Monday 4 June 2012

عجب شناسائی، Friday, June 01, 2012

بہ بھی آشنائی کی ایک عجیب قسم ہے کہ کبھی کبھار آپ کی نگاہیں کسی چہرے پر پڑتی ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ چہرہ شناسا ہے، شاید ہم کہیں ملے ہیں یا کسی مقام پر اکٹھے رہے ہیں۔ اب تو میں اس مخمصے کی زیادہ تحقیق نہیں کرتا لیکن جوانی کے دور میں جب کبھی ایسا ”حادثہ“ ہوتا تو میں متعلقہ شخص سے ضرور پوچھتا کہ کیا ہم کبھی ملے ہیں یا میں آپ سے کہاں ملا ہوں؟ پھر کوشش کے باوجود ہم کوئی وجہ آشنائی یا مشترکہ جگہ تلاش نہ کرسکتے۔ یوں یہ راز، راز ہی رہتا۔ ویسے زندگی رازوں سے بھرپور شے ہے۔ شاید اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے زندگی کو راز کی مٹی سے ہی پیدا کیا ہے۔ کچھ راز زندگی میں افشا ہوجاتے ہیں، کچھ نہیں ہوتے اور ہم تصور کرلیتے ہیں کہ یہ راز اگلی زندگی میں یا موت کے بعد کھلیں گے۔ یہ کہانی عام انسان کی ہے جبکہ صاحبان نظر یا صاحبان باطن پر بہت سے راززندگی ہی میں منکشف کردئیے جاتے ہیں اور یہ انکشاف بھی اپنی اپنی حیثیت اور مرتبے کے مطابق ہوتا ہے۔ حیثیت اور مرتبے سے مراد روحانی مقام ہے اور روحانی مقام سے مراد قرب الٰہی ہے اور قرب الٰہی عبادت و ریاضت سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بہت سے راز…کائنات کے راز… قرب الٰہی حاصل ہونے کے باوجود نہیں کھلتے کیونکہ یہی منشاء الٰہی ہے۔ اقبال میرا پسندیدہ شاعر ہے اور کبھی کبھی تنہائی میں اقبال کے کسی شعر اور مصرعے پر غور کرتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اقبال کائنات کا کوئی راز فاش کررہا ہے۔ یہی اقبال کے صاحب نظر ہونے کی علامت ہے۔ یہ الگ بات کہ وہ راز تو میری سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ میری پرواز عام انسان کی پرواز ہے لیکن یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ اس شعر میں کوئی کائناتی راز مخفی ہے۔ بات دور نکل گئی، میں عرض کررہا تھا کہ زندگی کی دوڑ اور ہجوم میں بعض اوقات ایسے لوگوں سے آمنا سامنا ہوجاتا ہے جو شناسا لگتے ہیں۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے مجھے یقین ہے آپ بھی اس تجربے سے اپنی عمر اور ”دوڑ“ کے حساب سے ضرور گزرے ہوں گے۔ طویل عرصہ قبل میں حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کی کتاب کشف المحجوب پڑھ رہا تھا تو میرا یہ مخمصہ اور معمہ حل ہوگیا۔ سید علی ہجویری نے لکھا ہے کہ بعض روحیں عالم ارواح میں آپ کے قریب رہی ہوتی ہیں۔ایسے اشخاص جب آپ کو زندگی کے سفر کے دوران کہیں مل جائیں تو وہ آپ کو شناسا لگتے ہیں حالانکہ دنیا میں آپ کی ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی ہوتی۔ اصل شے تو روح ہی ہے جسے بقاء حاصل ہے۔ جسم تو فانی ہے مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی ایسا نہیں بھی ہوتا کیونکہ یہ تو میرے رب کی قدرت اور رضا ہے وہ چاہے تو مٹی بنا دے، چاہے تو مٹی نہ بننے دے۔ گویا یہ شناسائی روحوں کی ہوتی ہے جسے میں عجب شناسائی کہتا ہوں۔ محترم سرفراز اے شاہ صاحب ہمارے دور کی معروف روحانی شخصیت ہیں اور حددرجہ احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان کی کتاب”کہے فقیر“ مارکیٹ میں آئی تو اس نے تہلکہ مچادیا اور بہت سے کالم نگاروں نے ان کی تحریروں میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کی کوششیں کیں۔ حال ہی میں ان کی دوسری ایمان افروز اور خیال انگیز کتاب مارکیٹ میں آئی ہے جس کا نام ہے”فقیر رنگ“ ۔ محترم شاہ صاحب فقیر انسان ہیں، فقر کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں اس لئے ان کی ہر کتاب فقیر سے شروع ہو کر فقیر پر ختم ہوتی ہے۔ میں نے ابھی یہ کتاب پوری تو نہیں پڑھی کیونکہ ایسی کتابوں کو غور سے پڑھنا اور صبر سے ہضم کرنا پڑتا ہے اس لئے ان کا مطالعہ دلچسپی کے باوجود تھوڑا سا وقت لیتا ہے تاہم کتاب پڑھتے ہوئے میں شناسائی کی اس قسم پر پہنچ کر رک گیا جس کاذکر اوپرکرچکا ہوں۔ میں نے چاہا کہ زندہ کتاب کے ایک بیان سے میرے قاری بھی مستفید ہوں اس لئے میں آپ کو ان کی تحریر کے حلقے میں شامل کررہا ہوں۔ محترم شاہ صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ کبھی کبھی ہم محسوس کرتے ہیں کہ جو منظر ہماری نظروں کے سامنے ہے یہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں یا ایسا ہی واقعہ پہلے بھی ہوچکا ے۔ محترم شاہ صاحب نے اس سوال کا جو جواب دیا وہ آپ کے لئے بھی باعث دلچسپی ہوگا کیونکہ اکثر لوگ ا یسے تجربات سے گزرتے ہیں اور انہیں اس کی کوئی سائنٹیفیک توضیح یا سائنسی تشریح نہیں ملتی۔ محترم شاہ صاحب کا فرمان ہے کہ روحانیت میں ایک اصطلاح ہے ” روح کی سیر“… جب ہم نیکی اور عبادات کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور اس پر مسلسل عمل کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ہماری روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے اور روح لطیف ہوجاتی ہے۔ جوں جوں ہماری روح لطیف ہوگی اس قدر اس کی پرواز بڑھتی چلی جائے گی۔ جس قدر روح کی پرواز بڑھے گی اتنی ہی زیادہ سیر کو نکلے گی۔ جب ہم سورہے ہوتے ہیں تو ہماری روح سیر کررہی ہوتی ہے۔ یہ روحانی سیر ہوتی ہے جسے ہمارا شعور ”رجسٹر“ نہیں کرتا اس لئے یہ سیر یاد نہیں ہوتی لیکن اس سے ہماری روح ضرور واقف ہوتی ہے اس لئے بعض اوقات یوں ہوتا ہے کو روحانی طور پر جس مقام یا منظر کی ہم نے سیر کی ہوتی ہے وہ جسمانی طور پر ہمارے سامنے آتا ہے تو ہم چونک اٹھتے ہیں، مثلاً کسی انسان کی روح نے سمندر کے کنارے ایک مخصوص سپاٹ کی سیر کی۔ اب یہ سیر اس انسان کے شعور میں رجسٹر نہیں ہے۔ پانچ یا دس سال کے بعد اسے کراچی جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ وہ سمندر کے کنارے اسی سپاٹ پر جاتا ہے تو روح کی وہ یادداشت عود کر آتی ہے اور اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ یہ مقام پہلے بھی دیکھ چکا ہے۔ یہ تو روحانی توجیہہ ہے لیکن سائنس اور نفسیات میں بھی اس پر تجربات ہوئے ہیں۔ امریکہ میں بہت سے ایسے بچوں پر ”سٹڈی“ ہوئی ہے جو بہت سے علاقوں میں کبھی نہ گئے تھے لیکن اس کے باوجود ان علاقوں کے نشانات اور لینڈ مارکس بہت تفصیل کے ساتھ بتا سکتے تھے۔ سائنس باوجود حیرت اسے کوئی نام نہ دے سکی۔ محض یہ کہا کہ ”کسی شخص کی ذہنی قوتیں اور صلاحیتیں بعض اوقات اس قدر تیز ہوجاتی ہیں کہ وہ زمان و مکان سے بالاتر ہوجاتا ہے اور ایک ہی جگہ پر بیٹھا ذہنی طور پر دوسرے مقام کی سیر کرلیتا ہے“۔ یہ درحقیقت روح کی سیر ہے اس کی وجہ سے ہمیں کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پہلے بھی ہوچکا یا یہ منظر ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں“۔ اسی طرح اگر آپ کی کسی انسان سے روحانی شناسائی ہے تو وہ ملتے ہی آپ کو شناسا لگے گا حالانکہ آپ اس سے کبھی ملے نہیں ہوتے ۔ اگر آپ روزمرہ کی پریشانیوں، مسائل اور مشقت سے الگ ہوکر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے زندگی کو ایک حیرت کدہ کے طور پر تخلیق کیا ہے۔ جسمانی اور روحانی شناسائی ،عروج و زوال ،ملنا اور بچھڑنا اور زندگی و موت اس حیرت کدے کے مختلف مقامات ہیں بلکہ اس حیرت کدے کی مختلف ”حیرتیں“ ہیں۔

No comments:

Post a Comment