Friday, 18 May 2012

مولوی کا اسلام۔ صوفی کا اسلام (گزشتہ سے پیوستہ ) July 03, 2011

راز یہ ہے کہ وہ بہرحال ایک نیک اور باعمل مسلمان توتھا ہی جس سے انسان کی مغفرت تو ہو جاتی ہے لیکن رب ملتا ہے نہ روشن باطن کی عظمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ اس شخص نے فٹ پاتھ پر ایک مکمل طورپر معذور انسان کو دیکھا جوخود نوالہ اٹھا کر منہ تک لے جانے کا بھی اہل نہ تھا۔ اس شخص کے دل پر اس منظر نے گہرااثرکیا چنانچہ وہ صبح دوپہر شام گھر سے کھانا پکواتااور فٹ پاتھ پر بیٹھ کر اس معذورشخص کو اپنے ہاتھوں سے کھلاتا رہا۔ رب کو اس کی یہ ادااتنی پسند آئی کہ اسے ولایت کے مقام پر متمکن کر دیا گویا صرف بخشش کے لئے اسلامی اصولوں کی پابندی ضروری ہے لیکن اپنے رب تک رسائی حاصل کرنے کے لئے اس کی مخلوق سے بے لوث محبت، خدمت اور ایثار ناگزیر ہے۔ جب آپ اللہ کی مخلوق سے صرف رضاء الٰہی کے حصول کے لئے محبت کریں گے توپھر اس محبت کی راہ میں فرقہ بندی، مذہبی تفریق، دنیاوی درجات وغیرہ حائل نہیں ہوں گے کیونکہ بریلوی ہو یا دیوبندی، مسلمان ہویاغیر مسلمان، پارسا ہویا گناہگار، امیرہویا غریب سبھی اس کی مخلوق ہیں۔ دراصل مخلوق اتنی وسیع اصطلاح اورٹرم ہے کہ اس میں انسان وحیوانات سبھی شامل ہیں کیونکہ یہ سب ہمارے رب کی مخلوق ہیں۔ میں انشاء اللہ اگلے کالم میں آپ کواس حوالے سے کچھ واقعات سناؤں گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ معاشرے کو مذہبی انتہاپسندی، فرقہ واریت، دہشت گردی ا ور مذہب کے نام پرقتل وغارت سے نجات دلانے کے لئے صوفی اسلام کے اصولوں کا پرچار درکار ہے کیونکہ معاف کیجئے گا میرے مشاہدے کے مطابق مولوی نے ہمیں فقط فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کے تحفے دیئے ہیں جودراصل اسلام کی روح کے منافی ہیں کیونکہ اسلام سلامتی، امن، انسانی محبت، خدمت و ایثار، برداشت، تحمل اور نیک زندگی کا درس دیتاہے نہ کہ مذہب کے نام پر قتل وغارت کا… محترم و مکرم سرفراز شاہ صاحب کی کتاب کے سینکڑوں پہلو ہیں اورہر فقرے میں مفہوم و معافی کا دریا پوشیدہ ہے جن پرآئندہ بھی کبھی کبھار بات ہوتی رہے گی۔ آج کے کالم میں ، میں نے فقط ایک پہلو کو ٹچ کیا ہے جو لوگ فقر میں دلچسپی رکھتے ہیں اور قرب الٰہی کی تمنا رکھتے ہیں ان کے لئے محترم شاہ صاحب نے یہ نسخہ بیان کیا ہے کہ ”آپ خلق خدا پرمہربان ہوجایئے۔ وہ آپ پر مہربان ہو جائے گا۔ “ جب انسان خلق خدا پرمہربان ہوجاتا ہے تو وہ محبت کا بہتا ہوا سمندر بن جاتا ہے جس میں زندگی کی تمام محرومیاں، نفرتیں اور سفلی جذبات پانی کے قطروں کی مانند یوں جذب ہو جاتے ہیں کہ اپنا نام و نشان کھو دیتے ہیں۔ اسی کو ہم معراج انسانیت کہتے ہیں۔میں جب محترم شاہ صاحب کی کتاب پڑھ رہا تھا اور ان کا یہ پیغام ذہن نشین کررہا تھا کہ قرب الٰہی کے حصول کا شارٹ کٹ اور آسان نسخہ مخلوق خدا سے محبت اور بے لوث خدمت ہے تو مجھے ایک واقعہ شدت سے یاد آ رہا تھا۔
یہ واقعہ اپنے طور پر نہایت معتبرہے کیونکہ اس کے راوی علامہ اقبال ہیں۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے علامہ اقبال  کی سوانح عمری لکھی ہے جس کا نام ہے ”زندہ رُود“… اس کتاب میں انہوں نے علامہ اقبال کا بیان کردہ واقعہ یوں لکھا ہے ”علامہ اقبال بیان کرتے ہیں کہ میرے والد ایک روز گھر آ رہے تھے۔ ہاتھ میں رومال تھا اور رومال میں تھوڑی سی مٹھائی۔ راہ میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک کتا بھو ک کے مارے دم توڑ رہا ہے۔ اس کی حالت دیکھ کر ان سے نہ رہا گیا۔ مٹھائی سمیت رومال اس کے آگے ڈال دیا۔ کتے نے مٹھائی کھانا شروع کردی۔ مٹھائی کھا چکا تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اسے پانی کی طلب ہو۔ والد ماجد نے اسے کسی نہ کسی طرح پانی بھی پلا دیا۔ رات کو سوئے تو خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مکان ہے جس میں مٹھائی کے طبق ہی طبق رکھے ہیں۔ صبح آنکھ کھلی تو یہ احساس ہوا کہ یہ ایک نیک عمل کا ثمر تھا جو کل ان کے ہاتھوں ہوا۔ چنانچہ اس روز سے انہیں یقین ہو گیا کہ اب ہمارے دن پھرنے والے ہیں۔ جن دنوں یہ واقعہ ہوا تب علامہ اقبال کے والد مالی مشکلات میں گھر ہوئے تھے۔ اس خواب کی تعبیر یوں نکلی کہ پھر علامہ اقبال کے والد گرامی جناب شیخ نور محمدصاحب کا کاروبار چل نکلا۔ ان کے بنائے ہوئے دُھسے تیزرفتاری سے بکنے لگے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں تھوڑے ہی عرصے میں خوشحال بنا دیا۔“ اب آپ اس واقعے پر غور کریں اور سوچیں کہ اگر اللہ کی مخلوق حیوان کی خدمت کا یہ صلہ ہے توپھر اشرف المخلوقات انسان کی خدمت کا کیا صلہ اور انعام ہوگا!! قرب الٰہی سے بڑا کوئی انعام نہیں اور یہ انعام خلق خدا کی بے لوث خدمت سے ملتا ہے۔


No comments:

Post a Comment