البیرونی صدیوں پہلے ہندوستان آیا تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کی ثقافت لباس وغیرہ میں اس قدر فرق ہے کہ میلوں کے فاصلے سے مسلمان اور ہندو پہچانے جاتے ہیں۔گاندھی واویلا کیا کرتا تھا کہ ہندو گائے کی پرستش کرتے ہیں جبکہ مسلمان گائے کو ذبح کرکے اس کا گوشت کھاتے ہیں۔ ہندو پانچ سو سے زیادہ خداؤں کی پرستش کرتے ہیں اور ان کے انہی دیوتاؤں کے بتوں کو محمود غزنوی نے پاش پاش کیا تھا جس کی سزا آج تک ہندو مورخین اور کچھ پاکستانی مورخین محمود غزنوی کو دے رہے ہیں۔ قائد اعظم نے ہزار بار کہا کہ مسلمان اور ہندو الگ الگ قومیں ہیں ، ان کا مذہب ،تاریخ، ثقافت، رہن سہن، رسم و رواج، ہیرو حتیٰ کہ ہر پیشہ الگ الگ ہے۔ موقع ملے تو قرار داد پاکستان 23مارچ1940 کے دن قائد اعظم کی تقریر پڑھ لیجئے ۔ عجیب بات ہے جس حقیقت کا قائد اعظم نے ادراک کرلیا تھا وہ میرے محترم میاں نواز شریف کو سمجھ میں کیوں نہیں آئی اور انہوں نے سیفما کے14اگست کے فنکشن میں یہ کیسے کہہ دیا کہ”پاکستان اور بھارت کی ثقافت ایک جیسی ہے اس میں صرف سرحد آگئی ہے“۔ ویسے اگر یہ سرحد نہ آئی ہوتی تو کیا میاں صاحب دوبارہ وزیر اعظم بن کر تیسری بار وزارت عظمی کا خواب دیکھ رہے ہوتے۔ ہم یقیناہندوستان سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں اور اسی میں اس خطے کی خوشحالی کا راز مضمر ہے لیکن تاریخ کھنگال کر دیکھئے کہ ہندوستان کا پاکستان کے ساتھ کیا رویہ رہا ہے اور کیا رویہ آج ہے۔ میں میاں صاحب کی عزت کرتا ہوں اور وہ مجھے عزیز ہیں لیکن کیا کروں کہ قائد اعظم تحریک آزادی اور پاکستان مجھے” عزیز ترین“ ہے۔ خدارا ہندوستان دوستی کی لہر میں بہہ کر پاکستان کی شناخت کو ابہام کا نشانہ نہ بنائیں اور نہ ا یسی باتیں کریں کہ جس رب کو بھارتی پوجتے ہیں ہم بھی اسی رب کو پوجتے ہیں۔ اس حوالے سے پرویز رشید کی وضاحت عذربدتر ہے اور میاں صاحب پر لازم ہے کہ وہ قائداعظم کی تقاریر اور تحریک پاکستان پر مستند کتابیں پڑھیں اور دین بیزار، سیکولر اور الٹرا لبرل عناصرکے ہاتھوں میں کھیل کر اپنی نظریاتی و سیاسی بنیاد پر ہتھوڑے نہ ماریں۔میرے مہربان دوستوں اور خیبر پختوانخواہ کے حکمرانوں نے ایک بار پھر ایسی حرکت کی ہے کہ پندرہ اگست 1947کی یادیوں کو تازہ کردیا ہے۔ اے این پی حکومت نے اپنے صوبے میں یوم آزادی پندرہ اگست کو منانے کا اعلان کرکے ایک بار پھر قوم کو تقسیم کردیا۔ اس حوالے سے مجھے بے شمار فون آئے۔پاکستان14اورپندرہ اگست کی نصف شب معرض وجود میں آیا تھا اس لئے اس کا پہلا یوم آزادی پندرہ اگست ستائیسویں رمضان کو منایا گیا۔ اس کے بعد 1948میں حکومت پاکستان نے گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی منظوری سے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان ہر سال چودہ اگست کو یوم آزادی منا ئے گا ، اتنے طویل عرصے کے بعد اس سال اے این پی کی حکومت نے اپنے صوبہ میں پندرہ اگست کو یوم آزادی منا کر پندرہ اگست 1947کی یادیں تازہ کردیں، جس دن صوبہ سرحد کی ڈاکٹر خان صاحب کی کابینہ نے پہلے یوم آزادی پر پاکستانی جھنڈے کو سلامی دینے سے انکار کردیا تھا۔ گورنر سرحد کنگھم کی فائل کی کاپی میرے پاس موجود ہے۔ پندرہ اگست 1947کے دن بھی بہانہ خطرہ تھا اور اس سال بھی خطرے کو ہی بہانہ بنایا گیا۔ خدارا قوم کو تقسیم کرکے کمزورنہ کرو، ابہام نہ پھیلاؤ، یہ تمہارا ملک ہے اور اس ملک نے تمہیں وہ کچھ دیا ہے جو متحدہ ہندوستان میں تمہیں ہرگز نہ ملتا۔تحریک پاکستان کے بارے میں ابہام پیدا کرکے قوم کو اپنی نظریاتی شناخت کے حوالے سے انتشار میں مبتلا کرنا قوم کو اندرونی طور پر تقسیم کرنے اور منتشر کرنے کے مترادف ہے کیا تم ایسا جان بوکھ کررہے ہو؟؟اگر یہ نیت کا فتور ہے تو پھر تحریک پاکستان، نظریہ پاکستان قائد اعظم اور اسلام کے حوالے سے ابہام پیدا کرنے والے اور قوم کی صفوں میں انتشار کو ہوا دینے والے قومی مجرم ہیں قومی مجرم…؟
Friday, 18 May 2012
ابہام اور انتشار پھیلانے والے August 17, 2011
البیرونی صدیوں پہلے ہندوستان آیا تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کی ثقافت لباس وغیرہ میں اس قدر فرق ہے کہ میلوں کے فاصلے سے مسلمان اور ہندو پہچانے جاتے ہیں۔گاندھی واویلا کیا کرتا تھا کہ ہندو گائے کی پرستش کرتے ہیں جبکہ مسلمان گائے کو ذبح کرکے اس کا گوشت کھاتے ہیں۔ ہندو پانچ سو سے زیادہ خداؤں کی پرستش کرتے ہیں اور ان کے انہی دیوتاؤں کے بتوں کو محمود غزنوی نے پاش پاش کیا تھا جس کی سزا آج تک ہندو مورخین اور کچھ پاکستانی مورخین محمود غزنوی کو دے رہے ہیں۔ قائد اعظم نے ہزار بار کہا کہ مسلمان اور ہندو الگ الگ قومیں ہیں ، ان کا مذہب ،تاریخ، ثقافت، رہن سہن، رسم و رواج، ہیرو حتیٰ کہ ہر پیشہ الگ الگ ہے۔ موقع ملے تو قرار داد پاکستان 23مارچ1940 کے دن قائد اعظم کی تقریر پڑھ لیجئے ۔ عجیب بات ہے جس حقیقت کا قائد اعظم نے ادراک کرلیا تھا وہ میرے محترم میاں نواز شریف کو سمجھ میں کیوں نہیں آئی اور انہوں نے سیفما کے14اگست کے فنکشن میں یہ کیسے کہہ دیا کہ”پاکستان اور بھارت کی ثقافت ایک جیسی ہے اس میں صرف سرحد آگئی ہے“۔ ویسے اگر یہ سرحد نہ آئی ہوتی تو کیا میاں صاحب دوبارہ وزیر اعظم بن کر تیسری بار وزارت عظمی کا خواب دیکھ رہے ہوتے۔ ہم یقیناہندوستان سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں اور اسی میں اس خطے کی خوشحالی کا راز مضمر ہے لیکن تاریخ کھنگال کر دیکھئے کہ ہندوستان کا پاکستان کے ساتھ کیا رویہ رہا ہے اور کیا رویہ آج ہے۔ میں میاں صاحب کی عزت کرتا ہوں اور وہ مجھے عزیز ہیں لیکن کیا کروں کہ قائد اعظم تحریک آزادی اور پاکستان مجھے” عزیز ترین“ ہے۔ خدارا ہندوستان دوستی کی لہر میں بہہ کر پاکستان کی شناخت کو ابہام کا نشانہ نہ بنائیں اور نہ ا یسی باتیں کریں کہ جس رب کو بھارتی پوجتے ہیں ہم بھی اسی رب کو پوجتے ہیں۔ اس حوالے سے پرویز رشید کی وضاحت عذربدتر ہے اور میاں صاحب پر لازم ہے کہ وہ قائداعظم کی تقاریر اور تحریک پاکستان پر مستند کتابیں پڑھیں اور دین بیزار، سیکولر اور الٹرا لبرل عناصرکے ہاتھوں میں کھیل کر اپنی نظریاتی و سیاسی بنیاد پر ہتھوڑے نہ ماریں۔میرے مہربان دوستوں اور خیبر پختوانخواہ کے حکمرانوں نے ایک بار پھر ایسی حرکت کی ہے کہ پندرہ اگست 1947کی یادیوں کو تازہ کردیا ہے۔ اے این پی حکومت نے اپنے صوبے میں یوم آزادی پندرہ اگست کو منانے کا اعلان کرکے ایک بار پھر قوم کو تقسیم کردیا۔ اس حوالے سے مجھے بے شمار فون آئے۔پاکستان14اورپندرہ اگست کی نصف شب معرض وجود میں آیا تھا اس لئے اس کا پہلا یوم آزادی پندرہ اگست ستائیسویں رمضان کو منایا گیا۔ اس کے بعد 1948میں حکومت پاکستان نے گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی منظوری سے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان ہر سال چودہ اگست کو یوم آزادی منا ئے گا ، اتنے طویل عرصے کے بعد اس سال اے این پی کی حکومت نے اپنے صوبہ میں پندرہ اگست کو یوم آزادی منا کر پندرہ اگست 1947کی یادیں تازہ کردیں، جس دن صوبہ سرحد کی ڈاکٹر خان صاحب کی کابینہ نے پہلے یوم آزادی پر پاکستانی جھنڈے کو سلامی دینے سے انکار کردیا تھا۔ گورنر سرحد کنگھم کی فائل کی کاپی میرے پاس موجود ہے۔ پندرہ اگست 1947کے دن بھی بہانہ خطرہ تھا اور اس سال بھی خطرے کو ہی بہانہ بنایا گیا۔ خدارا قوم کو تقسیم کرکے کمزورنہ کرو، ابہام نہ پھیلاؤ، یہ تمہارا ملک ہے اور اس ملک نے تمہیں وہ کچھ دیا ہے جو متحدہ ہندوستان میں تمہیں ہرگز نہ ملتا۔تحریک پاکستان کے بارے میں ابہام پیدا کرکے قوم کو اپنی نظریاتی شناخت کے حوالے سے انتشار میں مبتلا کرنا قوم کو اندرونی طور پر تقسیم کرنے اور منتشر کرنے کے مترادف ہے کیا تم ایسا جان بوکھ کررہے ہو؟؟اگر یہ نیت کا فتور ہے تو پھر تحریک پاکستان، نظریہ پاکستان قائد اعظم اور اسلام کے حوالے سے ابہام پیدا کرنے والے اور قوم کی صفوں میں انتشار کو ہوا دینے والے قومی مجرم ہیں قومی مجرم…؟
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment