کے طعنے بھی برداشت کر چکے ہیں۔ اس الحاق سے اگر کوئی فرق پڑتا ہے تو وہ پی پی پی کو جو آمرانہ سیاست کے خلاف بغاوت کا دعویٰ کرتی ہے۔ اگرچہ اب یہ وہ پی پی پی نہیں رہی کیونکہ پہلے پی پی پی نے مشرف کی ساتھی ایم کیو ایم سے اتحاد کیا اور جب وہ روٹھ گئی تو مشرف کی مسلم لیگ (ق) سے اتحادکرلیا۔ اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ ہمارے سیاستدانوں کی موجیں ہی موجیں ہیں کیونکہ ہماری سیاست ہر قسم کے اصول، ضابطے اور اخلاق سے مکمل طور پر عاری ہے۔ ویسے تو یہ کتاب کا موضوع ہے لیکن میں اس کتاب کو اس کالم میں بند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ 
آپ نے کبھی غور کیا کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں خزانہ چوری اور لوٹ مار کو سیاسی انتقام کا کفن پہنا کر دفن کر دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ پورا زور لگا چکی لیکن تین سال کے عرصے میں لوٹی ہوئی دولت سوئٹزر لینڈ سے واپس نہیں لاسکی۔ اس پر سیاسی انتقام کا غلاف چڑھا دیا گیا۔ اس عرصے میں وزراء کے کئی اسکینڈل منظر عام پر آئے لیکن ان پر سیاسی انتقام کی چادر اوڑھا کر چھپا دیا گیا۔ راجہ پرویز اشرف کو تو چھوڑیئے ہمارے امین فہیم صاحب کو بھی اچانک پتہ چلا کہ ان کے اکاؤنٹ کے سمندر میں کسی نے چارکروڑ جمع کروا دیئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ وہ چار کروڑ این ایل آئی سی کے حوالے سے حکومت کو لوٹا دیئے۔ اسی سمندر میں کتنے کتنے قیمتی جواہر ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس پر ہمیشہ راز کا پردہ پڑا رہے گا۔ بیچارے ظفر قریشی نے سپریم کورٹ کے حکم کے تحت چوہدری مونس الٰہی کے بے نام اور غیر ملکی اکاؤنٹس کا پتہ چلایا ہے اور کرپشن کے ثبوت جمع کئے ہیں تو اسے انتقامی کارروائی قرار دے کر نہ صرف سیاست کا شاخسانہ قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ ظفر قریشی کی کردار کشی کے لئے ہزاروی قلم سواروں کو بھی میدان جنگ میں اتار دیا گیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اکبر بادشاہ کے دور میں ہزاروی جرنیل کے پاس ہزار گھڑ سوار ہوتے تھے اور اسے ہزار مربع اراضی ملتی تھی۔ چوہدری صاحبان کا کہنا ہے کہ ظفر قریشی میاں صاحبان کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔ حقیقت تو میرا رب جانتا ہے کیونکہ میں نے آج تک ظفر قریشی کو دیکھا بھی نہیں لیکن بظاہر تو وہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت تفتیش کر رہا ہے۔ چوہدری صاحبان کو یہ بھی گلہ ہے کہ وہ میاں صاحبان کی جلاوطنی کے دور میں ان کے ملازموں کی تنخواہیں ادا کرتے رہے لیکن میاں صاحبان نے ان کے احسانات کو بھلا دیا ہے۔ ا سی طرح کی ذاتی سیاست اور سرکاری خزانے سے ذاتی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی صرف ہماری ہی سیاست کا شا ہکار ہے۔ لوٹ مار کو سیاسی انتقام قرار دینا بھی صرف ہمارے ہی سیاستدانوں کا شیوہ ہے۔ ہرقسم کی اخلاقی حدود کو عبور کرکے سیاست کرنا بھی صرف ہمارے سیاستدانوں کا شیوہ ہے۔ ا سی لئے تو میں کہتا ہوں کہ ہمارے سیاستدانوں کی موجیں ہی موجیں ہیں عیش ہی عیش ہیں۔ 


No comments:

Post a Comment