Friday 18 May 2012

خاص ہے ترکیب میں… August 21, 2011


یہ بات یاد رکھیں کہ اگر سیاسی رہنمائی اور سیاسی انقلاب کے قائد اعظم محمد علی جناح تھے تو فکری رہنمائی اور ذہنی انقلاب کے قائد اعظم علامہ محمد اقبال تھے۔ ہندوستان میں مسلم قومیت کا احیاء اور مسلمانوں کی الگ نظریاتی شناخت کی بنیاد رکھنے میں دونوں رہنماؤں نے اپنے اپنے میدان میں فیصلہ کن کردار سرانجام دیا کیونکہ سیاست اور فکر کاآ پس میں گہرا تعلق ہے جب سیاست فکری اساس سے تہی دامن ہوجائے تو تماشا بن کر رہ جاتی ہے۔ میں اپنے طور پر محسوس کرتا ہوں کہ سیاست فکری مماثلت کے بغیر آگے بڑھ ہی نہیں سکتی اور نہ ہی پائیدار اور اثر انگیز ہوسکتی ہے۔ ہندوستان میں آٹھ صدیوں کا اقتدار کھونے اور انگریز کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جانے کے بعد مسلمان مایوسی کی جن اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے انہیں ان اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لانے اور اپنے قومی وجود کو سنوارنے کے لئے سیاسی اور ذہنی رہنمائی دونوں کی ضرورت تھی اور قدرت نے یہ دونوں ضرورتیں قائد اعظم اور اقبال کی صورت میں پوری کردیں۔ علامہ اقبال نے اپنے کلام کے ذریعے مسلمانوں کو بیدار کیا، ان میں اپنے شاندار ماضی کے حوالے سے احساس تفاخر اور اعتماد پیدا کیا اور ان میں علیحدہ قومیت کا احساس اجاگر کرکے ان کی ذہنی سمت متعین کردی اور پھر1920ء میں انہیں مستقبل کی ہلکی سی جھلک بھی دکھلادی جبکہ قائد اعظم نے اپنے طور پر اسی فکری بنیاد پر سیاسی عمارت تعمیر کی، انگریزوں اور ہندوؤں سے مسلمانوں کے حقوق کے حصول کے لئے زندگی وقف کردی اور اپنی سیاسی حکمت عملی کے ذریعے مسلمانوں میں مسلمان قومیت کی شمع جلا کر انہیں سوئے منزل گامزن کردیا۔ اس حوالے سے تاریخ کے اولین دور میں لکھنٴو پیکٹ قائد اعظم کا پہلا سیاسی شاہکار تھا جس کے ذریعے کانگریس مسلمانوں کو جداگانہ حق رائے دہی دینے پر آمادہ ہوگئی، اگر آپ تحریک آزادی پر ہندوستان میں لکھی گئی کتابیں پڑھیں جن میں جسونت سنگھ کی کتاب بھی شامل ہے تو وہ لکھنو معاہدہ کو تصور پاکستان کی پہلی اینٹ قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم تسلیم کرکے انہیں حق رائے دہی دینے پر کانگریسی راہنماؤں یعنی اپنے بزرگوں کی لعن طعن کرتے ہیں۔ جب کانگریسی حلقوں اور ہندو رائے عامہ میں اس احساس نے جنم لیا کہ انہوں نے مسلمانوں کو الگ قوم قبول کرکے غلطی کی ہے اور بظاہر لکھنو معاہدہ ہندو مسلم اتحاد کا علمبردار ہے لیکن دراصل اس نے ہندوستانی سیاست میں دو متوازی دھاروں کی راہ ہموار کردی ہے اور وہ متوازی دھارے ہیں ہندو اور مسلمان، تو کانگریس نے اس معاہدے سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤ ں مارنے شروع کردئیے۔ بالآخر 1928ء کی نہرو رپورٹ جو جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو کے نام سے موسوم ہے ۔ ہندو ذہنیت کو آشکارہ کرگئی۔ اس رپورٹ میں مسلمانوں سے جداگانہ حق رائے دہی واپس لے لیا گیا گویا ہندوؤں نے یہ ماننے سے انکارکردیاکہ مسلمان اپنے مذہب، ثقافت، تاریخ اور دیگر حوالوں سے ایک الگ قوم ہیں۔ اسی لئے قائد اعظم نے نہرو رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے راستوں کی علیحدگی (Parting of ways)قرار دیا۔
جنگ عظیم اول نے قومی ریاست کے تصور کو نہایت پرزور انداز سے اچھالا اور وطن کو قوم کی بنیاد قرار دے کر اور وطنیت کے فلسفے کو ہوا دے کر حب الوطنی کے جذبے کو ابھارا جسے جنگ میں شریک قوموں نے اپنے جنگی مقاصد کے لئے خوب استعمال کیا۔ 1920ء کی دہائی کے ارد گرد یہ فلسفہ ہندوستان کی علمی فکری حلقوں میں زیر بحث تھا۔1916ء کے میثاق لکھنٴو کے کانگریسی حلقے پچھتاوے کا شکار تھے اور اگر آپ گاندھی جی کے بیانات اور ان کے رسالے ینگ انڈیا کا مطالعہ کریں تو آپ کو گاندھی جی اکثر یہ کہتے ملیں گے کہ چند کروڑ لوگوں کے مذہب تبدیل کرنے سے الگ قوم نہیں بنتی۔ یہ ہم ہی میں سے ہیں کوئی باہر سے نہیں آئے۔ میں ان(Converts)کو الگ قوم نہیں مانتا۔ طویل عرصہ قبل میں نے کہیں پڑھا اور محظوظ ہوا کہ گاندھی جی ان دنوں جھنجلا کر کہتے تھے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جب نتھو رام مسلمان ہوجاتا ہے تو راتوں رات کیسے اس کی کایا پلٹ جاتی ہے اور وہ ڈرپوک سا ہندو اسلام قبول کرتے ہی مرنے مارنے پر کیوں تل جاتا ہے۔اس نظریاتی مباحث کے دور میں جب فلسفہ وطنیت کے ذریعے مسلمانوں کی منفرد نظریاتی شناخت میں سرنگ لگائی جارہی تھی تو علامہ اقبال نے مسلمانوں کو انتباہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
مختصر یہ کہ مسلمان قوم رسول ہاشمی ہونے کی وجہ سے اپنی ترکیب، اپنے وجود، اپنی فکر، اپنی تہذیب اور اپنے مذہب کے حوالے سے دوسری اقوام سے بالکل الگ ہے اس لئے اس کا دوسری قوموں سے موازنہ بے معنی ہے۔ علامہ اقبال کا یہ مصرعہ ہر پڑھے لکھے مسلمان کا حرزجاں بن گیا کہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی، یعنی اس کے قومی اجزائے ترکیبی ہی دو سری اقوام سے الگ ہیں، مختلف ہیں۔ میرے خیال میں اس نقطے کی وضاحت کی ضرورت نہیں بہرحال کانگریسی جمعیت علماء ہند کے قائد مولانا حسین احمد مدنی سے علامہ اقبال کا بیانگ دہل اختلاف بھی اسی فکری فلسفے اور سیاسی لہر کاشاخسانہ تھا۔ مولانا مدنی کا کہنا تھا کہ قومیں اوطان(وطن) سے بنتی ہیں جبکہ علامہ اقبال نے ان کو یہ جواب دے کرکانگریسی علماء کے منہ بند کردئیے کہ قومیں مذہب سے بنتی ہیں ،وطن محض ان کی جغرافیائی پہچان ہوتی ہے۔ ارمغان حجاز میں علامہ کا مولانا حسین احمد کو جواب بار بار پڑھنے کے لائق ہے۔ تمہید لمبی ہوگئی لیکن ضروری تھی ۔ اب مجھے کہنے دیجئے کہ دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان کے ناقدین اور اس کے مخالفین فقط یہ نقطہ سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے کہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی جبکہ نظریہ پاکستان کی بنیاد ہی یہی ہے۔ مزید وضاحت چاہئے تو علامہ اقبال کے خطوط بنام جناح پڑھ لیجئے اور قائد اعظم کی تقاریر پڑھنے کی زحمت گوارہ کرلیجئے کہ ان میں قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101بار اور قیام پاکستان کے بعد چودہ بار کہا کہ پاکستان کے نظام ،دستور، قانون کی بنیاد اسلام پر رکھی جائے گی۔ درست کہ سکھ بھی وحدانیت کے قائل ہیں اور گورداورہ صاحب کی بنیادمشہور مسلمان صوفی اولیا ء اللہ حضرت میاں میر نے رکھی تھی لیکن مت بھولئے کہ مسلمانوں اور سکھوں کے تصور خدا میں واضح فرق ہے اگر سکھ بھی اسی رب کو پوجتے جسے ہم اپنا رب مانتے ہیں تو پھر اسی رب کے بھیجے ہوئے رسول اور الہامی کتاب کو بھی مان لیتے۔ بلا شبہ ہمارا رب سارے جہانوں کا پالنے والا ہے لیکن ان جہانوں میں وہ بھی شامل ہیں جو رب کو نہیں مانتے۔ شرک جیسے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ، ایک بار میں نے ایک ولی اللہ سے پوچھا کہ حضور عرش معلی پر کیا لکھا ہوا ہے؟ چند لمحے سکون فرمایا اور کہنے لگے لاالہ الا اللہ۔ مزید فرمایا مجھے تو یہ ساری کائنات فقط لاالہ الا اللہ پر کھڑی نظر آتی ہے اور پتھروں سے لے کر پرندوں تک سبھی یہی ورد کرتے ہیں صرف سننے سمجھنے والے کان درکار ہیں۔ مطلب یہ کہ لاالہ الا اللہ کہنے سے انسان ایک منفرد حیثیت اور وجود اختیار کرجاتا ہے۔ سیالکوٹ کے اصغر سودائی محض ایک شعر سے شہرت دوام پاگئے۔ مرحوم کا کہنا تھا کہ میں1944ء میں اسلامیہ کالج لاہور کا طالبعلم تھا۔ تحریک پاکستان زوروں پر تھی ، فکری و سیاسی مباحثے روزمرہ کا معمول تھے۔ پاکستان کے مطالبے نے ہر نوجوان کو شعلہ جوالہ بنادیا تھا۔ 
لوگ پوچھتے تھے پاکستان کا مطلب کیا ہے، میں سوچ میں گم تھا کہ یہ شعرالقاء ہوا ،پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ، دیکھتے ہی دیکھتے یہ شعر گھروں، گلیوں، محلوں، قصبوں اور شہروں میں پھیل گیا اور ہم مسلمانوں کا نعرہ بن گیا۔درست کہ یہ نعرہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے نہیں لگایا گیا تھا لیکن آخر زبان خلق قومی جذبہ اور ملی ادراک بھی کوئی شے ہوتی ہے اور یہ شے جماعتوں پر بھاری ہوتی ہے۔
کالم کی تنگ دامنی کے پیش نظر عرض ہے کہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی کے وجدان نے پاکستان بنادیا۔ یہی نظریہ پاکستان ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سیکولر، لادین یا دین سے بیزار دانشور اسے سمجھ سکتے ہیں یا اس کی روح کا ادراک کرسکتے ہیں بالکل نہیں، آپ ان سے وہی توقع رکھیئے جو وہ کررہے ہیں۔ وہ اسی طرح نظریہ پاکستان کو مسمار کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے حالانکہ اس ملک کی بنیاد اسی نظریے پر ہے اور ان ناشکروں کو اس ملک نے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نہ نظریے مرتے ہیں اور نہ ہی نظریات کی بنیاد پر ریاست کے معرض وجود میں آنے کے بعد وہ بنیاد ختم ہوتی ہے۔
اس لئے وہ روشن خیال جو روشن خیالی کی لہر میں بہہ کر کہتے ہیں کہ اب نظریہ پاکستان ختم ہوچکا دراصل اپنی کم علمی کی چغلی کھاتے ہیں کیونکہ نظریہ پاکستان اصولی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے ، جس کاادراک قائد اعظم کی تقریریں پڑھنے سے ہوتا ہے لیکن روشن خیال سیکولر حضرات یہ تقریریں نہیں پڑھتے، اول دو قومی نظریے کی بنیاد پر قیام پاکستان اور دوم قائد اعظم کے اس تصور پاکستان کو علمی جامہ پہنانا جس کے لئے نوے فیصد مسلمانان ہند نے1945-46کے انتخابات میں مسلم لیگ کو ووٹ دئیے۔ پہلا مقصد حاصل ہوچکا دوسرا مقصد حاصل کرنا باقی ہے۔گویا نظریہ پاکستان ابھی مکمل طور پر شرمندہ تعبیر نہیں ہوا…باقی آئندہ انشاء اللہ۔

No comments:

Post a Comment