Friday 18 May 2012

چند معصوم وضاحتیں August 27, 2011

کبھی کبھی معصوم سی غلط فہمیوں کو رفع کرنے کے لئے معصوم وضاحتوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ میری کتابیں اور اخباری تحریریں گواہ ہیں کہ میں فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کا شدید مخالف ہوں اور ضیائی اور مشرفی مارشلاؤں میں فوج کے سیاسی کردار پر تنقید کرکے سزا بھی بھگت چکا ہوں۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن اتنی سی معصوم وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے جب کراچی میں آرمی ایکشن کی تجویز دی تھی تو اس کا مقصد قتل عام اور جرائم کی وباء پر فوری قابو پانا تھا۔ آرمی ایکشن کی تجویز اس لئے دی تھی کہ اب وہاں کی صورتحال سے نپٹنا کراچی پولیس اور سول انتظامیہ کے بس کا روگ نہیں رہا کیونکہ جرائم اور قتل عام کے پس پردہ وہاں کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنا اپنا کھیل کھیل رہی ہیں اور خود کراچی پولیس کی نہ صرف نفری کم ہے بلکہ اس کی پیشہ وارانہ صلاحیت بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ ہمارے بڑے بڑے پہلوان تجزیہ نگار بار بار مشرقی پاکستان، بلوچستان، سوات اور فاٹا میں آرمی ایکشن کی مثالیں دیتے ہیں اور وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سارے علاقے بغاوت اورآزادی کی تحریکوں کے زیر اثر تھے جسے آپInsurgencyکہتے ہیں جبکہ کراچی کا مسئلہ بغاوت اور علیحدگی کا نہیں بلکہ مجرموں کی سرکوبی کرکے امن بحال کرنے کا ہے اس لئے کراچی کے مسئلے کا مشرقی پاکستان کے آرمی ایکشن یا بلوچستان وغیرہ سے موازنہ ہی غلط ہے۔ اس وقت کراچی میں اسلحے کے ڈھیر لگے ہیں اور موجودہ قتل عام میں داخلی سیاسی قوتوں کے علاوہ کچھ بیرونی دشمن ممالک کے ملوث ہونے کے بھی شواہد ملے ہیں جب امن عامہ بگاڑنے میں خود حکومت شامل ہو توسول انتظامیہ بے اثر اور ناکارہ ہوجاتی ہے۔ موجودہ حالات میں فوج بلانے کا مقصد سول انتظامیہ کی مدد ہے جس کا طریقہ کار یوں ہوتا ہے کہ ملک کی ساری خفیہ ایجنسیوں سے انفارمیشن لے کر ایک پلان تیار کیاجاتا ہے اور فوج کی مدد سے صرف ان علاقوں میں آرمی ایکشن کیا جاتا ہے جہاں اسلحہ اور مجرموں کی کمین گاہیں ہیں۔ فوج علاقے کو گھیرے میں لیتی ہے اور پولیس کی ان مخصوص جگہوں پر تلاشی میں مدد کرتی ہے۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ فوج کا نام سنتے ہی قاتل، اغواء کنندگان، بھتہ خور اور دوسرے مجرم اپنی کارروائیوں سے تائب ہوجاتے ہیں۔ ایک باراگر کراچی کواسلحے سے پاک کردیا جائے اور مجرموں کو پکڑ لیا جائے تو باقی مسئلے پر سول انتظامیہ خود قابو پالے گی۔ کراچی شہر کے محدود اور مخصوص علاقوں میں آرمی اور سول انتظامیہ کے مشترکہ ایکشن سے نہ فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کا خطرہ ہے اور نہ ہی فوج کے کراچی میں پھنسنے کا خدشہ ہے کیونکہ یہ سارا ایکشن دو ہفتوں کی مار ہے۔ کچھ تجزیہ نگار کراچی میں آرمی ایکشن کے حوالے سے ملک پر فوجی قبضے کے خطرے کا اظہار کرتے ہیں جس کا مجھے کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ میں حالات کے ناقابل کنٹرول ہونے کی صورت میں مختلف شہروں اور علاقوں میں آرمی ایکشن دیکھتا رہا ہوں۔ ذرا سوچئے کہ جب آئین میں یہ شق رکھی گئی تھی کہ فوج کو سول حکومت کی مدد کے لئے بلایا جاسکتا ہے تو کیا اس کا مقصد اس شق کے تحت ملک میں مارشل لاء لگوانا تھا؟ 1951ء کے لگ بھگ پنجاب میں اینٹی احمدیہ تحریک چلی اور دیکھتے ہی دیکھتے لاہور فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ آرمی ا یکشن ہوا اور امن بحال کرنے کے بعد فوج واپس چلی گئی۔ کیا لاہور کے مارشل لاء نے سات آٹھ برس بعد پاکستان میں مارشل لاء کی راہ ہموار کی تھی؟ 1958ء کا مارشل لاء تو صدر سکندر مرزا نے لگایا تھا فوج نے نہیں۔ 1977ء کی مثال دینے والے بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک طاقتور سیاسی تحریک تھی جسے کچلنے کے لئے بھٹو حکومت نے فوج کا سہارا لیا تھا جبکہ کراچی کامسئلہ مجرموں کی سرکوبی ہے۔ میری دعا ہے کہ رینجرز اور پولیس مل کر کراچی میں امن بحال کریں کیونکہ بہتا ہوا انسانی خون، ویران ہوتے گھر، اجڑتی گودیں اور یتیم ہوتے بچے اب برداشت نہیں ہوتے۔ حکومت کی ناہلی کے سبب پانچ ہزار معصوم شہری مارے جاچکے اور اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ۔آخر اس کا حساب کون دے گا۔ 
ہم تومباحثوں میں الجھے ہوئے ہیں ذرا ان خاندانوں سے پوچھئے جن کے پیارے قتل اور اغواء ہوچکے ہیں۔گزشتہ دنوں ملک کے ممتاز کالم نگار جناب عطاء الحق قاسمی صاحب نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد”قائد اعظم کی خواہش تھی کہ وہ سال میں چند ہفتے بمبئی میں گزار ا کریں“۔ مجھے یہ بات انہونی سی لگی چنانچہ میں اس تاثر کا کھوج لگانے کی کوشش کرتا رہا۔ بلاشبہ قائد اعظم ہندوستان سے دوستانہ تعلقات کی خواہش رکھتے تھے اور آج بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد ہندوستان سے برابری کی سطح پر دوستانہ تعلقات کی آرزو رکھتی ہے لیکن اس آرزو کے راستے میں جتنی رکاوٹیں ہیں ان کا ہمیں اچھی طرح ادراک ہے۔ اول تو قائد اعظم پاکستان کے گورنرجنرل اور سربراہ مملکت بن کر بمبئی میں ہر سال چند ہفتے گزارنے کی خواہش رکھتے ہوں ناقابل یقین بات لگتی ہے کیونکہ وہ سات اگست1947ء کوپاکستان آئے ا ور چھ اگست کی شام وہ اپنے دوست کے ساتھ اپنی مرحومہ بیوی مریم (رتی) کی قبر پر دیر تک بیٹھے رہے ۔ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور انہوں نے اپنے دوست سے کہا کہ میں رتی کو خدا حافظ کہنے آیا ہوں جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ دوبارہ بمبئی نہیں آسکیں گے۔ پنجاب میں تو سکھوں نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی لیکن دہلی، سہارن پور، یوپی وغیرہ میں ہندوؤں نے جس طرح مسلمانوں کا خون بہایا، عورتوں کی عصمتیں لوٹیں اور مسلمانوں کو گھروں میں جلایا اور یہ سب کچھ حکومتی نگرانی میں ہوا اس نے قائد اعظم پر گہرے اثرات مرتب کئے۔بمبئی میں ہر سال ہفتے گزارنا تو کجا قائد اعظم ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے جس کا سب سے بڑا ثبوت ان کا ڈھاکہ کا سرکاری دورہ ہے جب قائد اعظم کو بتایا گیا کہ ان کے طیارے کو ری فیول کے لئے دہلی اترنا پڑے گا تو انہوں نے کہا کہ وہ کسی قیمت پر بھی ہندوستانی سرزمین پر قدم نہیں رکھیں گے، چنانچہ ان کے طیارے کے ساتھ فیول کے لئے دو ٹینک لگائے گئے تاکہ وہ ہندوستان رکے بغیر ڈھاکہ پہنچ جائیں۔ اس فیصلے میں خطرات مضمر تھے لیکن قائد اعظم نے ان خطرات کو قبول کیا۔ میری ذاتی رائے میں بمبئی ہفتے گزارنے کا تاثر بے بنیاد اور ہوائی ہے لیکن اگر کوئی صاحب اس ضمن میں ثبوت مہیا کرسکیں تو میں ان کا ممنون ہوں گا۔ چند روز قبل ایک ٹی وی چینل پر سندھ کے ایک شعلہ نوا قوم پرست یہ انکشاف فرمارہے تھے کہ1940ء کی قرار داد کے مطابق صوبے یا ریاستیں پاکستان سے الگ ہونے کا حق رکھتی تھیں۔ یہ بات صریحاً غلط اور جھوٹ ہے ۔ قرار داد لاہور (پاکستان)میں اس طرح کی کوئی شق نہیں تھی۔ شاید وہ صاحب جوش خطابت میں قرار داد پاکستان کو کابینہ مشن پلان سے کنفیوژ کرگئے۔ اسی طرح لاہور کے ایک”سرخ“ دانشور ٹی وی چینل پر انکشاف کرتے پائے گئے کہ قائد اعظم صوبائی خود مختاری کے حصول کی شرط پرمطالبہ پاکستان سے دستبردار ہونے کو تیار ہوگئے تھے۔ یہ دعویٰ بھی بے بنیاد اور قائد اعظم کے خلاف پراپیگنڈہ مہم کا حصہ ہے ۔ میں بوجوہ ٹی وی کم دیکھتا ہوں لیکن جب کبھی دیکھتا ہوں تو اس طرح کے انکشافات سن کر سوچ میں ڈوب جاتا ہوں۔ فی الحال تھوڑا لکھے کو بہت سمجھیں، باقی انشاء اللہ آئندہ۔ 

No comments:

Post a Comment