Friday, 18 May 2012

کراچی جلتا ہے تو میرا دل جلتا ہے August 09, 2011

سچی بات یہ ہے کہ کراچی جلتا ہے تو میرا دل جلتا ہے اور جب کراچی میں خون بہتا ہے تو میں باطن سے لہولہان ہو جاتا ہوں۔ کراچی کے مسئلے پر ہر کوئی اپنے اپنے نقطہ نظر سے تبصرہ کر رہا ہے جبکہ میں اسے قومی امراض کی علامت سمجھتا ہوں۔ وارداتیں اور قتل امریکہ جیسی طاقتور قوت کے شہرت یافتہ شہروں جن میں نیو یارک، لاس اینجلس حتیٰ کہ واشنگٹن بھی شامل ہیں میں بھی ہوتے ہیں لیکن ان کی نوعیت بالکل مختلف ہوتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ شاہد ہے کہ جب قومیں کسی نظریئے یا مشترک قدر سے وابستہ نہ رہیں تو ان پر لسانی، علاقائی اور فرقہ وارانہ قوتیں حکمرانی کرنے لگتی ہیں۔ یورپی ممالک کے استحکام اور قومی اتحاد کا راز جمہوریت اور کسی حد تک خوشحالی میں پنہاں ہے جبکہ امریکہ کی پچاس ریاستوں کو جمہوریت اور خوشحالی اور قومی تفاخر نے اتحاد کے رشتوں میں باندھ رکھا ہے۔ اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکی مالی مفادات پر زد پڑتے ہی امریکہ اندرونی طور پر کمزور ہونے لگا ہے اور بعض ماہرین امریکہ کے ٹوٹنے کی پشین گوئیاں کرنے لگے ہیں۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ خوشحالی قوموں کے اتحاد میں اہم کردار سرانجام دیتی ہے جب کسی نظریئے پر ناقابل برداشت حد تک بوجھ ڈال دیا جائے تو وہ روس کی مانند ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ ہر کمال کو زوال فطرت کا اصول ہے۔ لوگ روس کے کمال کا زوال دیکھ چکے اور امریکہ کے کمال کا زوال دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو باطنی طور پر یا تو کوئی سیاسی نظریہ اور مذہبی قوت متحد رکھ سکتی ہے اور یا پھر اتنی خوشحالی کہ قوم کے کسی طبقے اور علاقے کو احساس محرومی کا سامنا نہ ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کوئی ایسا سیاسی نظام پنپ نہیں سکا جو ساری قوم کو اپنے قومی رشتے میں منسلک کر دیتا اور علاقائی تحریکوں کو قومی دھارے میں جذب کر لیتا اور نہ ہی مذہب اتنی طاقتور قوت بن سکا کہ وہ قومی اتحاد کی ضمانت دیتا۔ قومی اتحاد کے جذبے کو کمزور کرنے میں نہ صرف علاقائی، لسانی اور قومیت پرست تحریکوں نے اپنا اپنا رول سرانجام دیا بلکہ بے انصافی، غربت اور آمرانہ قوتوں نے بھی قومی اتحاد کے تصور کو پارہ پارہ کیا۔ آج کراچی میں قتل و غارت کے پس پردہ جہاں علاقائی، لسانی اور قومیت پرست قوتیں نفرت کی آگ بھڑکا رہی ہیں وہاں مختلف جرائم پیشہ مافیاز، گینگ، اور مفاد پرست گروہ بھی گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں جن کے مقاصد سیاسی سے لے کر مالی منعفت تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کچھ گروہ اپنے علاقے میں اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہتے ہیں تو کچھ گروہوں کے پیش نظر قیمتی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کرنا ہے۔ 12 مئی کے قتل عام نے تو ایک واضح تصویر پیش کر دی تھی اور قاتلوں کے ہاتھوں کو بھی بے نقاب کر دیا تھا جنہیں قوم دن بھر ٹیلی ویژن سکرینوں پر دیکھتی رہی لیکن جب اس طرح کے کھلے عام قتل و غارت اور لاقانونیت کا احتساب نہ کیا گیا اور نہ ذمہ دار عناصر کو سزا دی گئی تو لامحالہ طور پر اس سے لاقانونیت کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جب تک قتل و غارت کے ذمہ دار عناصر کو قانون کے مطابق سزائیں نہیں دی جاتیں، جرائم پیشہ عناصر اور منظم گروہ یونہی قانون کو پامال کرتے رہیں گے اور حکومت کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے رہیں گے۔ کراچی شہر بہت زیادہ پھیل چکا ہے اور یہ شہر اپنے دامن میں ہر قسم کے عناصر کو پناہ دیئے ہوئے ہے اس لئے کراچی شہر کے وجود میں انارکی کے جراثیم موجود ہیں جن پر قابو پانے کیلئے مضبوط حکومتی ارادہ(POLITICAL WILL) منظم اور طاقتور انتظامیہ اور سیاسی قوتوں کا اشتراک ضروری ہے۔ بنیادی وجہ مت بھولیں۔ بنیادی وجہ ملک و قوم میں قومی اتحاد اور یکجہتی کی قوتوں کی کمزوری ہے۔ ہندوستان کو جمہوریت نے متحد رکھا ہوا ہے تو بہت سی موروثی مملکتیں مذہب اور خوشحالی کے رشتے میں بندھی ہوئی ہیں۔ ہمارے ہاں قومی اتحاد و یکجہتی کی قوتوں کی کمزوری کے سبب علاقائی، لسانی اور قومیت پرست عناصر مضبوط ہو رہے ہیں۔ پاکستان بنا تو مذہب قومی اتحاد کی بہت بڑی بنیاد اور طاقت تھی لیکن معاشی و سیاسی بے انصافی، فرقہ واریت، مذہبی قوتوں کا باہمی تصادم اور کئی دیگر عوامل نے مل کر اس بنیاد کو کمزور کر دیا۔ گزشتہ تین سال سے ملک میں جمہوریت آئی ہے تو وہ نا اہل قیادت کے سبب نہ ان مسائل کو حل کر سکی ہے اور نہ ہی قومی اتحاد کی دشمن قوتوں کو قومی دھارے میں لا سکی ہے۔ بدقسمتی سے اس قیادت میں ان گھمبیر مسائل کو حل کرنے کا شعور ہی موجود نہیں۔ وہ اب تک سیاسی گٹھ جوڑ اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں سے اقتدار کو طول دیتی رہی ہے اور عارضی سیاسی سمجھوتوں سے کام چلاتی رہی ہے جس سے لسانی اور علاقائی قوتیں اور مافیاز اور جرائم پیشہ عناصر مضبوط ہوتے رہے ہیں۔ آج ہم اسی صورتحال کی فصل کاٹ رہے ہیں۔ جب حکومت کی رٹ پسپائی پر آمادہ ہو تو اسے بحال کرنے کے لئے سخت انتظامی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ میرے نزدیک جہاں کراچی میں بہتا ہوا خون حکومت کی سیاسی کمزوری کو عیاں کرتا ہے وہاں انتظامی مشینری کی ناکامی کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ میں نے حکومتی سروس کے دوران لاقانونیت کے مظاہرے دیکھے ہیں لیکن اتنے طویل اور تواتر سے کبھی نہیں دیکھے۔ جب بھی قتل و غارت، متحارب گروہوں کی باہمی لڑائی یا جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں کے سبب قانون کی گرفت ختم ہونے لگتی ہے تو حکومت اپنی رٹ بحال کرنے کے لئے حکمت عملی بناتی ہے۔ ایک طرف ان مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنے اور مختلف سیاسی گروہوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں جاری رہتی ہیں تو دوسری طرف سخت انتظامی حکمت عملی کے ذریعے صورتحال پر فوراً قابو پانے کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ میں جب کراچی کے حالات دیکھتا ہوں تو یوں احساس ہوتا ہے جیسے کراچی کا کوئی ”والی وارث“ ہی نہیں اور صوبائی حکومت نے کراچی کو تخریبی اور مجرم قوتوں کے حوالے کر رکھا ہے۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ آگ کو پھیلنے سے پہلے اس پر قابو پانا کامیاب انتظامی حکمت عملی ہوتی ہے لیکن مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے کراچی میں کوئی انتظامیہ ہے ہی نہیں۔ 
بلاشبہ موجودہ افراتفری اور لاقانونیت کو پھیلانے میں شہری نظام نے بھی اپنا رول ادا کیا ہے۔ سندھ حکومت ابھی کمشنری نظام بحال کر کے انتظامی یونٹ فعال کرنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ ایک بار پھر کراچی حیدر آباد میں کمشنری نظام کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا ہے۔ سیاسی تقاضوں کے تابع انتظامی حکمت عملی تقریباً ختم ہو چکی ہے اور اس خلاء کا فائدہ جرائم پیشہ گروہوں اور قتل و غارت کرنے والوں کو پہنچ رہا ہے۔ اسی لئے میں محسوس کرتا ہوں کہ کراچی کا مسئلہ نہ صرف سیاسی لیڈروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ انتظامیہ کی ناکامی کا شاہکار بھی ہے۔ پہلے قدم پر تمام خفیہ ایجنسیوں کو فعال کر کے خطرناک عناصر اور ان کے نیٹ ورک کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنی چاہئیں اور جب ساری بنیادی انفارمیشن مل جائے تو ان سب پر سختی سے ہاتھ ڈال کر انہیں قانون کے حوالے کرنا ضروری ہے۔ اس طرح کے اقدامات مقامی مفادات اور سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر کئے جائیں تو صحیح نتائج نکلتے ہیں ورنہ لاقانونیت مزید بڑھتی ہے۔ سیاسی دباؤ سے بالاتر ہو کر انتظامی اقدامات صرف مضبوط انتظامی مشینری ہی کر سکتی ہے یہ سیاسی شخصیات کے بس کا روگ نہیں ہوتا جو اپنے کارکنوں کو پناہ دیتی ہیں اور مخالفوں کو کچلنے کی کوششیں کرتی ہیں۔ مختصر یہ کہ کراچی میں لاقانونیت کا رستا ہوا زخم نہ صرف سیاسی قیادت کے دیوالیہ پن کا نوحہ ہے بلکہ انتظامی مشینری کی ناکامی کا المیہ بھی ہے۔ اس مسئلے کو سیاسی اور انتظامی دونوں حکمت عملیوں کو بروئے کار لا کر حل کیا جا سکتا ہے۔ صدر، وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے دورے اور سیاستدانوں کی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے اثرات محض وقتی اور عارضی ہوں گے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ کراچی کا مسئلہ پائیدار حل چاہتا ہے اور عارضی قدامات سے لاقانونیت کا بھوت قابو میں نہیں آئے گا۔ 

No comments:

Post a Comment