دیکھ لیا آپ نے کہ جن واقعات سے دوسرے ممالک میں زلزلے آجاتے ہیں اور ”تختے“ الٹ جاتے ہیں، پاکستات میں ایسے واقعات کو معمول اور روٹین کی بات سمجھ کر قبول کرلیا جاتا ہے۔ تھوڑی بہت جو ہلچل پیدا ہوتی ہے اسے آزاد میڈیا کا تحفہ سمجھئے ورنہ ماضی میں تو اتنی ہلچل بھی دیکھنے میں نہیں آتی تھی۔میں نے گزشتہ ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کی مستقبل کی سیاست کی راہ ان تین مقدمات کے فیصلوں سے متعین ہوگی جو اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں ۔ اول این آر او اور توہین عدالت،دوم میموسکینڈل اورسوم مہران بنک سکینڈل… ذرا غور کیجئے کہ یہ تینوں مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں، ان میں پاکستان کے بڑے بڑے لیڈران اورحکمران ملوث یا ملز م ہیں اور ان میں سے دو مقدمات کا تعلق کرپشن سے ہے۔ مزید غور کیجئے کہ یہ تینوں مقدمات اتفاق یا حسن اتفاق سے نہایت اہم، فیصلہ کن اور حساس دور میں دھماکہ خیز انداز سے سامنے آئے ہیں۔ میں اس سال کو فیصلہ کن اور اہم اس لئے کہہ رہا ہوں کہ انتخابات ہوئے چار برس گزر چکے اور موجودہ سال یا تو انتخابات کاسال ہوسکتا ہے یا پھراگلے سال انتخابات کے حوالے سے نہایت اہم ہوگا کیونکہ انتخابات سے فوراً پہلے ہی رائے عامہ بنتی اور بگڑتی ہے۔ ہاں کہاجاسکتا ہے کہ بڑی پارٹیوں کا ووٹ بنک پکا ہے اوروہ ان واقعات سے متاثر نہیں ہوتا۔ لیکن میرا مشاہدہ بتاتا ہے کہ اول تو رائے دہندگان کی اکثریت کسی پارٹی سے پوری طرح منسلک نہیں ہوتی اور وہ کسی جانب مائل ہونے کے باوجود آزادانہ ذہن کے ساتھ فیصلہ کرتی ہے اور یہی وہ اکثریت ہے جو انتخابی لہر سے متاثر ہو کر فتح یا شکست کا راستہ ہموار کرتی ہے۔ یہ تینوں مقدمات اپنے نتائج اورمضمرات کے حوالے سے اس اکثریتی رائے عامہ کو متاثر کریں گے جو کسی پارٹی سے ”اندھا دھند“ وابستہ نہیں۔ گزشتہ پانچ عام انتخابات کے نتائج کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بڑی پارٹیوں کا ووٹ بنک بھی حالات کے ساتھ گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے اور سیاسی وفاداری بھی رنگ بدلتی رہتی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات کو مثال نہ بنائیں کیونکہ ضمنی انتخابات میں ہمیشہ حکومت ِ وقت کا کردار اہم اور پلہ بھاری ہوتا ہے۔ یوں بھی یہ انتخابات عمومی طور پر صرف دو پارٹیوں کے درمیان تھے جبکہ عام انتخابات کی نوعیت اور فضا ہی مختلف ہوتی ہے۔ فی الحال اس بحث کو کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ اسے بھی آزاد عدلیہ کا ثمر سمجھئے کہ مہران بنک سکینڈل اور سیاستدانوں میں انتخابی مقصد کے لئے رقوم کی تقسیم کا مقدمہ طویل انتظار کے بعد زیرسماعت اور زیربحث آیا ہے۔ یونس حبیب کا بیان اور انکشاف تو پہلا مرحلہ تھا ابھی جوں جوں مقدمہ آگے بڑھے گا نئے نئے انکشافات کے پر کھولے گا۔ فی الحال قابل غور بات اتنی سی ہے کہ یونس حبیب نے سکینڈل کا پس منظر بیان کیا ہے اور اس کی فراہم کردہ رقم سے فائدہ اٹھانے والوں کے ناموں سے پردہ اٹھایا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے اور حرام مال سے مستفید ہونے والے کب مانیں گے کہ انہوں نے چوری کے مال سے حصہ لیا۔ ان حقائق کی مزید تصدیق جنرل اسد درانی اور جنرل اسلم بیگ کے حلفیہ بیانات سے ہوگی۔ جنرل اسد درانی کچھ اسمائے گرامی کی تصدیق اپنے حلفیہ بیان میں کرچکے ہیں۔ یونس حبیب نے انکشاف کیا ہے کہ کچھ رقم اس نے دی اور باقی دوسروں کے ذریعے بانٹی گئی۔ ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ ان تمام حضرات کو سچ سے پردہ اٹھانے کے لئے بلائے گی جو اس مہم جوئی میں شامل تھے۔ اس ضمن میں جنرل رفاقت، روئیداد خان اور صدارتی الیکشن سیل کے دوسرے ارکان بھی عدالت کے سامنے آئیں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سچ اور معافی کے اس موسم میں کچھ اور لوگ بھی ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے رضاکارانہ طور پر پیش ہوں۔ جنرل رفاقت کو ان صحافیوں کے نام ظاہر کرنا ہوں گے جنہوں نے اس رقم سے جیبیں بھریں۔ اس طرح قوم کو پہلی بار ایسے حقائق سے آگاہی حاصل ہوگی جو اب تک شجرممنوعہ تھے۔ اس طرح قوم کو چہرے پہچاننے میں مدد ملے گی اور اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتاکہ اگر الزامات درست ثابت ہوجائیں تو کچھ سیاستدانوں، صحافیوں اور کارندوں کو سزا بھی ہوجائے کیونکہ یہ بہرحال وحیدہ شاہ کے تھپڑ سے بڑا تھپڑ اور بڑا جرم ہے۔ اس سے سیاست کے گندے جوہڑ کو صاف کرنے میں مدد ملے گی اور اگر سپریم کورٹ صفائی کا عمل شروع کرنے میں کامیاب ہوگئی تو یہ بہرحال بڑی قومی خدمت ہوگی۔ اس صفائی کے بغیر جمہوریت کی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ میں جب سیاست کے گندے جوہڑ کی بات کرتا ہوں تو اس مقدمے کے تمام پہلو میرے ذہن میں ہیں۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ جن سیاستدانوں نے مال غنیمت لوٹا وہ آئین کی شرائط کے مطابق نہ دیانتدار رہے اور نہ دیانت کے اہل رہے چنانچہ اسمبلیوں کی رکنیت کے لئے نااہل ٹھہرے لیکن اس کا فیصلہ جرم ثابت ہونے کے بعد کیا جائیگا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سیاست میں ملوث ہونے اور انتخابات پر اثر انداز ہونے کا ثبوت مل جائے گا اور سپریم کورٹ نہ صرف آئی ایس آئی اور ایم آئی کی ایسی سرگرمیوں پرپابندی لگا دے گی بلکہ ان اداروں کے کردار اور آئندہ ”رول“ کا تعین بھی کرے گی۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ جو صحافی ، میڈیا کے کمزور اور دوسرے لوگ ان سرگرمیوں سے فائدے اٹھاتے رہے ان کے اسمائے گرامی سے پردہ اٹھ جائے گا اور عوام کو پتہ چل جائے گا کہ کون ایجنسیوں کا ایجنٹ تھا اور کون قوم سے بے وفائی کرتارہا ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہماری ساٹھ سالہ تاریخ کے اکثر شعبوں پرپردہ پڑا ہوا ہے اور ان پردوں کے نیچے بہت بڑے بڑے سکینڈل آرام فرما رہے ہیں۔ میری خواہش اور دعا ہے کہ یہ پردے ہٹیں اور عوام کی آنکھوں سے بھی پردے اٹھیں تاکہ انہیں سچ کا پتہ چلے اور وہ سیاسی کرداروں کے اصلی چہرے دیکھ سکیں۔ پاکستان میں سچ اور معافی کے موسم کا آغاز ہو چکا ہے۔ میرے نزدیک یہ نہایت اہم پیشرفت ہے اور جمہوریت کی کامیابی کے لئے نیک شگون ہے۔ اللہ کرے سچ کھل کر برسے اور جھوٹ اور منافقت کو بہا کر لے جائے۔ فی الحال قوم جھوٹ اور منافقت کی رو میں آنکھیں بندکئے بہہ رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آسمان سے سچ برسے تو قوم کی آنکھیں کھل جائیں۔ قوم کی آنکھیں کھلیں گی تو اس تبدیلی کے چراغ روشن ہوں گے جنہوں نے ہماری قومی ترقی کی راہوں کو منور کرنا ہے۔ |
Sunday, 20 May 2012
سچ اورمعافی کا موسم March 10, 2012
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment