آج کل پاکستان اور خاص طور پر پنجاب پر ڈینگی کی آفت نے کہرام مچا ر کھا ہے۔ لاہور میں ہر روز سات آٹھ افراد اس آسمانی آفت کے ہاتھوں وفات پا رہے ہیں جبکہ ہزاروں ہسپتالوں کی راہداریوں میں خوار ہو رہے ہیں انسانی ابتلا اور خوف کے مناظر انسان کو ”لہولہان“ کر دیتے ہیں۔ سائنس کی بے پناہ ترقی اور بے پناہ وسائل کے با وجود انسان کی یہ بے بسی یوم حشر کی یاد دلاتی اور غورو فکر کے نئے دریچے کھولتی ہے۔ اس کے باوجود زندگی کا کاررواں رواں دواں ہے لیکن سرشام گلیاں، محفلیں، بازار، مارکیٹیں اور شاپنگ سنٹر ویران ہو جاتے ہیں۔ بھلا کیوں؟ ڈینگی مچھر کے خوف کے سبب جو غروب آفتاب کے وقت اپنے منہ میں زہر اٹھائے شکار کی تلاش میں اڑتا پھرتا ہے۔ فیشن زدہ، عریانی کی دلدادہ اور جسمانی اعضاء کی نمائش کی شوقین خواتین نے اچانک ننگے بازوؤں اور نیم عریاں ٹانگوں کو کپڑوں سے ڈھانپ لیا ہے اور کچھ تو گھر سے نکلتے ہوئے لمبی چادر سے جسم کو چھپانا نہیں بھولتیں۔ اس لئے نہیں کہ ان پر اچانک خوف خدا یا خوف حساب غالب آگیا ہے اور انہوں نے اپنے آپ کو بدل لیا ہے بلکہ اس لئے کہ ان پر خوف ڈینگی نے یہ حالت طاری کر دی ہے۔ چنانچہ جونہی اللہ تعالیٰ کی کی چھوٹی سی مخلوق ڈینگی مچھر کا خوف رفع ہوگا یہ خواتین ایک بارپھر فیشن پریڈ اور نیم عریاں نمائش میں شامل ہوجائیں گی اور دسمبر، جنوری کی سردی کے باوجود کم سے کم لباس کے ریکارڈ قائم کریں گی۔ اے کاش، ایسا خوف خدا سے ہوتا تو شاید رحمت الٰہی ہماری مدد کو پہنچتی لیکن اصل بات یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نیتوں کے حالات بہترین جانتے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش فرماتے ہیں ”ایک دفعہ بسطام میں ٹڈی دل آیا، تمام درخت اور کھیت اس کے بیٹھنے کی وجہ سے سیاہ ہوگئے، لوگوں نے بہت شور مچایا، شیخ نے پوچھا یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ عرض کیا: کہ” ٹڈی آئی ہے اور لوگ سخت غمزدہ ہیں“، شیخ اٹھے اور کوٹھے پر تشریف لے گئے اور منہ آسمان کی طرف کیا، اسی وقت ٹڈی اڑ گئی اور عصر کی نماز تک ایک ٹڈی بھی کہیں نظر نہ آتی تھی اور کسی کھیتی کا ایک پتہ تک ضائع نہ ہوا“۔
میں وسیع معنوں میں ایک کمزور انسان ہوں، کشف الحجوب میں یہ واقعہ پڑھ کر سوچنے لگا کہ مخلوق خدا ڈینگی کے ہاتھوں مر رہی ہے۔ چند ہفتوں میں سینکڑوں مر چکے اور ہزاروں بخار میں جل اور پھنک رہے ہیں۔ کیا ہمارے ملک میں کوئی ایسا شیخ یا ولی اللہ موجود نہیں جو کوٹھے پر چڑھ کر منہ آسمان کی طرف کرے اور ڈینگی مچھر غائب ہو جائے۔ دل سے جواب اٹھا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ دنیا کبھی اولیاء کرام سے خالی نہیں ہوگی۔ لگتا ہے کہ مخلوق خدا کے احوال، انداز اور اعمال دیکھ کر اللہ کے ان بندوں نے پردہ کرلیا ہے۔ اس حوالے سے میں نے ایک عجب مشاہدہ کیا۔ ایک سچے اولیاء، صوفی یا فقیر کے پاس کئی لوگ بیٹھے ہوتے ہیں لیکن وہ ہرشخص کی جانب توجہ نہیں دیتا اللہ کی دنیا میں نیت پر بڑا زور ہے اور صوفی کی نگاہ انسان کے قلب پر ہوتی ہے، اس کے خلوص نیت پر ہوتی ہے۔ چنانچہ میں نے مشاہدہ کیا کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی صوفی یا اولیاء کے پاس حاضری دینے والوں میں ایک دو پر تو ایسا اثر ہوا کہ وہ اسی کے ہو کر رہ گئے جبکہ باقی حضرات نے باہر نکل کر کہا یہ باؤلا ہے یا دکان سجائے بیٹھا ہے یا جعلی ہے۔ مطلب یہ کہ حدیث مبارکہ کے مطابق اولیاء اکرام ہر دور میں موجود ہوتے ہیں لیکن بعض ادوار میں وہ مخلوق خدا سے پردہ کرلیتے ہیں اور صرف انہی کو ملتے ہیں جو خلوص نیت سے اور صبر و استقلال سے ان کو ڈھونڈھنے نکلتے ہیں۔ میں کشف المحجوب کے مطالعے بلکہ مجاہدے سے گزرتے ہوئے ایک مقام پر ”پھنس“ کر رہ گیا۔ حضرت داتا گنج بخش فرماتے ہیں کہ ”تلاش و جستجو کے زمانے میں ایک بار میں ایک مشکل میں پھنس گیا جو مجاہدوں کے باوجود حل نہ ہوئی بالآخر میں نے خراسان جانے کا ارادہ کیا۔ راستے میں ایک خانقاہ میں ٹھہرا۔ وہاں صوفیوں کی ایک جماعت بھی تھی۔ انہوں نے مجھے حقارت سے دیکھا، خانقاہ کے نیچے ایک کمرے میں بٹھا دیا اور ایک سوکھی روکھی روٹی میرے سامنے رکھ کر خود کھانے کے لئے اوپر چوبارے میں جا بیٹھے۔ ان کے کھانے کی خوشبو مجھے آرہی تھی اور اس کے ساتھ چوبارہ پر سے وہ طنز کے تیر بھی مجھ پر برسا رہے تھے، کھانے سے فارغ ہو کر وہ خربوزے کھانے بیٹھ گئے اور چھلکے مجھ پر پھینکتے رہے۔ ان کی طبیعت کی خوشی اس وقت میری توہین پر موقوف تھی وہ جس قدر مجھے طعن و ملامت کرتے، میں خوش ہوتا۔ یہاں تک کہ اس طعن کا بوجھ اٹھانے سے میری وہ مشکل حل ہوگئی جو مجاہدوں اور سفر کی مشقت اٹھانے سے حل نہ ہوئی تھی۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ مشائخ جاہلوں کو اپنے درمیاں کیوں رہنے دیتے ہیں۔نیز یہ کہ بعض بزرگوں نے ملامت کا طریقہ کیوں اختیار کیا۔ معلوم ہوا کہ اگر صبر اللہ کی رضا کی خاطر کیا جائے تو اس سے ذہنی عقدے بھی کھلتے ہیں، قلبی مسرت بھی ملتی ہے اور رضائے الٰہی بھی حاصل ہوتی ہے لیکن اگر یہ مصلحت یا مخلوق خدا کے ڈر سے ہو تو پھر یہ محض دکھاوا ہوتا ہے ا ور اس کے اجر کی تمنا بھی بیکار ہوتی ہے۔ دوستو یاد رکھو مردانگی انتقام لینا نہیں بلکہ معاف کرنا ہے۔ بہادری غصے سے پھٹ کر آپے سے باہر ہونا نہیں بلکہ غصے کو پی جانا ہے۔ اگر آپ اپنے ارادوں کو رضائے الٰہی کے تابع کرلیں تو پھر دیکھیں کہ کیسے کیسے بند دروازے کھلتے اور کیسے کیسے نئے جہان آباد ہوتے ہیں۔
نوٹ: جمعہ کے جنگ میں برادر عزیز مجیب الرحمن شامی (جو مجھے گزشتہ کالموں میں بزرگوارم لکھتے ہیں) نے محترم قاسمی صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کدورت کے پتھر مجھ پر پھینکے ہیں، میں اس کے لئے ان کا ممنون ہوں، میں بہرحال ان کی سطح پر نہیں اترسکتا کیونکہ اس میں میری تربیت مانع ہے۔ اللہ انہیں مزید ترقی دے میں ان کے لئے دعا گو ہوں۔ البتہ بہتان کی وضاحت ضروری ہے، میں نے کبھی نہیں کہا کہ پاکستان بھارت کے معمول کے تعلقات کی بحالی نظریہ پاکستان کیخلاف ہے یا قائداعظم ہندوستان سے قطع تعلقات چاہتے تھے نہ ہی یہ موضوع بحث تھا۔ قارئین جانتے ہیں کہ بحث کا موضوع عطا الحق قاسمی کا یہ فقرہ تھا کہ ”قائداعظم چاہتے تھے کہ وہ سال میں چند ہفتے بمبئی میں گزارا کریں“ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ بمبئی جانا نہیں چاہتے تھے لیکن اس کا انحصار ہندوستان کے رویے پر تھا۔ جنگ کے لاکھوں قارئین نے یہ کالم پڑھے ان کے ذہنوں میں کوئی ابہام نہیں اور نہ ہی انہیں کسی کتاب کی ضرورت ہے کیونکہ وہ اپنی رائے بتا چکے ہیں۔ ان چند الفاظ کو بہت سمجھیں…
No comments:
Post a Comment