Friday 18 May 2012

ابہام اور انتشار پھیلانے والے August 17, 2011

تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جب قومیں مایوسی کا شکار ہوں تو وہ اپنی شناخت کے بارے میں بھی ابہام کاشکار ہوجاتی ہیں اور پھر باطنی حوالے سے تقسیم ہو کر باہمی کشمکش میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔نظریاتی شناخت قوموں کو متحد رکھی اور مضبوط بناتی ہے اور جب نظریاتی شناخت ابہام یا کنفیوژن کا شکار ہوجائے تو پھر قوم کو اندرونی طور پر تقسیم ہونے، دھڑوں اور گروہوں کی شکل اختیار کرکے باہم دست و گریبان ہونے سے روکا نہیں جاسکتا۔ مولانا شبیر عثمانی نہایت زاہد و عابد انسان تھے۔ ایسے لوگوں کی ڈکشنری میں غلط بیانی یا بے جا تعریف کے الفاظ نہیں ہوتے کیونکہ جھوٹ نیکیوں کو اسی طرح کھا جاتا ہے جس طرح دیمک لکڑی کو چاٹ جاتی ہے۔ قائد اعظم کی وفات پر مولانا شبیر احمد عثمانی نے سمندر کو کوزے میں بند کرتے ہوئے کہا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح اورنگ زیب کے بعد مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈر تھے۔ ظاہر ہے کہ کچھ اسلام بیزار لوگوں کواورنگ زیب ناپسند ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اس درویش کے دور میں مسلمانوں کو ہندوستان میں حکومت نہایت وسیع و عریض اور مستحکم تھی۔ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد اس سلطنت کا وہی حشر ہواجو عام طور پر نالائق اولاد کے ہاتھوں بادشاہتوں کا ہوتا ہے۔ اورنگ زیب کا انتقال1707 میں ہوا اور قائد اعظم 11 ستمبر 1948 کے دن اللہ کو پیارے ہوئے۔ درمیان میں دو صدیوں تک مسلمان قوم بے قائد رہی یعنی اسے کوئی اہل اور بصیرت والا قائد میسر نہ آسکا۔ اورنگ زیب نے ہندوستان میں مسلمانوں کا اقتداروسیع اور مستحکم کیا اور قائد اعظم نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھال کر ہندوستان کے مسلمانوں کو نظریاتی شناخت کی لڑی میں پرو کر ایک مضبوط قوم بنایا۔ اس نظریاتی اتحاد کا شعور پیدا کرنے میں علامہ اقبال نے تاریخی کردار سرانجام دیا۔ آغاز میں قائد اعظم بھی مسلمانوں کو اقلیت کہتے تھے لیکن جب وہ1933میں کچھ عرصہ انگلستان میں گزارنے کے بعد ہندوستان لوٹے تو انہوں نے مسلمانوں کو سمجھانا شروع کیا اور ان کے قلب و ذہن میں دلائل کے ساتھ یہ تصور اجاگر کرنا شروع کیا کہ وہ ایک قوم ہیں اور دنیا کی ہر تشریح یا تعریف کے مطابق ایک قوم ہیں، چنانچہ انہوں نے اندرونی طور پر منقسم مسلمانوں کو ایک متحد قوم بنادیا اور اسی بنیاد پر اس قوم کے لئے ایک آزاد وطن حاصل کرلیا، اگر آپ اس پس منظر میں تین چار صدیوں کی تاریخ پڑھیں اور قائد اعظم کے اس کارنامے پر غور کریں کہ انہوں نے کس طرح ایک مایوس، باطنی طور پر تقسیم اورانتشار کی شکار قوم کو اس قدر طاقتور قوم بنادیا کہ وہ انگریزوں اور ہندوؤں کو شکست دینے کے بعد ہندوستان کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہوگئی تو پھر آپ کو مولانا شبیر عثمانی کے الفاظ اور ان کا قلبی درد سمجھ میں آئے گا۔ قائد اعظم کے انتقال کے چند برس بعد قوم اس جذبے سے محروم ہوگئی جو قیادت اور نظریے کی دین ہوتا ہے اور پھر قوم بے قائد ہو کر دوبارہ دھڑوں گروہوں اور صوبوں میں تقسیم ہوگئی۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اب اس ذہنی انتشار نے قوم کو اپنی نظریاتی شناخت کے حوالے سے بھی ابہام کا شکار کردیا ہے جو ایک خطرناک مرض ہے۔ اس ابہام کے پیدا کرنے میں ہمارے مذہب بیزار ،لادین اور ضرروت سے زیادہ روشن خیال دانشوروں کا بھی حصہ ہے، قومیت پرست عناصر کا بھی حصہ ہے،صوبائیت کے ترجمانوں اور لسانی گروہوں کے علمبرداروں کا بھی حصہ ہے اور اب ماشاء اللہ کچھ سیاستدان بھی اپنی کم فہمی کے سبب اس میدان میں کود پڑے ہیں۔ مجھے سیاستدانوں کی نیت پر شبہ نہیں بلکہ مجھے ان کی تحریک پاکستان کے حوالے سے کم علمی سے گلہ ہے۔ دولت اور خوشامدیوں اور مفاد پرست عناصر کی ریل پیل میں ہمارے سیاستدانوں کو کبھی تحریک پاکستان کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی اور پھر وہ ایسے دانشوروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جن کے اپنے ایجنڈے اور مقاصد ہیں۔ قائد اعظم نظریہ پاکستان ،تصور پاکستان اور تحریک پاکستان کے محرکات کے بارے میں ابہام اور انتشار وہ عناصر پھیلا رہے ہیں جو قوم کو اپنی نظریاتی شناخت، تاریخی بنیاد اور پہچان سے محروم کرنا چاہتے ہیں اور یہی محرومی قوم کو باطنی اتحاد اور ایک قوم کے تصور سے محروم کرتی ہے اور قوم کو لسانی، علاقائی اور صوبائی گروہوں میں تقسیم کرتی ہے۔
البیرونی صدیوں پہلے ہندوستان آیا تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کی ثقافت لباس وغیرہ میں اس قدر فرق ہے کہ میلوں کے فاصلے سے مسلمان اور ہندو پہچانے جاتے ہیں۔گاندھی واویلا کیا کرتا تھا کہ ہندو گائے کی پرستش کرتے ہیں جبکہ مسلمان گائے کو ذبح کرکے اس کا گوشت کھاتے ہیں۔ ہندو پانچ سو سے زیادہ خداؤں کی پرستش کرتے ہیں اور ان کے انہی دیوتاؤں کے بتوں کو محمود غزنوی نے پاش پاش کیا تھا جس کی سزا آج تک ہندو مورخین اور کچھ پاکستانی مورخین محمود غزنوی کو دے رہے ہیں۔ قائد اعظم نے ہزار بار کہا کہ مسلمان اور ہندو الگ الگ قومیں ہیں ، ان کا مذہب ،تاریخ، ثقافت، رہن سہن، رسم و رواج، ہیرو حتیٰ کہ ہر پیشہ الگ الگ ہے۔ موقع ملے تو قرار داد پاکستان 23مارچ1940 کے دن قائد اعظم کی تقریر پڑھ لیجئے ۔ عجیب بات ہے جس حقیقت کا قائد اعظم نے ادراک کرلیا تھا وہ میرے محترم میاں نواز شریف کو سمجھ میں کیوں نہیں آئی اور انہوں نے سیفما کے14اگست کے فنکشن میں یہ کیسے کہہ دیا کہ”پاکستان اور بھارت کی ثقافت ایک جیسی ہے اس میں صرف سرحد آگئی ہے“۔ ویسے اگر یہ سرحد نہ آئی ہوتی تو کیا میاں صاحب دوبارہ وزیر اعظم بن کر تیسری بار وزارت عظمی کا خواب دیکھ رہے ہوتے۔ ہم یقیناہندوستان سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں اور اسی میں اس خطے کی خوشحالی کا راز مضمر ہے لیکن تاریخ کھنگال کر دیکھئے کہ ہندوستان کا پاکستان کے ساتھ کیا رویہ رہا ہے اور کیا رویہ آج ہے۔ میں میاں صاحب کی عزت کرتا ہوں اور وہ مجھے عزیز ہیں لیکن کیا کروں کہ قائد اعظم تحریک آزادی اور پاکستان مجھے” عزیز ترین“ ہے۔ خدارا ہندوستان دوستی کی لہر میں بہہ کر پاکستان کی شناخت کو ابہام کا نشانہ نہ بنائیں اور نہ ا یسی باتیں کریں کہ جس رب کو بھارتی پوجتے ہیں ہم بھی اسی رب کو پوجتے ہیں۔ اس حوالے سے پرویز رشید کی وضاحت عذربدتر ہے اور میاں صاحب پر لازم ہے کہ وہ قائداعظم کی تقاریر اور تحریک پاکستان پر مستند کتابیں پڑھیں اور دین بیزار، سیکولر اور الٹرا لبرل عناصرکے ہاتھوں میں کھیل کر اپنی نظریاتی و سیاسی بنیاد پر ہتھوڑے نہ ماریں۔میرے مہربان دوستوں اور خیبر پختوانخواہ کے حکمرانوں نے ایک بار پھر ایسی حرکت کی ہے کہ پندرہ اگست 1947کی یادیوں کو تازہ کردیا ہے۔ اے این پی حکومت نے اپنے صوبے میں یوم آزادی پندرہ اگست کو منانے کا اعلان کرکے ایک بار پھر قوم کو تقسیم کردیا۔ اس حوالے سے مجھے بے شمار فون آئے۔پاکستان14اورپندرہ اگست کی نصف شب معرض وجود میں آیا تھا اس لئے اس کا پہلا یوم آزادی پندرہ اگست ستائیسویں رمضان کو منایا گیا۔ اس کے بعد 1948میں حکومت پاکستان نے گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی منظوری سے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان ہر سال چودہ اگست کو یوم آزادی منا ئے گا ، اتنے طویل عرصے کے بعد اس سال اے این پی کی حکومت نے اپنے صوبہ میں پندرہ اگست کو یوم آزادی منا کر پندرہ اگست 1947کی یادیں تازہ کردیں، جس دن صوبہ سرحد کی ڈاکٹر خان صاحب کی کابینہ نے پہلے یوم آزادی پر پاکستانی جھنڈے کو سلامی دینے سے انکار کردیا تھا۔ گورنر سرحد کنگھم کی فائل کی کاپی میرے پاس موجود ہے۔ پندرہ اگست 1947کے دن بھی بہانہ خطرہ تھا اور اس سال بھی خطرے کو ہی بہانہ بنایا گیا۔ خدارا قوم کو تقسیم کرکے کمزورنہ کرو، ابہام نہ پھیلاؤ، یہ تمہارا ملک ہے اور اس ملک نے تمہیں وہ کچھ دیا ہے جو متحدہ ہندوستان میں تمہیں ہرگز نہ ملتا۔تحریک پاکستان کے بارے میں ابہام پیدا کرکے قوم کو اپنی نظریاتی شناخت کے حوالے سے انتشار میں مبتلا کرنا قوم کو اندرونی طور پر تقسیم کرنے اور منتشر کرنے کے مترادف ہے کیا تم ایسا جان بوکھ کررہے ہو؟؟اگر یہ نیت کا فتور ہے تو پھر تحریک پاکستان، نظریہ پاکستان قائد اعظم اور اسلام کے حوالے سے ابہام پیدا کرنے والے اور قوم کی صفوں میں انتشار کو ہوا دینے والے قومی مجرم ہیں قومی مجرم…؟

No comments:

Post a Comment