یہ رام کہانی میں نے اس لئے بیان کی کہ خود ہمارا استحکام امریکی حکمت عملی سے خاصی حد تک منسلک ہے جب تک ہم امریکہ کے طفیلی بنے رہیں گے اور امریکی مفادات کی حفاظت اور ترقی پر مامور رہیں گے ہمارا داخلی استحکام اور خارجی پالیسیاں بھی امریکہ کے تابع رہیں گی۔ موجودہ امریکی پاکستانی تعلقات کا بحران اگرچہ سنجیدہ نظر آتا ہے لیکن توقع یہی ہے کہ آئندہ چند ماہ میں ایڈجسٹمنٹ ہوجائے گی اور بحران کا سیلاب اتر جائے گا۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر خود امریکہ داخلی دباؤ کے تحت جنگی مہم جوئی اور دوسرے ممالک کو تابع فرمان بنانے کی حکمت عملی ترک کردے یا محدود کردے تو یہ پاکستان کے مفاد میں ہوگا اور اس طرح پاکستان کو استحکام کے حصول میں بھی آسانی پیدا ہوگی۔ بہت سے امریکی دانشوروں کا خیال ہے کہ اگلے سال کے آخر سے اس ضمن میں خاصی پیش رفت ہوگی۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جتنے قدرتی وسائل پاکستان کو دئیے ہیں اتنے بہت کم قوموں کے حصے میں آئے ہیں۔ مثلاً پاکستان کے پاس دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان ہے، پانچویں بڑی سونے کی کان ہے جس کی مالیت پانچ سو ارب ڈالر ہے، پانچویں بڑے کوئلے کے ذخیرے ہیں، ساتویں بڑے تانبے کی ذخائر ہیں، دنیا کے دو سب سے بڑے ڈیم پاکستان میں ہیں، پاکستان دنیا کا ساتواں بڑا چاول پیدا کرنے والا اور آٹھواں بڑا گندم پیدا کرنے والا ملک ہے۔ ہمارے پاس پانچ دریا ہیں پانی اور کوئلے سے بے پناہ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، ہم ایٹمی قوت ہیں اور ہمارے اٹھارہ کروڑ محنتی ، جفاکش اور ایثار کیش عوام میں دس کروڑ صحت مند اور پراعتماد نوجوان ہیں جن کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر ملک کا مقدر بدلا جاسکتا ہے، گویا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں فراخدلی سے قدرتی وسائل اور انسانی قوت دی ہے اور اگر اس کا موازنہ کیا جائے تو صفحہ ہستی پر پھیلے ہوئے سینکڑوں ملکوں اور قوموں سے ہم کہیں بہتر ہیں لیکن عملاً ایسا نہیں ہے۔ میں جب پاکستان کے داخلی و خارجی چیلنجوں، مسائل اور صورتحال پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم پستی کی جانب لڑھکتے لڑھکتے چند برسوں میں پستی کی انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔ غربت، بے روزگاری، مایوسی، مہنگائی اور بدامنی نئے نئے ریکارڈ قائم کررہی ہے۔ ایک طرف لوگ بھوک افلاس سے خود کشیاں کررہے ہیں تو دوسری طرف انہیں جانوروں کی مانند ذبح کیا جارہا ہے۔ کل تک کراچی میں قتل عام کا سلسلہ جاری تھا تو اب بلوچستان میں انسانی خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔خیبر پختوانخواہ کو دہشتگردی کا سامنا ہے تو پنجاب وبائی امراض کے ہاتھوں لاچار ہے۔ ذرا غور کیجئے تو یہ انہونی بات بذات خود خطرے کی گھنٹیاں بجانے کے لئے کافی ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کا آئینی وزیر اعلیٰ فیڈریشن کی علامت اور آئینی سربراہ مملکت پر تابڑ توڑ حملے کررہا ہے اور صوبے اور مرکز کے تصادم کا ماحول پیدا ہوچکا ہے۔ مسلم لیگ ن گزشتہ ساڑھے تین برس کی لیٹ نکالنے کے لئے ا یک دم حکومت کو بیدخل کرنے کے لئے میدان میں اتر چکی ہے تو دوسری طرف سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بالواسطہ طور پر حکومت پر نااہلی کی مہر لگا دی ہے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ حکومت کی نااہلی اور بے عملی کے سبب تھی جبکہ حکمران پارٹی سمیت ہماری پارٹیاں بھتہ خوری، ڈرگ مافیا، لینڈ مافیا، اسلحہ مافیا اور عسکری ونگز بنانے میں ملوث ہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی راز فاش کردیا ہے کہ ایک سیاسی پارٹی ملکی استحکام کے خلاف کام کررہی ہے جبکہ مجھے یقین ہے کہ حکومت اس کے خلاف ریفرنس کبھی نہیں بھیجے گی۔
کیونکہ حکمرانوں کو ملک کی بجائے اپنا اقتدار عزیز ہے۔ لوڈ شیڈنگ اور بدامنی کے سبب ملکی سرمایہ بیرون وطن جارہا ہے۔ ملک کی معاشی حالت دگرگوں ہے، قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور عالمی سطح پر ہم تنہا ہوچکے ہیں۔ وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے اجلاس دوران وہ چالیس ممالک کے وزراء خارجہ سے ملیں لیکن کسی نے بھی ان کی بات پر توجہ نہ دی۔ دنیا ہمیں دہشتگرد اور دھوکے باز سمجھتی ہے جبکہ دراصل ہم ایسے نہیں ہیں۔حکومت کی نااہلی ملاحظہ ہو کہ کراچی میں انسانی خون بہتا رہا تاوقتیکہ سپریم کورٹ نے نوٹس لیا۔ لوڈ شیڈنگ کی شدت سے تنگ آکر عوام سڑکوں پر نکلے تو حکومت جاگی، بجلی کمپنیوں کو واجبات ادا کئے اور دعویٰ کردیا کہ لوڈ شیڈنگ ختم اگر عوام اپنے غصے سے اقتدار کے محلات کو نہ ہلاتے تو لوڈ شیڈنگ آج بھی ہورہی ہوتی ۔ یہ بالکل درست ہے کہ اگر حکومت میں اہلیت ہوتی تو ساڑھے تین برس میں ملک کا مقدر بدلا جاسکتا تھا۔ مختصر یہ کہ میں آج کل جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس کی مثالیں ہمیں ہماری تاریخ میں نہیں ملتیں۔کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں وہ سب کچھ دیا جو کسی قوم کو خوشحال بنانے کے لئے درکار ہوتا ہے۔ صرف ایک فیصلہ ہم پر چھوڑا اور وہ فیصلہ تھا حکمرانوں کے انتخاب کا۔ ہم اسی میں مار کھاگئے اور اسی مار کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اس لئے مجھے شکایت قدرت سے نہیں اپنے آپ سے ہے۔
No comments:
Post a Comment