Friday, 18 May 2012

تاریخی کردار۔ جنرل آغا محمد یحییٰ خان August 07, 2011

علامہ اقبال کا ایک مشہور شعر ہے
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر
اگر اس شعر کے دوسرے مصرعے کی ترتیب بدل دی جائے اوراسے یوں پڑھا جائے ”طاؤس و رباب اول، شمشیر و سناں آخر“ تو یہ مصرعہ کسی حد تک پاکستان کے سابق کمانڈر انچیف اور سابق صد رآغا محمد یحییٰ خان کے کردار کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس حوالے سے جنرل آغا محمد یحییٰ خان ہماری تاریخ کے سب سے زیادہ متنازع کردار اور ناپسندیدہ حکمران ہیں جن کے عہد حکومت میں نہ صرف پاکستان دوٹکڑوں میں تقسیم ہو کر نصف رہ گیا بلکہ پاکستان کے تاریخی حریف ہندوستان کی فتح نے ہماری قومی نفسیات پر بھی گہرے اثرات ڈالے اور پاکستانی قوم کے حوصلے پست کردیئے۔ آبادی اور رقبے میں کم ہونے کے باوجود عالمی نظر میں پاکستان کو ہندوستان کے برابر سمجھا جاتا تھا اور یکساں اہمیت دی جاتی تھی لیکن 1971 کے سانحے کے بعد پاکستان اپنی حیثیت قائم نہ رکھ سکا۔ بہت سے غلط فیصلوں، سیاسی بصیرت کے فقدان اور یحییٰ خان کی عیاشانہ زندگی کو پاکستان کے ٹوٹنے کا سبب سمجھا جاتا ہے اس لئے یحییٰ خان پاکستان کی تاریخ میں عبرت کی علامت بن کر رہ گئے ہیں۔ اگر یحییٰ خان کی زندگی کے اوراق کھنگالے جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ بلاشبہ یحییٰ خان ایک اہل اور پروفیشنل سپاہی اور فوجی افسر تھا لیکن سیاست اور حکمرانی اس کے بس کا کھیل نہیں تھا کیونکہ سیاست اور حکمران بالکل مختلف شعبہ ٴ زندگی ہیں جبکہ فوجی افسران کی تربیت اس سے بالکل مختلف اور متضاد انداز میں ہوتی ہے۔ یحییٰ خان کی زندگی اس تضاد کا افسوسناک نمونہ ہے۔ریکارڈکے مطابق محمد آغا یحییٰ خان 1919میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1938میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ کئی محاذوں پر خدمات سرانجام دینے کے بعد انہوں نے دوسری جنگ ِ عظیم میں بھی حصہ لیا۔ قیام پاکستان سے دو سال قبل انہیں سٹاف کالج کوئٹہ میں کورس کے لئے منتخب کیا گیا جو ان کے اہل اور بہت اچھے پروفیشنل سولجر ہونے کا ثبوت تھا کیونکہ سٹاف کالج کورس کے لئے عام طورپر انہی افسران کو چنا جاتا تھا جنہیں ترقی کے قابل سمجھا جاتا تھا۔ پھروہ اسی سٹاف کالج میں انسٹرکٹر لگا دیئے گئے اور یوں ان کے فوجی جوہر پر مہر تصدیق لگ گئی۔ قیام پاکستان کے وقت وہ سٹاف کالج میں واحد مسلمان انسٹرکٹر تھے۔ انہیں جنرل ایوب خان کاخاص معتمد سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کی سرپرستی میں ترقی کے زینے پرچڑھتے رہے اور جلد ہی جنرل بن گئے بلکہ شاہد جاوید برکی تو اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ جنرل یحییٰ خان نے 1958 میں مارشل لا لگانے اور اقتدار سنبھالنے میں جنرل ایوب خان کی بہت مدد کی۔ شاید اسی نے انکے دل میں سیاسی جراثیم کو جنم دیا اور حکمرانی کی خواہش پیدا کی۔ عام طور پر کسی کو حکمران بنانے والے اکثر تنہائی کے لمحات میں سوچتے ہیں کہ اگر وہ کسی کواقتدار کی کرسی پر بٹھا سکتے ہیں تو خود کیوں نہیں بیٹھ سکتے۔
1959 میں صدر پاکستان جنرل محمدایوب خان نے ملک کا دارالحکومت بدلنا چاہا تو اس مقصد کے لئے یحییٰ خان کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا۔ اسلام آباد کاچناؤ اور اسے بحیثیت دارالحکومت بنانے کی بنیاد رکھنا یحییٰ خان کا ہی تحفہ تھا۔ اسی نسبت سے یحییٰ خان سی ڈی اے (کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کے پہلے چیئرمین بنے۔ یحییٰ خان نے 1965کی جنگ میں بھی خدمات سرانجام دیں اور انہیں عین جنگ کے دوران میجر جنرب اختر حسین ملک کی جگہ چھمب جوڑیاں سیکٹر کی کمان سونپی گئی۔ یحییٰ خان کی کارکردگی اور تقرری اور اس تبدیلی کے پس پردہ کیامحرکات تھے؟ ان پر شجاع نواز اورشاہد جاوید برکی دونوں نے اپنی اپنی کتابوں میں خاصی روشنی ڈالی ہے۔”ہلال جرأت“ پا کر یحییٰ خان 1966میں موسیٰ خان کی جگہ پاکستانی ا فواج کے کمانڈر انچیف بن گئے اور جلد ہی اپنے خوابوں کوشرمندہ تعبیر کرنے کے لئے سوچنے لگے۔
1965 کی جنگ اور معاہدہ تاشقند نے ایوب خان کے آمرانہ انداز ِ حکومت پر اس قدر چوٹیں لگائیں کہ اس کے اقتدارکی بنیادیں کمزورہوگئیں اورسارے ملک میں نوجوان طلبہ اور وکلا سڑکوں پر احتجاج کرنے لگے۔ تھوڑے ہی عرصے میں حالات اس قدر خراب ہوگئے اورحکومت پر اتنا دباؤبڑھاکہ سیاسی جماعتیں اپنی تمام تر قوت کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئیں اور ایوب خان کو شیخ مجیب الرحمن سمیت سارے سیاسی قیدیوں کو رہا کرکے گول میز کانفرنس کرنا پڑی۔ اسی دوران لاقانونیت کے سائے تیزی سے پھیل رہے تھے، گھیراؤ جلاؤ کے نعرے لگ رہے تھے اور مولانا بھاشانی جیسے لیڈران اپنے بیانات کے ذریعے لوگوں کو بھڑکا کر جلتی پرتیل ڈال رہے تھے۔ کانفرنس ناکام ہوگئی اور ملک تشدد کی لپیٹ میں آگیا۔ تاریخی شواہدبتاتے ہیں کہ اس صورتحال کے پس پردہ کمانڈر انچیف جنرل محمد یحییٰ خان کاہاتھ تھا جس نے لاقانونیت پر قابو پانے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی تاکہ بیمارایوب خان کو اقتدار سے نکا ل کر صدارت کی کرسی پر قبضہ کیا جائے۔ اس موضوع پر الطاف گوہر کے علاوہ میں نے بھی اپنی کتاب میں روشنی ڈالی ہے۔ یحییٰ خان کے مولانا بھاشانی جیسے بغاوت پھیلانے والے عناصر سے رابطے تھے۔
اس نے انہیں کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ بہرحال سازش کامیاب ہوئی، ایوب خان کے اعصاب جواب دے گئے اور اس نے یحییٰ خان کی مرضی کے مطابق اقتدار اس کے حوالے کر دیا حالانکہ ایوب خان کے بنائے ہوئے دستورکے مطابق اقتدار سپیکر قومی اسمبلی کومنتقل ہونا چاہئے تھا لیکن یحییٰ خان نے ملکی صورتحال اس نہج پرپہنچادی کہ ایوب خان کے پاس دستور کو ختم (Abrogate) کرنے اور اقتدارفوج کے حوالے کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار ہی نہ رہا۔ 
25مارچ 1969 کو ایوب خان نے اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کردیااوراگلے ہی دن یحییٰ خان نے قوم سے خطاب میں کہا کہ میں جلد از جلد انتخابات کرواکر اقتدار ”آئینی حکومت کے حوالے کرکے سپاہیانہ زندگی کی جانب لوٹ جاؤں گا“ اقتدارسنبھالنے اورتقریر ریکارڈ کروانے کے بعد یحییٰ خان نے جس طرح جشن منایا اور مہ نوشی کی محفل جمائی اس کی تفصیل عینی شاہد الطاف گوہر کی کتاب میں ملتی ہے ۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد یحییٰ خان نے سیاستدانوں سے ملاقاتیں کرنا شروع کیں اور نتیجے کے طور پر اس نے 20مارچ 1970 کو لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا جس میں مستقبل کے دستور کے بنیادی اصول طے کئے گئے تھے۔
ایل ایف او کے مطابق یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑ کر مغربی پاکستان کے چاروں صوبے بحال کردیئے۔ ون مین ون ووٹ کااصول نافذ کرکے مشرقی پاکستان کو قومی اسمبلی میں 162 سیٹیں جبکہ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو 138 نشستیں دے دیں۔ مورخین اور تجزیہ نگار یہ لکھنے میں حق بجانب ہیں کہ دراصل یحییٰ خان نے ایل ایف او کے ذریعے شیخ مجیب الرحمن کو خوش کرنے کی کوشش میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی۔ پہلی ”ہمالیہ‘ ‘ غلطی ایوب خان نے کی جس نے قوم کا متفقہ طور پر منظورکردہ 1956 کا آئین منسوخ کیا تھا جس کے بعد دونوں صوبوں کے لئے متفقہ دستور بنانے کے امکانات ختم ہوگئے۔دوسری غلطی یحییٰ خان نے کرکے اپنی سیاسی بصیرت کے فقدان کا ثبوت دے دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ وہ سیاسی پیچیدگیوں اور آئینی مسائل کاادراک نہیں رکھتا کیونکہ دونوں صوبوں کے درمیان برابری یا پیرٹی کا اصول طے شدہ تھا جس کا پنڈورہ بکس کھولنا ایک فاش غلطی تھی۔ آئین کیسا بنے گا اس کا فیصلہ انتخابات کے بعد معرض وجود میںآ نے والی قومی اسمبلی نے کرنا تھا اس لئے بنیادی فیصلے بھی اسی اسمبلی پر چھوڑدینے چاہئیں تھے۔ اگرچہ ایل ایف او کے مطابق اسمبلی 120 دنوں میں آئین بنانے کی پابند تھی لیکن یحییٰ خان کی فوجی نگاہیں یہ نہ دیکھ سکیں کہ جب ایک باراسمبلی منتخب ہوجائے تووہ غیرسیاسی حکمرانوں کے کنٹرول سے آزاد ہوجاتی ہے اور فوجی بندوق کی تابع نہیں رہتی۔ انتخابات کا اعلان ہوا تو یحییٰ خان کو ایجنسیوں نے بتایا کہ مخلوط حکومت بنے گی اورمجیب الرحمن اکثریت حاصل نہیں کرسکے گا۔ 
شیخ مجیب الرحمن انتخابی میدان میں چھ نقاط سے لیس ہوکر اترا اوربنگالیوں کے استحصال اور محرومیوں کی آگ لگا کر عوام کو جذبات کے سمندر میں بہا کر لے گیا۔ اس نے مغربی پاکستان کو درخور اعتنا ہی نہ سمجھا اور ساری توجہ مشرقی پاکستان پر دے کرصوبائیت کازہر پھیلا دیا۔ انتخابات سے قبل مشرقی پاکستان سیلابوں کی زدمیں آگیا جو مجیب الرحمن کیلئے گولڈن چانس ثابت ہوا۔ 1970کے انتخابات کے نتائج نے یحییٰ خان کے مخلوط حکومت کے اندازے غلط ثابت کردیئے اور ملک کے سیاسی افق پرخدشات وخطرات کے سیاہ بادل پھیلا دیئے۔ 300اراکین کی اسمبلی میں مجیب الرحمن نے 160نشستیں حاصل کرکے ایک ایسا سیاسی چیلنج پیش کر دیاجس سے صرف منجھے ہوئے زیرک سیاستدان ہی نبردآزما ہوسکتے تھے اور جوفوجیوں کے بس کارو گ نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ہی شیخ مجیب الرحمن نے باغیانہ انداز اختیارکرلیا اور انتقال اقتدار پر زور دینے لگا۔ یحییٰ خان چاہتا تھا کہ اسمبلی کے اجلاس سے قبل مغربی پاکستان کے اکثریتی نمائندے ذوالفقار علی بھٹو اور مجیب الرحمن کے درمیان مستقبل کے آئین اورسیاسی ڈھانچے پر سمجھوتہ ہوجائے۔ بھٹومجیب ملاقاتیں نتیجہ خیز نہ ہوئیں اور یحییٰ خان نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا۔ اس سے مشرقی پاکستان میں غم و غصے اور احتجاج کی آگ پھیل گئی اور مغربی پاکستانیوں اورفوجیوں پرحملے ہونے لگے۔ یحییٰ خان نے سیاسی مسئلے کوسیاست سے حل کرنے کی بجائے فوجی طریقہ استعمال کیااور آرمی ایکشن کا حکم دے دیا۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ دراصل مارچ 1971کے آرمی ایکشن نے ہی پاکستان توڑدیاتھا، باقی ساری رسمی کارروائی تھی۔ آرمی ایکشن کے نتیجے کے طورپرمجیب الرحمن گرفتار ہوگیا، عوامی لیگ کی قیادت ہندوستان جا کر پناہ گزین ہوگئی اور ان گنت لوگ مارے گئے اورساتھ ہی کچھ فوجی چھاؤنیوں میں بھی بغاوت ہوگئی۔ یہ ہندوستان کے لئے ایک تاریخی اور سنہری موقعہ تھا جس کا اسے ہمیشہ سے انتظار تھا۔ چنانچہ ہندوستانی حکومت کے زیر سایہ عوامی لیگ کے لیڈروں نے کلکتہ میں جلاوطن بنگلہ دیش حکومت قائم کرلی اور وہ آرمی ایکشن کے دوران قتل و غارت کو مبالغہ آمیز انداز سے عالمی سطح پر پیش کرکے دنیا کی ہمدردیاں جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔یحییٰ خان اس چیلنج کا جواب نہ دے سکا کیونکہ عالمی رائے عامہ فوجی اقدام کے خلاف اور منتخب لیڈروں کے حق میں تھی۔ اس دوران ہندوستانی فوج نے بنگالی نوجوانوں کوفوجی تربیت دے کر مکتی باہنی ترتیب دی اور گوریلا کارروائیوں کا آغاز کردیا۔ چین اوردوسرے دوست ممالک کے سیاسی حل کے مشورییحییٰ خان کی رہنمائی نہ کرسکے حتیٰ کہ نومبر 1971 میں ہندوستانی فوج نے مکتی باہنی کی آڑ میں مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا اور 16دسمبر 1971کو پاکستانی افواج نے ہتھیار ڈال دیئے۔
20دسمبر کو فوجی افسروں کے احتجاج نے یحییٰ خان کو انتقال اقتدار پر مجبور کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھال کر جنوری 1972 کو یحییٰ خان کو نظربند کردیا۔ اسی نظربندی کی حالت میں 9اگست 1980کو یوم آزادی سے چار دن قبل یحییٰ خان کا انتقال ہوا اور انہیں اسی پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر فوجی اعزازکے ساتھ دفنایا گیا جس پاکستان کے یحییٰ خان نے دو ٹکڑے کردیئے تھے۔جو قارئین اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ میری کتاب ”پاکستان کیوں ٹوٹا؟“ پڑھیں۔


No comments:

Post a Comment