مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ انسان چونکہ اپنا چہرہ اپنی نظروں سے دیکھتا ہے اس لئے وہ اپنے آپ کو بوڑھا نہیں سمجھتا۔ کچھ لوگ بلکہ اکثر لوگ اپنی نظروں کو دھوکہ دینے کے لئے اپنے سفید سر کو رنگ سے کالا سیاہ کرلیتے ہیں تاکہ انہیں آئینے میں اپنا سر جوانی کی مانند کالا سیاہ ہی نظر آتا رہے۔ امیر لوگ جن کے پاس فالتو پیسہ وافر مقدار میں ہوتا ہے بڑھاپے کے گنجے سر پر نئے بال ا گوالیتے ہیں اور انہیں سیاہ رنگ میں رنگ کر جوانی کا روپ ڈھال لیتے ہیں، معاف کیجئے گا مجھے ان بزرگوں پر رحم آتا ہے جنہوں نے سر تو کالا سیاہ کیا ہوتا ہے حتیٰ کہ مونچھیں بھی جعلی حد تک سیاہ کی ہوتی ہیں لیکن اعصائے ضعیفی یعنی ڈنڈے کی مدد کے بغیر چلنے سے معذور ہوتے ہیں، اگر سائنس اسی طرح ترقی کرتی رہی تو فالتو دولت والے گنجے سروں کو بالوں سے ڈھانپنے کے علاوہ چہرے بھی بدل لیا کریں گے تاکہ بڑھاپے کی چغلی کھاتی ہوئیں سلوٹیں حسینوں کو نظر نہ آئے اور وہ ”سرجی سلام“ کہہ کر دوسری طرف نہ نکل جائیں، اگر اللہ تعالیٰ سبحانہ نے بیماری نہ پیدا کی ہوتی تو یقین کیجئے انسان کو کبھی بڑھاپے کا پتہ نہ چلتا اور مختلف طریقوں سے بڑھاپے کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا کر جوانی کا روپ دھارے رکھتا۔ عام طور پر کسی نہ کسی سبب ڈاکٹروں کے ہاں چکر لگتے ہیں تو انسان پر راز کھلتا ہے کہ وہ بڑھاپے میں داخل ہوچکا ہے، جب ڈاکٹر صاحبان اس کی ٹیسٹوں مزید ٹیسٹوں اور دوائیوں سے کھال ادھیڑنا شروع کرتے ہیں تو وہ لاغر ہو کر اپنے آپ کو سمجھا لیتا ہے کہ میں اب سینئر سٹیزن یعنی بزرگ شہری بن چکا ہوں۔ مشاہدہ یہ بھی بتاتا ہے کہ عام طور پر سیاستدان اور فلمی اداکار بوڑھے ہو کر بھی بوڑھے نہیں لگتے۔ محمد علی ایکٹر مرحوم کو میں زندگی کے آخری حصے تک دیکھتا رہاوہ” چہرے مہرے“ سے بوڑھا نہیں لگتا تھا، اللہ کو پیارا ہوا تو پتہ چلا کہ مرحوم زندگی کی طویل بہاریں دیکھ چکے تھے، اپنے لیڈروں پر نظر دوڑائیں تو یہی احساس ہوتا ہے کہ ماشا ء اللہ ابھی تک سب جوان ہیں۔ نظر بد دور میرے مہربان راجہ ظفر الحق جنرل ضیاء الحق کے دور سے تقریباً چونتیس برسوں سے پریس اور میڈیا پر ابھرتے ڈوبتے نظر آتے ہیں۔ مجھے وہ اسی طرح لگتے ہیں جیسے وہ ضیاء الحق کے اوپننگ بیٹسمین کی حیثیت سے لگتے تھے۔ گیلانی صاحب، زرداری صاحب، رحمان ملک صاحب، میاں برادران ،الطاف حسین اور کچھ خواتین سیاستدان بالکل مشہور ادارکار معمر رانا اور ریما کی مانند نوجوان لگتے ہیں حالانکہ ان کے برتھ سرٹیفکیٹ دیکھیں تو راز کھلتا ہے کہ وہ بہت سی دھائیوں کا سفر طے کرچکے ہیں۔ خدا جانے عمران خان کیوں بزرگ لگتا ہے حالانکہ اس کی عمر تو ابھی دولہا بننے کی ہے۔ شاید وہ سوچ و فکر کا کچھ زیادہ ہی استعمال کرتا رہا ہے اگر آپ اپنے جسم پر سوچ کا زیادہ بوجھ لاددیں تو جلد بزرگ لگنے لگتے ہیں۔ ایک امریکی نفسیات دان کی تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ جھوٹ بولنے والے حضرات زیادہ دیر تک جوان رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے سیاسی اور غیر سیاسی اداکار مقابلتاً دیر سے بزرگی اوڑھتے ہیں۔ ویسے تھوڑا بہت جھوٹ تو سبھی بولتے ہیں لیکن شاید سیاسی اداکار چونکہ دن رات اس مشغلے میں مصروف رہتے ہیں اس لئے وہ بڑھاپے میں بھی جوان لگتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جوانی کو طول دینے میں دولت کی فراوانی بھی اہم حصہ ڈالتی ہے اور اگر یہ دولت جھوٹ سے کمائی ہو تو پھر معاملہ دو آتشہ والا ہوتا ہے۔
بات ذرا دور نکل گئی میں یہ عرض کررہا تھا کہ وقت اور عمرکے تقاضے بدلتے رہتے ہیں ، میں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتا تھا جب میں نے سکوٹر چلانا سیکھا اس دور میں سکوٹر بھی ریئسی کی علامت سمجھا جاتا تھا اور سڑکیں اس قدر ویران ہوتی تھیں کہ انہیں کسی بھی پوائنٹ سے بلا خوف و خطر کراس کیا جاسکتا تھا۔ میرے استاد نے سکوٹر سکھاتے ہوئے نصیحت کی کہ یہ دو پہیوں والی سواری بڑی ناقابل اعتماد ہوتی ہے اس لئے سڑک پر برقعہ پوش خاتون اور مولوی صاحبان سے خاص احتیاط کرنا اور ممکن ہو توانہیں دیکھ کر دور ہی سے بریک لگالینا۔ میں نے اس وارننگ کی وجہ پوچھی تو استاد نے مسکرا کر کہا کہ برقعہ والی خاتون اور مولوی حضرات سڑک کراس کرتے ہوئے کبھی بھی ادھر ادھر نہیں دیکھتے انہیں بغیر دیکھے سیدھا چلنے کی عادت ہوتی ہے اس لئے سکوٹروں کے اکثر حادثات انہیں سے ٹکرا کر ہوتے ہیں، چنانچہ میں لاہور میں سکوٹر چلاتے ہوئے ان دونوں کا خاص خیال رکھتا تھا۔ ایک تیسری شے کا اضافہ میں نے اپنے تجربے کی بناء پر کرلیا تھا اور وہ تھا کتا، چنانچہ میں کئی برس تک سکوٹر چلانے کے باوجود حادثات سے محفوظ رہا جس میں ان تین چیزوں سے احتیاط کا بڑا حصہ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاہور شہر بہت بدل گیا ہے اب یہاں برقعہ پوش خواتین تو ناپید ہوگئیں ہیں لیکن ماشاء اللہ مولویوں اور تیسری احتیاط والی شے میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے۔
ہمارے محترم بزرگ نامور دانشور اور ممتاز ادیب جناب مختار مسعود صاحب نہایت محتاط وسیع المطالعہ، سرد و گرم چشیدہ اور اعلیٰ درجے کے ذہین انسان ہیں اور منظم زندگی گزارتے ہیں۔ وہ تحقیق کئے بغیر بات نہیں کرتے اور جب عام گفتگو بھی کرتے ہیں تو وہ علم و ادب کے سانچے میں ڈھلی ہوتی ہے۔ چند روز قبل ان سے بات ہورہی تھی تو فرمانے لگے کہ میں اب چوراسی برس کا ہوچکا ہوں۔ جوانی کی مانند بڑھاپا گزارنے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں جن پر عمل کیا جائے تو انسان بہت سے مسائل سے محفوظ رہتا ہے۔ انہوں نے بڑھاپے کے لئے جو نسخہ بتایا وہ چار”ڈی“ پرمشتمل ہے۔ اولDarknessیعنی تاریکی، مطلب یہ کہ بڑھاپے میں تاریکی سے بچیں ورنہ کچھ بھی ہوسکتا ہے، جوانی میں انسان تاریکی کا دلدادہ ہوتا ہے لیکن بڑھاپے میں اندر باہر روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوم Depressionیعنی ڈھلان سے بچیں کیونکہ بڑھاپے میں بلندی اور اونچائی پر چڑھنا دل پر حملے کا باعث بن سکتا ہے، مطلب یہ کہ آپ جس بلندی پر پہنچ چکے ہیں اسی پر تشریف رکھیں اور مزید تجربات سے پرہیز کریں۔ سوم Danda یعنی ڈنڈا ہمیشہ ہاتھ میں رکھیں جو آپ کی جسمانی کمزوری کا نعم البدل اور آپ محافظ ثابت ہوگا اگر کتا آپ کو گھورے تو ڈنڈے سے ڈرادیں اور اگر کوئی آپ کی جیب میں ہاتھ ڈالے تو اس کا سر پھاڑ دیں۔ آخریDogsیعنی کتوں سے بچیں کیونکہ بوڑھے ان کا پسندیدہ شکار ہوتے ہیں ۔ کتا بڑا بے حیا جانور ہے یہ بزرگی کا کچھ خیال نہیں کرتا۔ میں جناب مختار مسعود صاحب کا نسخہ بزرگی سن چکا تو مجھ پر یہ راز کھلا کہ فوجی اور پولیس افسران عام طور پر بڑھاپے میں بھی کیوں جوان لگتے ہیں، دراصل انہیں نوجوانی ہی سے بغل میں ڈنڈا رکھنے کی عادت ہوتی ہے اور یہی طاقت انہیں دیر تک جوان رکھتی ہے۔
No comments:
Post a Comment