ہم تومباحثوں میں الجھے ہوئے ہیں ذرا ان خاندانوں سے پوچھئے جن کے پیارے قتل اور اغواء ہوچکے ہیں۔گزشتہ دنوں ملک کے ممتاز کالم نگار جناب عطاء الحق قاسمی صاحب نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد”قائد اعظم کی خواہش تھی کہ وہ سال میں چند ہفتے بمبئی میں گزار ا کریں“۔ مجھے یہ بات انہونی سی لگی چنانچہ میں اس تاثر کا کھوج لگانے کی کوشش کرتا رہا۔ بلاشبہ قائد اعظم ہندوستان سے دوستانہ تعلقات کی خواہش رکھتے تھے اور آج بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد ہندوستان سے برابری کی سطح پر دوستانہ تعلقات کی آرزو رکھتی ہے لیکن اس آرزو کے راستے میں جتنی رکاوٹیں ہیں ان کا ہمیں اچھی طرح ادراک ہے۔ اول تو قائد اعظم پاکستان کے گورنرجنرل اور سربراہ مملکت بن کر بمبئی میں ہر سال چند ہفتے گزارنے کی خواہش رکھتے ہوں ناقابل یقین بات لگتی ہے کیونکہ وہ سات اگست1947ء کوپاکستان آئے ا ور چھ اگست کی شام وہ اپنے دوست کے ساتھ اپنی مرحومہ بیوی مریم (رتی) کی قبر پر دیر تک بیٹھے رہے ۔ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور انہوں نے اپنے دوست سے کہا کہ میں رتی کو خدا حافظ کہنے آیا ہوں جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ دوبارہ بمبئی نہیں آسکیں گے۔ پنجاب میں تو سکھوں نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی لیکن دہلی، سہارن پور، یوپی وغیرہ میں ہندوؤں نے جس طرح مسلمانوں کا خون بہایا، عورتوں کی عصمتیں لوٹیں اور مسلمانوں کو گھروں میں جلایا اور یہ سب کچھ حکومتی نگرانی میں ہوا اس نے قائد اعظم پر گہرے اثرات مرتب کئے۔بمبئی میں ہر سال ہفتے گزارنا تو کجا قائد اعظم ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے جس کا سب سے بڑا ثبوت ان کا ڈھاکہ کا سرکاری دورہ ہے جب قائد اعظم کو بتایا گیا کہ ان کے طیارے کو ری فیول کے لئے دہلی اترنا پڑے گا تو انہوں نے کہا کہ وہ کسی قیمت پر بھی ہندوستانی سرزمین پر قدم نہیں رکھیں گے، چنانچہ ان کے طیارے کے ساتھ فیول کے لئے دو ٹینک لگائے گئے تاکہ وہ ہندوستان رکے بغیر ڈھاکہ پہنچ جائیں۔ اس فیصلے میں خطرات مضمر تھے لیکن قائد اعظم نے ان خطرات کو قبول کیا۔ میری ذاتی رائے میں بمبئی ہفتے گزارنے کا تاثر بے بنیاد اور ہوائی ہے لیکن اگر کوئی صاحب اس ضمن میں ثبوت مہیا کرسکیں تو میں ان کا ممنون ہوں گا۔ چند روز قبل ایک ٹی وی چینل پر سندھ کے ایک شعلہ نوا قوم پرست یہ انکشاف فرمارہے تھے کہ1940ء کی قرار داد کے مطابق صوبے یا ریاستیں پاکستان سے الگ ہونے کا حق رکھتی تھیں۔ یہ بات صریحاً غلط اور جھوٹ ہے ۔ قرار داد لاہور (پاکستان)میں اس طرح کی کوئی شق نہیں تھی۔ شاید وہ صاحب جوش خطابت میں قرار داد پاکستان کو کابینہ مشن پلان سے کنفیوژ کرگئے۔ اسی طرح لاہور کے ایک”سرخ“ دانشور ٹی وی چینل پر انکشاف کرتے پائے گئے کہ قائد اعظم صوبائی خود مختاری کے حصول کی شرط پرمطالبہ پاکستان سے دستبردار ہونے کو تیار ہوگئے تھے۔ یہ دعویٰ بھی بے بنیاد اور قائد اعظم کے خلاف پراپیگنڈہ مہم کا حصہ ہے ۔ میں بوجوہ ٹی وی کم دیکھتا ہوں لیکن جب کبھی دیکھتا ہوں تو اس طرح کے انکشافات سن کر سوچ میں ڈوب جاتا ہوں۔ فی الحال تھوڑا لکھے کو بہت سمجھیں، باقی انشاء اللہ آئندہ۔
Friday, 18 May 2012
چند معصوم وضاحتیں August 27, 2011
ہم تومباحثوں میں الجھے ہوئے ہیں ذرا ان خاندانوں سے پوچھئے جن کے پیارے قتل اور اغواء ہوچکے ہیں۔گزشتہ دنوں ملک کے ممتاز کالم نگار جناب عطاء الحق قاسمی صاحب نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد”قائد اعظم کی خواہش تھی کہ وہ سال میں چند ہفتے بمبئی میں گزار ا کریں“۔ مجھے یہ بات انہونی سی لگی چنانچہ میں اس تاثر کا کھوج لگانے کی کوشش کرتا رہا۔ بلاشبہ قائد اعظم ہندوستان سے دوستانہ تعلقات کی خواہش رکھتے تھے اور آج بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد ہندوستان سے برابری کی سطح پر دوستانہ تعلقات کی آرزو رکھتی ہے لیکن اس آرزو کے راستے میں جتنی رکاوٹیں ہیں ان کا ہمیں اچھی طرح ادراک ہے۔ اول تو قائد اعظم پاکستان کے گورنرجنرل اور سربراہ مملکت بن کر بمبئی میں ہر سال چند ہفتے گزارنے کی خواہش رکھتے ہوں ناقابل یقین بات لگتی ہے کیونکہ وہ سات اگست1947ء کوپاکستان آئے ا ور چھ اگست کی شام وہ اپنے دوست کے ساتھ اپنی مرحومہ بیوی مریم (رتی) کی قبر پر دیر تک بیٹھے رہے ۔ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور انہوں نے اپنے دوست سے کہا کہ میں رتی کو خدا حافظ کہنے آیا ہوں جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ دوبارہ بمبئی نہیں آسکیں گے۔ پنجاب میں تو سکھوں نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی لیکن دہلی، سہارن پور، یوپی وغیرہ میں ہندوؤں نے جس طرح مسلمانوں کا خون بہایا، عورتوں کی عصمتیں لوٹیں اور مسلمانوں کو گھروں میں جلایا اور یہ سب کچھ حکومتی نگرانی میں ہوا اس نے قائد اعظم پر گہرے اثرات مرتب کئے۔بمبئی میں ہر سال ہفتے گزارنا تو کجا قائد اعظم ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے جس کا سب سے بڑا ثبوت ان کا ڈھاکہ کا سرکاری دورہ ہے جب قائد اعظم کو بتایا گیا کہ ان کے طیارے کو ری فیول کے لئے دہلی اترنا پڑے گا تو انہوں نے کہا کہ وہ کسی قیمت پر بھی ہندوستانی سرزمین پر قدم نہیں رکھیں گے، چنانچہ ان کے طیارے کے ساتھ فیول کے لئے دو ٹینک لگائے گئے تاکہ وہ ہندوستان رکے بغیر ڈھاکہ پہنچ جائیں۔ اس فیصلے میں خطرات مضمر تھے لیکن قائد اعظم نے ان خطرات کو قبول کیا۔ میری ذاتی رائے میں بمبئی ہفتے گزارنے کا تاثر بے بنیاد اور ہوائی ہے لیکن اگر کوئی صاحب اس ضمن میں ثبوت مہیا کرسکیں تو میں ان کا ممنون ہوں گا۔ چند روز قبل ایک ٹی وی چینل پر سندھ کے ایک شعلہ نوا قوم پرست یہ انکشاف فرمارہے تھے کہ1940ء کی قرار داد کے مطابق صوبے یا ریاستیں پاکستان سے الگ ہونے کا حق رکھتی تھیں۔ یہ بات صریحاً غلط اور جھوٹ ہے ۔ قرار داد لاہور (پاکستان)میں اس طرح کی کوئی شق نہیں تھی۔ شاید وہ صاحب جوش خطابت میں قرار داد پاکستان کو کابینہ مشن پلان سے کنفیوژ کرگئے۔ اسی طرح لاہور کے ایک”سرخ“ دانشور ٹی وی چینل پر انکشاف کرتے پائے گئے کہ قائد اعظم صوبائی خود مختاری کے حصول کی شرط پرمطالبہ پاکستان سے دستبردار ہونے کو تیار ہوگئے تھے۔ یہ دعویٰ بھی بے بنیاد اور قائد اعظم کے خلاف پراپیگنڈہ مہم کا حصہ ہے ۔ میں بوجوہ ٹی وی کم دیکھتا ہوں لیکن جب کبھی دیکھتا ہوں تو اس طرح کے انکشافات سن کر سوچ میں ڈوب جاتا ہوں۔ فی الحال تھوڑا لکھے کو بہت سمجھیں، باقی انشاء اللہ آئندہ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment