حرام کے غلبے میں آمدنی سے برکت فوت ہو جاتی ہے چنانچہ جیب میں پیسے ہوں بھی تو بے برکتی سے گھر میں خور و نوش کا سامان پورا نہیں ہوتا اور وسائل کے باوجود روزمرہ کاخرچہ عذاب بن کر رہ جاتا ہے۔ دوسرا یہ ہوتا ہے کہ تخت و تاج کی ”تاراجی“ کے سبب خزانہ خالی رہنے لگتا ہے اسے بھرنے کی جتنی کوششیں کی جاتی ہیں وہ تشنہ تکمیل رہتی ہیں۔ نتیجے کے طور پر حکومت مقروض ہو کر قرضوں کے بوجھ تلے دبنے لگتی ہے۔ دراصل حکومت مقروض نہیں ہوتی قوم مقروض ہوتی ہے کیونکہ بہرحال یہ قرضے قوم کی گردن میں طوق بن کر لٹکتے رہتے ہیں، حکومت بدل جاتی ہے اور قرضے آئندہ نسلوں کیلئے چھوڑ جاتی ہے۔گویا آئندہ نسلیں مقروض پیدا ہوتی ہیں اور قرضے اتارتے اتارتے دنیا سے رخصت ہوجاتی ہیں۔ یوں حکمرانوں کی بے تدبیری قوم کی تقدیر اور غلامی بن جاتی ہے۔ آج کل حکومت اندرونی و بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور ان قرضوں کا بوجھ ہماری تریسٹھ سالہ قومی زندگی کا زیادہ ترین بوجھ ہے۔ نوٹ چھاپنے والی مشینیں دن رات چل رہی ہیں۔ افراط ِزر نے نہ صرف مہنگائی کے منہ زور گھوڑے کو مہمیز لگا دی ہے بلکہ غربت میں بھی بے حد اضافہ کردیا ہے۔ یوں تخت و تاج، وزارت، صدارت کا غربت سے گہرا رشتہ قائم ہو گیا ہے کہ ان تمام الفاظ کی ردیف ”ت“ ہے اور ہمارے ہاں ت سے بنتا ہے تاراج اور تاراج کے معنی ہوتے ہیں لوٹ کھسوٹ، مار دھاڑ۔
میں تو ابھی تک اس صدمے سے لہولہان ہوں کہ اپنے اعلان کردہ اثاثوں کے مطابق دو ہزار روپوں کے اثاثوں سے بحیثیت کیڈٹ عملی زندگی کا آغاز کرنے والا جنرل پرویز مشرف اربوں کی جائیداد کا مالک کیسے بنا؟ وہ تین برسوں سے بیرون وطن شہزادوں کی سی زندگی گزار رہاہے جبکہ پاکستان میں اس کا بنک بیلنس آٹھ کروڑ روپے اور دولاکھ ڈالر ہیں۔ اللہ اللہ یہ جرنیلی ہے یا شہنشاہی؟ آپ گوگل پر جائیں تو آپ کو صدرمملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جائیدادوں کی اتنی تفصیل ملتی ہے جسے پڑھ کر چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔بیرون وطن جائیدادوں کی قطارلگی ہوئی ہے اور ابھی ان حضرات کاکہنا ہے کہ وہ مکمل جائیداد کا سراغ لگانے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ چھپانے والا بھید لگانے والے سے زیادہ ہوشیاراور کاریگرہے۔صرف تیس برس قبل معمولی جائیداد سے زندگی کا آغاز کرنے والے صدر زرداری ایک اندازے کے مطابق پانچ ارب ڈالر کی جائیداد کے مالک ہیں جبکہ پاکستان صرف سو ارب ڈالر کی امداد کے لئے امریکی غلامی کاطوق پہننے کے لئے مجبور ہے۔ پاکستان کے دولت مند اتنے بخیل ہیں کہ گزشتہ سیلاب کی تباہی کاریوں کے دوران ان کی مدد کے فیاضانہ اعلانات سن کر لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ اب انشاء اللہ سیلاب سے تباہ ہونے والے ہزاروں دیہات اس رقم سے نئے چہرے کے ساتھ تعمیرہوجائیں گے۔ سیلاب گزر گیا۔ اب تک لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے مدد کے منتظر ہیں۔ مدت ہوئی میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جب ہمارے محبوب اور سمارٹ وزیراعظم مشرفی دور میں پابند سلاسل تھے توان کے پاس بچوں کی فیس ادا کرنے کے لئے بھی رقم نہیں تھی۔
انہیں اپنی گھڑی فروخت کرنا پڑی۔ ایک نجی تعلیمی ادارے والے کہتے ہیں کہ وزیراعظم کا صاحبزادہ فیس کی عدم ادائیگی کی بنا پر یونیورسٹی چھوڑ گیا تھا۔ تین برس کی وزارت ِ عظمیٰ کی برکت سے وہ عزیزم کروڑوں روپے کی بلٹ پروف جیپ چلاتے نظرآتے ہیں۔ خاتون اول ہزاروں پونڈ کی شاپنگ کرکے لندن سے لوٹتی ہیں۔ وزیراعظم کے صاحبزادے اور ان کے دوست پر حج سکینڈل میں ملوث ہونے کا الزام ہے جبکہ ان کا ملتانی دوست سابق وزیرحج ابھی تک جیل کی ہواکھارہا ہے۔ گستاخ ایف آئی اے کاافسر وزیراعظم کے بیٹے کوتفتیش کے لئے بلاتا ہے تو اس کا تبادلہ ہو جاتا ہے اور پھر وہ افسر آئی جی ہونے کے باوجودلاپتہ ہو جاتا ہے۔ ہے نا لطیفہ؟ پھر آپ کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں معجزے نہیں ہوتے۔ ہمارے ککھ پتی حکمرانوں کا ارب پتی بننا معجزہ نہیں تو اور کیا ہے۔ کراچی سے لے کر بلوچستان تک لاشیں گر رہی ہیں، احساس تحفظ خون تھوک رہا ہے، وسائل کی قلت کے سبب لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا حالانکہ اگرحکمرانوں میں اہلیت ہوتی تو آج تین سال بعد ملک میں لوڈشیڈنگ ہرگز نہ ہوتی۔ کرپشن، غربت اور مہنگائی تاریخ کے عروج پر ہے۔ اس کے باوجود اگرآپ سمجھتے ہیں کہ ملک میں حکومت نامی کوئی شے موجود ہے تویہ معجزہ نہیں تواور کیا ہے؟
یادکرومیں نے مدت ہوئی اس کالم میں لکھا تھا کہ ہمارے حکمرانوں کودولت سے اس قدر پیار ہے کہ وہ تاج و تخت کو داؤپر لگا دیں گے لیکن دولت نہیں چھوڑیں گے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ وہ کسی صورت بھی سوئٹزرلینڈ حکومت کو خط لکھیں گے نہ چھ کروڑ ڈالر واپس کریں گے جو بطور کمیشن وصول کیا گیا تھا۔ اسی طرح ہمارے وزیراعظم صاحب بھی نہ حج سکینڈل کی تفصیلات سے پردہ اٹھنے دیں گے نہ این آئی سی ایل کی تحقیق مکمل ہونے دیں گے کیونکہ انہیں اقتدار میں جاری و ساری رہنے کے لئے مسلم لیگ (ق) کی ضرورت ہے۔ اگر مونس الٰہی مجرم ثابت ہوتا ہے تو پھر حکومتی اتحاد ٹوٹتا ہے۔ سپریم کورٹ شور مچاتی رہے اور زور لگاتی رہے حکومت ان رازوں سے پردہ اٹھنے نہیں دے گی۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ کیامعاملات اس نہج پر نہیں جارہے؟
مجھے تویوں لگتا ہے جیسے معاملات تصادم کے اس مقام پر پہنچنے والے ہیں جہاں حکومتی حیل و حجت اور تابع فرمان پارلیمینٹ کے شیر کا دکھاوا سب کچھ ناکام ہو جائے گا اور ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گاجب لاد چلے گا بنجارا… چند ماہ قبل میں نے اس کالم میں لکھا تھا کہ یہ شیر سب کو کھا جائے گا اور شیر سے مراد تھی انصاف کا شیر۔ آپ تجزیوں کی دکانیں سجاتے رہیں اوراندازوں کے غباروں سے جی بہلاتے رہیں مجھے تویوں لگتا ہے جیسے شیر کے کھانے کا وقت قریب آ رہا ہے۔
No comments:
Post a Comment