مجھے آغاز ہی میں ایک بات کہنے دیجئے کہ میں نہ کپتان کا کالم نگار ہوں، نہ میں کبھی عمران خان سے ملا ہوں اور نہ ہی میرا کسی سیاسی جماعت یا گروہ سے تعلق ہے۔ میں اپنے ضمیر کا کالم نگارہوں، جوسچ سمجھتا ہوں وہ ببانگ دہل لکھتا ہوں ضمیر کا کالم نگار ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ سارے حکمران ، سیاستدان اور سیاسی جماعتوں کے ”زندہ بادیئے“ ناراض رہتے ہیں اور وقتاً فوقتاً پتھر بھی مارتے ہیں۔ضمیر کا کالم نگار اندازے یا Judgement کی غلطی توکرسکتا ہے لیکن بدنیتی کا مرتکب کبھی نہیں ہوتا ۔اور یہی وہ احساس یا پندار ہے جس سے حقیقی اطمینان اور قلبی مسرت کے سوتے پھوٹتے ہیں یوں تو یہ کل کی بات لگتی ہے لیکن میری پیدائش سے طویل عرصہ قبل کا واقعہ ہے کہ مسلم لیگ نے قائداعظم کی سربراہی میں 1937ء کے انتخابات میں حصہ لیا اور اپنی تمام تر محنت، جدوجہد اور بااثرزمینداروں کے باوجود بری طرح شکست کھا گئی۔ کتابیں بتاتی ہیں کہ مسلم لیگ بمشکل مسلمان ووٹوں کا ساڑھے تین فیصد حاصل کرسکی۔ ان انتخابات کے بعد کانگریس نے فتح کے نشے میں بدمست ہو کر چھ صوبوں میں حکومتیں بنائیں۔ کانگریس کے ڈیڑھ سالہ دورِ حکومت نے مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار سرانجام دیا۔ مسلم لیگ نے 1940ء میں قرارداد (لاہور) پاکستان منظور کرکے اپنی منزل متعین اور واضح کردی تو مسلمانان ہندوستان کو مسلم لیگ میں کشش محسوس ہونے لگی۔اگر آپ 1944-45ء کے ہندوستانی اخبارات کامطالعہ کریں تو پتہ چلتاہے کہ دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت یہ تاثر دے رہی تھی کہ مسلم لیگ اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی کیونکہ مسلم لیگ کے پاس بااثر امیدواروں کی کمی ہے اور قائداعظم محمد علی جناح گاندھی کی مانند عوامی لیڈر نہیں، وہ عوام میں پوری طرح گھلتے ملتے نہیں۔ آج کئی تجزیہ نگاروں کو یہی اعتراض عمران خان کے حوالے سے ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ عمران کے پاس عوامی کرشماتی شخصیت نہیں، کسی کا خیال ہے کہ تحریک ِ انصاف کے پاس جیتنے والے امیدوار نہیں اور کسی کا فتویٰ ہے کہ دیہاتی علاقوں میں رہنے والے محروم طبقے آج بھی زمینداروں کی گرفت میں بند ہیں اور وہ عمران خان کو ووٹ نہیں دیں گے۔ چنانچہ جب 1945-46ء کے انتخابات کا موسم قریب آیا اور مسلم لیگ نے بھرپور تحریک چلائی اور پاکستان کا نعرہ لگایا تو مسلم ہندوستان میں جذباتی فضا پیدا ہونے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے نوجوان تعلیمی اداروں سے نکل کر ملک کے گوشے گوشے میں پھیل گئے اور پاکستان کے پیغام کی وضاحت میں ہمہ تن گوش مصروف ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان میں مسلم لیگ کے حق میں ایک لہر چلی جس نے تقریباً ہر مسلمان کے دل میں پاکستان کی شمع روشن کردی۔ اس لہر کے اثرات اورہوا کے دباؤ کو محسوس کرتے ہوئے بڑے بڑے زمیندار اور بااثر گھرانے دھڑا دھڑ مسلم لیگ میں شامل ہونے لگے۔ 1945-46ء کے انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ ہندوستان کے کل مسلمان ووٹروں کا 75فیصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور مرکزی اسمبلی میں ساری نشستیں جیت کر تجزیہ نگاروں کو حیرت زدہ کر دیا۔
چلئے یہ تو پرانی بات ہے اور یوں بھی قائداعظم اور مسلم لیگ کا کسی دوسری جماعت سے موازنہ کرنا مناسب نہیں لیکن 1970ء کے انتخابات تو ہم نے نہ صرف دیکھے ہیں بلکہ بھگتے بھی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے طویل رفاقت کے بعد جب فیلڈ مارشل ایوب خان سے راستے جدا کئے تو عوام نے انہیں خوش آمدیدکہا کیونکہ وہ ایوبی آمریت سے نجات حاصل کرناچاہتے تھے۔ جس طرح آج کل عوام موجودہ سیاسی نظام سے تنگ آ کر کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں۔ بھٹو صاحب نے پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی تو ان کے ساتھی کون تھے؟ ڈاکٹر مبشرحسن، محمود علی قصوری، خورشید حسین میر، جے اے رحیم، مصطفی کھر، معراج خالد اور چند مزید حضرات جن کے نام بھی ہم بھول چکے ہیں۔ اخبارات کا تبصرہ دلچسپ تھا۔ تجزیہ نگاروں نے لکھا کہ بھٹو صاحب کے ساتھیوں کی بہت بڑی اکثریت یونین کونسل کا الیکشن بھی لڑے تو ضمانت ضبط کروالے گی۔ بھٹو صاحب نے موثر انداز سے انتخابی مہم چلائی اور وہ لہر پیدا کی جو انتخابات میں فیصلہ کن رول سرانجام دیتی ہے۔ دراصل بھٹو صاحب کی سیاسی تقویت فوجی آمریت سے نجات، روایتی اور آزمائے ہو ئے سیاستدانوں سے مایوسی اور انقلاب کی تمنا تھی جس نے بھٹو صاحب کے حق میں لہر پیدا کی۔ میں لاہور میں بھٹو صاحب اور ڈاکٹرجاوید اقبال کے انتخاب کا عینی شاہد ہوں۔ سارے تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ فرزند ِاقبال کو بہت سے عوامل کی بنا پر بھٹو پربرتری حاصل ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھیوں اور ان کے سسرال فیروز سنز نے اس مہم میں سرمایہ کاری بھی کھل کر کی لیکن ہمارے مرحوم دوست بیدار ملک بتایا کرتے تھے کہ وہ انتخابات سے دوروز قبل جب ڈاکٹرجاوید اقبال کے گھرگئے تو انکا معصوم صاحبزادہ ٹرائی سائیکل چلا رہا تھااور بھٹو کے حق میں نعرے لگا رہا تھا۔ بیدارملک ڈاکٹر صاحب کے انتخابی کارکن تھے۔ ان کارکنوں کی بڑی تعداد کا کہنا تھا کہ وہ جن ووٹروں کو دیہاتی علاقوں، لاہورکے محلوں اورگلیوں سے اپنی ٹرانسپورٹ میں بٹھا کر بڑے عزت و احترام اور خاطر مدارات سے پولنگ سٹیشنوں پر لائے انہوں نے ووٹ تلوارکو دیئے کہ تلوار پی پی پی کا اتخابی نشان تھا۔ نتیجے کے طور پر بھٹو صاحب کے کھمبے جیت گئے۔ دراصل یہ ساری فضا اس انتخابی لہر نے پیدا کی تھی جس کے پس پردہ بڑی تبدیلی، انقلاب اور روٹی کپڑامکان کی خواہش کارفرما تھی۔ زمیندار، بااثر اور جیتنے والے امیدوار ہوا کا رخ دیکھتے ہیں اور جب ہوا رخ بدلنے لگے تو وہ بھی عوامی لہر کیساتھ ابھرنے والی قیادت کے ساتھ مل جاتے ہیں۔
عمران خان کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ قومی ہیرو رہے، اس کا دامن بے ایمانی کے الزامات سے پاک ہے اگر وہ ہوس مال رکھتا تو چندہ مہم میں اس پر الزامات لگتے جو نہیں لگے، عمران کے دل میں قومی درد ہے جس کی عملی مثال شوکت خانم ہسپتال اور میانوالی یونیورسٹی ہیں۔ عمران خان نوجوان ہے اور دھیرے دھیرے انقلاب کی علامت بنتا جارہا ہے چنانچہ نوجوان عمران کے دیوانے بنتے جارہے ہیں اور نوجوان انتخابی مہم میں اور خاص طور پر لہر پیدا کرنے میں اہم کردار سرانجام دیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ عمران تھوڑے عرصے میں تحریک ِ انصاف کو پورے ملک میں منظم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، اس کی شاخیں گوشے گوشے میں پھیلا دیتاہے، نوجوانوں کے کندھوں پر سوار ہو جاتا ہے، دھرنے دے کر اور جلسے جلوسوں کے ذریعے لہر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ روایتی سیاستدانوں اورجماعتوں کے بت گرانے میں کامیاب ہوجائے گا کیونکہ لوگ انہیں آزما چکے اور اب لوگ تبدیلی بلکہ انقلاب کی تمنا رکھتے ہیں۔ ہوا بدلے گی تو بااثر امیدواربھی عمران خان کے پیچھے جھولی پھیلائے کھڑے ہوں گے۔لہر پیدا کرنے کے لئے سخت محنت، ہمہ وقت کارروائی اور تحریک اور عوامی رابطوں کی مہم سر کرنا ہوگی۔ اگر عمران خان یہ سمندر عبور کرسکے تو وہ کے ٹوکی چوٹی پر کھڑا ہوگا ورنہ اسمبلیوں میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا بینچ بجا رہا ہوگا۔ پاکستان کی تاریخ نے عمران کو ایک بڑا موقعہ اورچانس دیا ہے۔ دیکھتے ہیں وہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے یا ناکام رہتاہے!
No comments:
Post a Comment