Friday 18 May 2012

خون کے بہتے دریا کو کیسے روکا جائے؟ August 24, 2011

انگلستان میں ہنگاموں قتل و غارت اور لوٹ مار کی وباء نہایت شدید انداز سے پھوٹی اور یوں لگتا تھا جیسے لندن، مانچسٹر، برمنگھم کا بڑا حصہ جل کر راکھ ہو جائے گا لیکن حکومت کی مضبوطی، اہلیت اور عزم ملاحظہ فرمایئے کہ تین دن میں ہنگاموں پر قابو پا لیا گیا اور اس مقصد کے لئے نہ فوج بلائی گئی اور نہ ہی جہازوں سے بم گرائے گئے۔ ہمارے حکمرانوں کی نا اہلی، تغافل اور لاپرواہی کا یہ حال ہے کہ طویل عرصے سے کراچی میں معصوم شہریوں کو اغواء کیا جا رہا ہے اور اغواء کنندگان کے لئے باقاعدہ عقوبت خانے معرض وجود میں آ چکے ہیں جہاں سے قیدیوں کو ٹاچر اور قتل کے بعد ان کی لاشوں کے ساتھ پیغام باندھ کر انہیں سڑکوں شاہراؤں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ میں تو اس تصور کے ساتھ ہی ہمہ تن لہو ہو جاتا ہوں کہ انسانوں کو یوں ذبح کرنے والے کیا اولادِ آدم ہیں؟ اب تک کراچی میں ہزاروں بے گناہ شہری سیاسی پارٹیوں کی اندرونی اور باہمی جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور صرف رمضان کے مبارک مہینے میں قتل و غارت کی تعداد پانچ سو تک پہنچ چکی ہے۔ حکومت کا اولین فرض شہریوں کو تحفظ اور احساس تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ عجب سانحہ ہے کہ نہ قاتلوں کے دلوں میں خوف خدا کی رمق باقی ہے اور نہ حاکموں کے دلوں میں اپنے عوام سے ہمدردی کی رمق باقی ہے۔ قوم گویا سزا کے عمل سے گزر رہی ہے اور اپنے ہی کئے کی سزا بھگت رہی ہے۔ 
پیچھے مڑ کر دیکھیں تو موجودہ لہر کا سلسلہ اس 12 مئی سے شروع ہوا تھا جس دن چیف جسٹس کراچی گئے تھے۔ اس روز ہم نے ٹی وی پر قتل و غارت اور کراچی کی سڑکوں پر لاقانونیت کے ناچنے کے جو مناظر دیکھے تھے ان کا جنگل میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا کجا آپ کراچی جیسے شہر میں اپنی آنکھوں سے اس طرح کا لاقانونیت کا راج دیکھیں سول سوسائٹی اور میڈیا کے احتجاج اور دباؤ کے باوجود نہ 12 مئی کے قاتل گرفتار ہوئے اور نہ وہ آگ لگانے والے ہاتھ پکڑے گئے جن کی شکلیں سب نے دیکھی تھیں۔ یہ نئی حکومت کا استقبال اور آغاز تھا۔ نتیجے کے طور پر قاتلوں، بھتہ خوروں، لینڈ مافیاز اور عادی مجرموں کو یہ پیغام مل گیا کہ تمہیں مکمل آزادی ہے۔ اگر اس وقت مجرموں کو پکڑ لیا جاتا اور انہیں سزائیں ملتیں تو ان کے ساتھیوں کو اس آزادی سے قتل و غارت کی جرأت نہ ہوتی۔ پولیس اس وقت بھی منظر سے غائب تھی اور آج بھی اپنی پناہ گاہوں میں چھپی ہوئی ہے کیونکہ اول تو قتل و غارت کی ان وارداتوں کے پس پردہ سیاسی ہاتھ ہوتا ہے جو پولیس کا راستہ روکتا ہے دوم کراچی پولیس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی نے پولیس کی اہلیت کا جنازہ نکال دیا ہے اور پولیس کو سیاسی پارٹی بنا دیا ہے۔ مسلسل لاقانونیت نے پولیس کے حوصلے پست کر دیئے ہیں۔ اس لئے موجودہ پولیس اور انتظامیہ سے یہ حسن ظن رکھنا کہ وہ قاتلوں کو پکڑے گی اور سزا دلوائے گی یہ توقع ہی عبث ہے اور محض دیوانے کا خواب ہے۔ کسی وزیر یا وزیراعظم کی آمد کے موقع پر وقتی طور پر خونی ڈرامہ میں وقفہ آ جاتا ہے تو حکمران فرماتے ہیں کہ امن بحال ہو گیا حالانکہ یہ ڈرامے کا محض وقفہ ہوتا ہے اور اپنے لیڈر کے لئے چند گھنٹوں کے لئے احترام کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسا بھی اس لئے ہوتا ہے کہ کراچی کے قتل و غارت اور بدامنی میں سیاست ملوث ہے۔ دانشور کہتے ہیں کہ کراچی کی تین بڑی جماعتوں پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کو آن بورڈ لے آؤ، ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرو تو کراچی میں امن ہو جائے گا۔ میرا طویل انتظامی تجربہ شاہد ہے کہ یہ محض وقتی خاموشی ہو گی، لاوا زیر زمین ابلتا رہے گا، خون بہانے کے عادی ہتھیار تیز کرتے رہیں گے اور قتل و غارت کی بجائے اغوا برائے تاوان، ڈاکے اور چوریوں کے مشغلے میں مصر وف ہو جائیں گے کیونکہ جن کی گھٹی میں جرم پڑ چکا، وہ جرم سے باز نہیں آئیں گے۔ ان کے آقا انہیں قتل و غارت دہشت گردی سے روک دیں گے تو وہ اپنی پیاس بجھانے کے لئے نئے راستے تلاش کر لیں گے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے لڑاکا (ملی ٹینٹ) ونگ موجود ہیں جو تجربہ کار مجرموں اور قاتلوں پر مشتمل ہیں۔ یہ لڑائی ونگ اپنے اپنے حاکموں کے اشاروں پر کارروائیاں کرتے ہیں اور یہ کارروائیاں اس وقت خونی رنگ اختیار کر لیتی ہیں جب سٹیک ہولڈرز کے مقامی سیاسی مفادات میں ٹکراؤ ہوتا ہے۔ ان سیاسی سٹیک ہولڈرز کے لینڈ مافیاز بھی ہیں اور بھتہ مافیاز بھی۔ ان کا اپنا اپنا حلقہ اثر اور ووٹ بینک ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ صدر صاحب اے این پی اور ایم کیو ایم کو لڑا کر انہیں کمزور کر کے پی پی پی کا دائرہ اثر بڑھانا چاہتے ہیں جبکہ کچھ قوتیں پی پی پی کو ایم کیو ایم سے لڑا کر دونوں کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ لسانی گروہ پورے کراچی پر عملداری چاہتا ہے تو سندھی قومیت پرست دوسرے گروہوں اور اپنے رقیبوں کو کراچی سے بھگا دینا چاہتے تھے۔ سیاست کی اس جنگ اور مفادات کے کھیل میں خون کس کا بہہ رہا ہے، مر کون رہا ہے، بچے کس کے یتیم ہو رہے ہیں اور گھر کس کے اجڑ رہے ہیں؟ وہ ہیں معصوم بے گناہ پاکستانی جنہیں اپنا جرم بھی معلوم نہیں۔ جو مزدوری کرنے نکلتے ہیں تو اغواء ہو جاتے ہیں یا آوارہ گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ 
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کراچی میں کئی ہفتوں سے خون بہہ رہا ہے، ملکی معیشت کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے، ملک عالمی سطح پر بدنام ہو رہا ہے، لوگوں کا ملک کے مستقبل پر اعتماد ڈگمگا رہا ہے اور حکومت نیرو کی مانند بنسری بجا رہی ہے۔ کبھی یہاں میٹنگ کبھی وہاں میٹنگ، کبھی بڑھکیں، دھمکیاں اور سخت اقدام کی خوشخبریوں کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے جب کہ عملاً قتل و غارت جاری ہے اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لیتا یا حکومت میں امن قائم کرنے کی صلاحیت نہیں یا پھر ارادہ نہیں۔ گویا صورتحال یہ ہے کہ حکومت نا اہلی کا تمغہ حاصل کر چکی، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس ناکام ہو چکے اور سیاست کی نذر ہو کر نا اہل ہو چکے، رینجرز کوئی بڑا قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں اور موجودہ قتل و غارت کی لہر میں کراچی کے تینوں سیاسی اسٹیک ہولڈرز ملوث ہیں اور ان کے کارکنوں کو چھوا نہیں جا سکتا تو پھر خون کی بہتی ندی کو کون روکے؟ میری رائے میں اب کراچی کو کم از کم دو تین ماہ کے لئے فوج کے حوالے کرنا ضروری ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کے پاس انفارمیشن ہوتی ہے۔ فوجی دور میں تمام مجرموں، وارداتیوں، بھتہ لینڈ مافیاز کے گینگوں کو پکڑے اور سیاست سے بالاتر ہو کر ان پر مقدمات چلانے کے بغیر اور کوئی چارہ کار نہیں۔ جلد انصاف کی عدالتوں کے ذریعے سزائیں دلوائے بغیر یہ عناصر باز نہیں آئیں گے اور ان کے ساتھ ساتھ ان کے سیاسی ناخداؤں کے خلاف اقدامات کئے بغیر دیر پا امن قائم نہیں ہو گا۔ ایک بار مجرموں کو کچلے بغیر طویل المدتی امن بحال نہیں ہو گا اور یہ کام بہرحال پولیس اور سویلین انتظامیہ نہیں کر سکتی۔ یہی پولیس اور انتظامیہ فوج کے ماتحت ہو گی تو پھر ان کی پھرتیاں دید کے قابل ہوں گی۔ میں عام حالات میں فوج کو بلانے کا مخالف ہوں لیکن یہ عام حالات نہیں۔ یہ گمبھیر صورتحال ہے۔ 


No comments:

Post a Comment