Sunday, 20 May 2012

ایک جاسوس کے چشم کشا اعترافات (2) May 04, 2012


ہمفرے نے اپنی کتاب ”ہمفرے کے اعترافات“ میں لکھا ہے کہ وہ جب استنبول کے ممتاز سکالر شیخ احمد آفندی سے وزارتِ قرآن کی تجوید اور تفسیر سیکھنے میں مصروف تھا تو روزی کمانے کا بھرم قائم رکھنے کے لئے نصف دن خالد بڑھئی کی دکان پر کام کرتا تھا۔ جہاں سے اسے حقیر سی رقم مل جاتی تھی۔ خالد بڑھئی اچھے کردار کا حامل نہ تھا۔ خالد نے اسے ایک بداخلاقی پر مجبور کیا۔ ہمفرے ہر ماہ رپورٹ برطانوی حکومت کو بھجواتا تھا۔ ایک رپورٹ میں اس نے خالد کی بدکرداری کا ذکر کیا تو اسے نوآبادیاتی وزارت کی طرف سے حکم ملا کہ وطن کی خدمت کے لئے ہر قسم کا کام کر گزرو۔ مطلب یہ کہ جاسوسی کی دنیا میں اخلاقیات نامی کوئی شے نہیں ہوتی اور اس میدان میں مقصد کے حصول کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے جائز سمجھے جاتے ہیں۔ اس حکمت عملی نے برطانوی انٹیلی جنس کو کس طرح اپنے مقاصد میں کامیاب کیا، اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔
دو سال کے دوران قرآن، تفسیر، حدیث اور تجوید پر عبور حاصل کرنے کے بعد جب وہ لندن پہنچا اور وزارت نوآبادیاتی علاقے کو رپورٹ دی تو اسے پتہ چلا کہ اس کے باقی جن نو ساتھیوں کو لندن بلایا گیا تھا ان میں صرف پانچ واپس لوٹے تھے۔ غائب شدگان میں ایک نے مصر میں شادی کرکے وہیں رہائش اختیار کرلی تھی لیکن وزارت کا سیکرٹری خوش تھا کہ اس نے راز فاش نہیں کئے۔ دوسرا جاسوس روسی نژاد تھا۔ وہ روس پہنچا تو وہیں بودوباش اختیار کرلی۔ تیسرا بغداد کے ہیضے میں مر گیا۔ چوتھا صنعا میں کہیں گم ہو گیا۔ وزارت برائے نوآبادیاتی علاقے نے جاسوسی کا وسیع جال بچھا رکھا تھا۔ اس جاسوسی کے جال کے تحت نہ صرف اپنے جاسوسوں کی نگرانی کی جاتی تھی اور ان کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کی جاتی تھی بلکہ ان کی بھیجی گئی رپورٹوں کی خفیہ تصدیق بھی کی جاتی تھی۔ اس ساری واردات کو جاسوس سے پوری طرح اوجھل رکھا جاتا تھا۔
لندن میں جب ہمفرے اپنی وزارت کے سیکرٹری سے ملا تو ہمفرے کے الفاظ میں ”سیکرٹری نے میری آخری رپورٹ کے اہم حصوں کے مطالعے کے بعد مجھے کانفرنس میں شرکت کی ہدایت دی جس میں لندن میں بلائے گئے پانچوں جاسوسوں کی رپورٹیں سنی جانا تھیں۔ یہ کانفرنس وزیرخارجہ کی صدارت میں ہوئی اور اس میں میرے ساتھیوں کی رپورٹوں کے اہم حصوں کو پڑھ کر سنایا گیا۔ میری رپورٹ کو بہت سراہا گیا تاہم ان پانچ میں کارکردگی کے حوالے سے مجھے نمبر تین پوزیشن پر رکھا گیا اور جی بلگوڈ کو نمبر ون اور ہنری فانس کو نمبر دو قرار دیا گیا۔ میں نے ترکی عربی تجوید قرآن اور اسلامی شریعت میں سب سے زیادہ دسترس حاصل کی تھی لیکن عثمانی حکومت (سلطنت عثمانیہ ترکی) کے زوال کے سلسلے میں میری رپورٹ اعلیٰ درجے کی نہیں تھی۔ سیکرٹری نے کانفرنس کے اختتام پر میری کمزوری کا ذکر کیا اور کہا کہ آئندہ دو باتوں کا خیال رکھنااول مسلمانوں کی ان کمزوریوں کی نشاندہی کرو جو ہمیں ان تک پہنچنے اور ان کے مختلف گروہوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں کامیابی فراہم کریں۔ دوم تمہارادوسرا کام ان میں پھوٹ ڈالنا ہے۔ اس کام میں پوری قوت صرف کرنے کے بعد تمہیں اطمینان ہوجاناچاہئے کہ تمہارا شمار صف اول کے انگریز جاسوسوں میں ہونے لگا ہے اور تم اعزازی نشان کے حقدار ہوگئے ہو۔“ چھ ماہ لندن میں گزارنے اور شادی کے بعد جب ہمفرے کو نئے مہمان یعنی بچی بچے کا انتظار تھاتو اسے فوری طور پر عراق پہنچنے کاحکم ملا جو اس وقت خلافت ِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ کئی ماہ سمندروں میں دھکے کھانے اور گزارنے کے بعد ہمفرے بصرہ پہنچا۔ ہمفرے لکھتاہے: ”بصرہ میں عیسائیوں کی تعداد کم تھی۔ زندگی میں پہلا موقع تھاکہ میں اہل تشیع اور ایرانیوں سے مل رہا تھا… شیعہ سنی اختلافات کا ناقابل فہم پہلو ان کا مسلسل جاری رہنا ہے۔ اگرمسلمان حقیقتاً عقل سے کام لیتے تو تاریخ اور گزشتہ زمانے کی بجائے آج کے بارے میں سوچتے۔ ایک دفعہ میں نے شیعہ سنی اختلافات کے موضوع کو نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا ”مسلمان اگر زندگی کاصحیح مفہوم سمجھتے تو اختلافات کو چھوڑ کر وحدت و اتحاد کی بات کرتے“ اچانک صدر کانفرنس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ”تمہارا کام مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی آگ بھڑکانا ہے نہ کہ اتحاد کی دعوت دینا“
”عراق جانے سے پہلے سیکرٹری نے اپنی ایک نشست میں مجھ سے کہا ”ہمفرے! تم جانتے ہو کہ جنگ اور جھگڑے انسان کے لئے ایک فطری امر ہیں۔ جب سے خدا نے آدم کو خلق کیا اور ہابیل اورقابیل پیدا ہوئے اختلاف نے سر اٹھایا اور اب اس کو حضرت عیسیٰ  کی بازگشت تک اسی طرح جاری رہنا ہے۔ ہم انسانی اختلافات کو پانچ موضوعات پرتقسیم کرتے ہیں۔ (۱) نسلی اختلافات (۲) قبائلی اختلافا ت (۳) ارضی اختلافات (۴) قومی اختلافات (۵) مذہبی ختلافات۔ اس سفر میں تمہارا اہم ترین مشن مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنا اور انہیں ہوا دینے کے طریقوں کو سیکھنا ہے۔ اس سلسلے میں جتنی بھی معلومات مہیا ہوسکیں انہیں لندن پہنچانا ہے۔ اگر تم اسلامی ممالک کے بعض حصوں میں شیعہ سنی فساد برپا کرسکو توگویا تم نے حکومت ِ برطانیہ کی عظیم خدمت کی۔ جب تک ہم نوآبادیاتی علاقوں (کالونیز) میں تفرقہ او ر اختلافات کی آگ کو ہوا نہیں دیں گے ہم عثمانی سلطنت کو شکست نہیں دے سکتے۔ اتنے بڑے علاقے پر انگریزوں کی مختصر سی قوم سوائے اس ہتھکنڈے کے اور کس طرح چھا سکتی ہے؟“
”بصرہ پہنچ کر میں ایک مسجد میں داخل ہوا جس کے پیش امام مشہور عالم شیخ عمر طائی تھے۔ میں نے ادب سے سلام کیا اور پوچھنے پر بتایا کہ میں ترکی کا رہنے والا ہوں اور مجھے قسطنطینہ کے شیخ احمد آفندی کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ میں نے وہاں خالد بڑھئی کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ مسجد میں چند دن گزارنے کے بعد میں نے دو تین مسافر خانے بدلے اوربالٓاخر ایک ترکھان کی دکان پراس شرط میں نوکری کرلی کہ وہ مجھے رہنے سہنے کی سہولت بھی دے گا۔ ترکھان عبدالرضا شریف انسان تھا اور مجھ سے بیٹوں جیسا سلوک کرتاتھا۔ وہ خراسانی شیعہ تھا چنانچہ میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اس سے فارسی سیکھنا شروع کی۔ ترکھان کی دکان پر میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو وہاں اکثر آتا جاتا رہتا تھا اورترکی، فارسی اور عربی میں گفتگو کرتا تھا۔ وہ دینی طالب علمو ں کا لباس پہنتا تھا اور جاہ طلب انسان تھا۔ اسے عثمانی حکومت سے نفرت تھی لیکن حکومت ایران سے اس کاکوئی سروکار نہیں تھا۔ سنی ہونے کے باوجود اس کی شیعہ ترکھان سے دوستی تھی۔ بہرحال وہ آزاد خیال انسان تھا اور کہا کرتا تھاکہ حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی مکاتب فکر میں سے کسی کسی بھی اہمیت نہیں کیونکہ خدا نے جو کچھ قرآن میں کہہ دیا ہے بس وہی ہمارے لئے کافی ہے۔ اس کا قرآن و حدیث کا مطالعہ بہت اچھا تھا۔ وہ بات بات پر کہتا کہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف کتاب اور سنت کو ناقابل تغیر اصول بنا کر ہمارے لئے پیش کیا ۔پس ہم پر واجب کہ ہم صرف کتاب و سنت کی پیروی کریں۔ اس کی اکثر مذہبی حوالے سے دوسروں سے جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں اور مجھے اس کی گفتگو میں بڑا مزا آتا تھا۔ میں نے اس سے دوستی قائم کرلی۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ شخص برطانوی حکومت کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت موزوں ہے۔ اس کی اونچا اڑنے کی خواہش ، جاہ طلبی، علما و مشائخ سے دشمنی اور خودسری سے فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا۔ میں نے اس سے گہرے تعلقات قائم کرلئے اور بار باراس کے کانوں میں یہ رس گھولتا رہتا کہ اللہ نے تمہیں بڑی فضیلت اور بزرگی بخشی ہے۔ میں چاہتا ہوں اسلام میں جس انقلاب کو رونما ہونا ہے وہ تمہارے ہی مبارک ہاتھوں سے انجام پذیر ہو۔ تم ہی وہ شخصیت ہو جو اسلام کو زوال سے بچا سکتے ہو۔“
ہمفرے نے اس شخص کو مذہبی تاویلوں کے ذریعے کس طرح اپنے جال میں پھنسایا، اسے خفیہ جنسی لذت اور شراب کا عادی بنایا اور مسلمانوں میں تفرقے کے لئے استعمال کیا۔ یہ ایک چشم کشا اور ہوشربا داستان ہے جس کے لئے اگلی قسط کا انتظار کریں۔ میں اپنے بیان میں حد درجہ محتاط ہوں، قابل اعتراض حصے حذف کر رہا ہوں اور آپ کو ہمفرے کے شکار کا نام ہرگز نہیں بتاؤں گا کیونکہ مجھے وقت سے پہلے مرنے کاشوق نہیں (جاری ہے) 
 

No comments:

Post a Comment