Friday 18 May 2012

چودہ اگست ۔ تب اور اب ؟ August 16, 2011

فروری 1947ء میں برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر اٹیلی نے برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز میں اعلان کیا کہ جون 1948ء تک ہندوستان کو آزادی دے دی جائے گی۔ اسی تقریر میں وزیر اعظم نے یہ راز بھی فاش کیا کہ شاہی خاندان کے چشم و چراغ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کا آخری وائسرائے مقرر کیا گیا ہے۔ حکومت برطانیہ کا منشا تھا کہ ہندوستان کو 1948ء میں آزادی کا پروانہ دیا جائے لیکن منشاء الٰہی تھا کہ ہندوستان جلد تقسیم ہو اور پاکستان معرض وجود میں آئے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن مارچ 1947ء میں ہندوستان پہنچا اور آتے ہی ہندوستانی راہنماؤں سے ملاقاتوں میں مصروف ہو گیا۔ فریڈم ایٹ مڈنائٹ کے مصنف کے بقول لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان آتے وقت جو چارٹر دیا گیا تھا اس کی پہلی شق ہی یہی تھی کہ ہندوستان کو ہر صورت متحد رکھا جائے گا۔ ماؤنٹ بیٹن قائد اعظم سے ملنے کے بعد اپنے اس چارٹر یا سرکاری حکم نامے کے بارے میں سوچ میں مبتلا ہو گیا۔ پھر ماؤنٹ بیٹن نے ملک کے مختلف حصوں کے دورے کئے جن میں پشاور کے دورے اور پنڈی کے قریب ایک گاؤں کے دورے کے بعد ماؤنٹ بیٹن محسوس کرنے لگا کہ ہندوستان کو متحد رکھنا ممکن نہیں۔ فریڈم ایٹ مڈنائٹ کے مصنف کا کہنا ہے کہ وہ گاؤں فرقہ وارانہ فسادات میں تباہ ہو گیا تھا اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن مسمار شدہ گھروں کی اینٹوں اور ملبے پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ پاکستان کا مطالبہ بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا ورنہ سارا ملک فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جل کر راکھ ہو جائے گا۔ بہت سے مصنّفین نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ بٹوارے کے فسادات اور جانی و مالی نقصان اس نقصان کا عشر عشیر بھی نہیں جو پاکستان سے انکار کی صورت میں ہوتا۔ گزشتہ دنوں میں محمد عمر خان کی کتاب ”دو قومی نظریہ “ دیکھ رہا تھا۔ محمد عمر خان کا تعلق ہندوستان کے ضلع پیلی بھیت سے ہے اور وہ علی گڑھ یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری لینے کے بعد وہاں پریکٹس کرتے تھے۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے رکن تھے اور دس پندرہ برس تک پیلی بھیت مسلم لیگ کے صدر رہے۔ انہوں نے اپنے گہرے تجربے اور مشاہدے کے بعد اس کتاب میں لکھا ہے کہ ”مسلمانوں کی بقا اور ان کے مذہب، تہذیب تمدن کے تحفظ کے لئے پاکستان کا قائم کیا جانا از بس ضروری تھا۔ جو لوگ قائد اعظم اور مسلم لیگ پر کشت و خون کی ذمہ داری ڈالتے ہیں وہ احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں اس لئے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو اس سے بھی زیادہ کشت و خون ہوتا اور مسلمان اکثریت والے صوبے بھی محفوظ نہ رہ سکتے“۔ (ص 116) 
چنانچہ ہندوستان کی سیاسی صورتحال کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد ماؤنٹ بیٹن اس نتیجے پر پہنچا کہ پاکستان کے قیام کا مطالبہ ماننے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں اور دوم یہ کہ آزادی کو موٴخر کرنا آگ اور خون کو دعوت دینا ہے۔ اس نے برطانوی حکومت کو قائل کیا اور پھر اعلان کر دیا گیا کہ ہندوستان کو چودہ پندرہ اگست کی نصف شب آزادی دے دی جائے گی اور اسی لمحے پاکستان معرض وجود میں آ جائے گا۔ انگریزوں کو ہرگز علم نہیں تھا کہ وہ جس مہینے میں غلامی کی زنجیریں توڑ رہے ہیں وہ مسلمانوں کے لئے کس قدر مبارک مہینہ ہے۔ اندازہ کیجئے کہ قدرت کو کیا منظور تھا کہ پتا بھی نہیں ہلتا بغیر اس کی رضا کے۔ 14 اور 15 اگست 1947ء کی شب جب 12 بجکر ایک منٹ پر آل انڈیا ریڈیو سے یہ اعلان ہوا کہ یہ ریڈیو پاکستان ہے تو وہ لیلة القدر اور ستائیسویں رمضان تھی۔ گویا رمضان اور پاکستان کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور بقول ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم ستائیسویں رمضان کی شب قیام پاکستان قدرت کا انعام تھا اور اگر انعام کی قدر نہ کی جائے تو اس کی سزا بھی ملتی ہے۔ 
اس سال چودہ اگست رمضان کے مبارک، برکتوں اور فضیلتوں والے مہینے میں آیا تو بے پناہ یادیں تازہ ہو گئیں۔ ظاہر ہے کہ یہ یادیں میرے مشاہدات نہیں بلکہ ان یادوں کا تعلق ان کتابوں سے ہے جو اس موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ ”یہ ریڈیو پاکستان ہے “ کے الفاظ سننے کے لئے مسلمانان ہند نے صدیوں کا سفر طے کیا تھا اور صدیوں تک انتظار کیا تھا اس لئے ان الفاظ کے نشر ہوتے ہی مسلمان خوشی سے دیوانے ہو گئے، ہر طرف آتش بازیاں فضا میں رنگ بکھیرنے لگیں اور اللہ اکبر کے نعروں نے فلک کی بلندیوں کو چھو لیا۔ ایک جوش تھا، ایک جذبہ تھا جس کے بہتے دریا میں مسلمان بہہ رہے تھے اور پاکستان کو ایک عظیم مملکت بنانے کا عہد کر رہے تھے۔ مسلم لیگی قیادت اور نوزائیدہ مملکت کے شہریوں کا جذبہ، ایثار اور بصیرت ہی تھی جس نے چند برسوں میں پاکستان کو ایک مستحکم ریاست بنا دیا اور دوسرے ہی برس پاکستان کا بجٹ سرپلس بجٹ بنا۔ کانگریس کو یقین تھا کہ پاکستان قائم نہیں رہ سکے گا لیکن پھر وہ منزل آئی کہ ہندوستان نے اپنی کرنسی ڈی ویلیو کی تو پاکستان پر بے پناہ دباؤ ڈالا کہ وہ بھی اپنی کرنسی ڈی ویلیو کرے لیکن پاکستان کی مستحکم معیشت نے اس کی اجازت نہ دی۔ آج چونسٹھ برس بعد اپنے اردگرد دیکھتا ہوں تو ہر طرف مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، لوگ دل گرفتہ ہیں، ملک کرپشن اور قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور اس پاکستان کا جذبہ کہیں نظر نہیں آتا جو ستائیسویں رمضان 1947ء کو معرض وجود میں آیا تھا۔ میرے نزدیک یہ صورتحال کئی اور عوامل کے علاوہ ہماری مجموعی سیاسی قیادت کی دین ہے اور قیادت کی نالائقی اور بے بصیرتی کا اعجاز ہے ۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم بحیثیت قوم تبدیلی کے دھانے پر کھڑے ہیں، ہر پاکستانی تبدیلی کی آواز کو سینے سے لگائے نئی صبح کے انتظار میں ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے لمحات اور ایام قوموں کی زندگی میں نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور وہ ہمیشہ کسی بڑی تبدیلی کا پیشہ خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسی مایوسی کے اندھیروں سے نئی روشن صبح پھوٹے گی اور یہی لوگ نئے پاکستان کی تعمیر کریں گے۔ غور کیجئے تو احساس ہو گا کہ یہ نظام، یہ حکمران یہ سب کچھ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے۔ قوم نے اپنے اعمال کی خاصی سزا بھگت لی اب انشاء اللہ یہی سزا بہتر جزا کو جنم دے گی۔ 
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قیام پاکستان کے لئے ہندوستان کے مسلمان اقلیتی صوبوں نے بے پناہ قربانیاں دیں جن کا قائد اعظم نے بار بار اعتراف کیا اور انہیں خراج تحسین ادا کیا۔ محمد عمر خان ٹھیک لکھتے ہیں کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو ہندو مسلمان اکثریتی صوبوں پر بھی چھا جاتا۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر ”ہم اپنی قوم کے تیس (30) فیصد حصہ کی قربانی دے کر باقی ستر فیصد حصے کو بچا لیں تو یہ بدرجہا بہتر ہے کہ پوری قوم تباہ و برباد ہو جائے لہٰذا یہ گھاٹے کا سودا نہیں تھا“۔ دکھ اس وقت ہوتا ہے کہ جب اقلیتی مسلمان صوبوں سے ہجرت کرنے والوں کی قربانیوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے یا جب یہی ایثار کرنے والے لوگ ہجرت پر پچھتاتے ہیں۔ نہ جانے لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ قوم کی صفوں میں منافرت پھیلانے والے ملک و قوم کے دشمن ہیں اور وہ پاکستان کو باطنی طور پر کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے عمر خان کا یہ مشاہدہ بھی چشم کشا لگا کہ جب ”آزادی کے بعد بھارت کے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جانے لگے، ان کا قتل عام ہوا، کلکتہ، بہار، یو پی ، سی پی، ویرہ، دون، میوات، احمد آباد ، بمبئی، حیدر آباد اور دیگر علاقوں میں مسلم خون کی ارزنی ہونے لگی، جب شیر خوار بچوں ، بوڑھوں، عورتوں تک کو بخشا نہ گیا اور مسلمانوں کی ماؤں بیٹیوں کی عصمت دری اور مسجدوں کی بے حرمتی عام ہو گئی اور قرآن پاک کو نذر آتش کیا جانے لگا اور مسجدوں میں بت رکھ دیئے گئے تو اس وقت کانگرسی علماء کی جماعت جمعیت العلماء ہند کی رگ حمیت پھڑکی اور انہوں نے اپنی سابقہ خدمات کا حوالہ دے کر حکومتی توجہ چاہی۔ اس پر ہندو اخبارات نے شور مچانا شروع کر دیا کہ جمعیت العلماء ہند بھی مسلم لیگی ہو گئی ہے بلکہ مسلم لیگیوں سے بدتر ہے۔ پھر حکومت کے ایماء پر پولیس اور خفیہ نے اس جماعت کے افراد کی فہرستیں تیا ر کرنا شروع کر دیں۔ عمر خان لکھتے ہیں کہ راشٹریہ سیوک سنگھ (R.S.S) ہندی، ہندو اور ہندوستان کا نعرہ لگاتی ہے جس کا مطلب ہے ایک زبان، ایک قوم اور ہندوستان پر ہندوؤں کی ہندو دھرم کے مطابق حکومت۔ ہندو سے ان کی مراد ہے کہ پورے بھارت میں صرف ہندو رہیں دوسری مذہبی اقلیتوں کو جداگانہ وجود کی اجازت نہ دی جائے۔ موضوع طویل ہے تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیں۔ 

No comments:

Post a Comment