Sunday, 20 May 2012

نفرت کی برسات April 10, 2012


جذبات میں بہہ کر توازن کھو دینا ہمارے قومی کردار کاحصہ ہے اور سچی بات یہ ہے کہ میں خود بھی اس مرض کا مریض ہوں۔ جوں جوں موسم گرما فضا میں آگ بھڑکائے گا ہمارے جذبات کی بھٹی میں بھی تیزی آتی جائے گی۔ گرمی کے آغاز کا تھوڑا سا منظر اور چھوٹی سی جھلک آپ نے صدر مملکت کی لاہور آمد اور ان کی ”بے وقار“ تقریروں میں دیکھی ہوگی جو ایک طرح سے نہ صرف میاں شہباز شریف کی سنگ زنی کا جواب تھیں بلکہ صدر صاحب کی تقریروں کے بعض فقرے تو زہر میں بجھے ہوئے تیر تھے جن سے بعض لوگوں کے دل چھلنی ہوئے لیکن پی پی پی کے جیالوں کے ولولے تازہ ہوئے۔ شاید ان تقاریر کا مقصد بھی موسم گرما کی آمد کے ساتھ جیالوں کو گرمانا اور بھڑکانا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ نہ میاں شہباز شریف کی بھڑکیلی تقریروں اورصدر مملکت کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی دھمکیاں باوقار متوازن رویئے کی عکاسی کرتی تھیں اور نہ ہی ایسی تقریریں وزیراعلیٰ کو زیب دیتی ہیں لیکن صدر مملکت تو سب پر بازی لے گئے اور اپنے عہدے کے وقار کو خوب پامال کرتے رہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تقریریں انہوں نے پی پی پی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے کیں نہ کہ صدر مملکت کی حیثیت سے۔ اس دلیل کا وہی جواب ہے کہ اسی لئے سمجھدار لوگ سرکاری عہدوں اور پارٹی عہدوں کو الگ الگ رکھنے کی حمایت کرتے ہیں۔ میں 1986-99کی سیاست کا عینی شاہد ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ملکی سیاست پھر ماضی کی مانند شدید محاذآرائی، پولرائزیشن اور ذاتی نفرتوں کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن اس بار سیاسی کھلاڑیوں کو ایک فائدہ ہے وہ یہ کہ نہ غلام اسحق صدر مملکت ہیں اور نہ ہی صدر کے پاس پارلیمینٹ کو گھر بھجوانے کا اختیا ر موجود ہے۔ 1986 کی دہائی میں لوگ آگ بھڑکانے کا کریڈٹ صدر مملکت غلام اسحق کو دیتے تھے اور بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ صدر مملکت بھٹو فیملی اور میاں فیملی کی باہمی نفرت کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں بظاہر صدر مملکت کا کردار بھی اس تاثر کی تصدیق کرتا تھا کیونکہ وہ اس محاذ آرائی کی آگ پر تیل ڈال کر حکومتیں اپنی مرضی سے بناتے اورگراتے رہے، کبھی میاں صاحب سے چوری چھپے سازباز کی اور کبھی بینظیر بھٹو سے خفیہ سمجھوتے کرتے رہے۔ اس وقت صدرمملکت سازبازاورسازش کرنے کی پوزیشن میں بھی تھا کیونکہ صدر کے پاس 58(2)B یعنی پارلیمینٹ اور حکومت کا بستر گول کرنے کا اختیار تھا۔ اب صورت بدل چکی ہے۔ نہ صدر کے پاس پارلیمینٹ توڑنے کا اختیار ہے اور نہ ہی صدر مملکت غلام اسحق ہیں بلکہ اب تو مرکز کا اقتدار پی پی پی پی کے پاس ہے اس کے اتحادی وفادار ہیں اگرچہ ان کی وفاداری بشرط استواری ہے اور اب حکمرانوں کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ چنانچہ وہ کھل کر کھیل سکتے ہیں اور بلارکاوٹ نفرت و تحقیر کے تیر چلا سکتے ہیں۔ سیاسی نقصان کا انہیں کوئی اندیشہ نہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ پی پی پی کا ووٹ بنک پکا اور سچا ہے۔ وہ بندوقیں چلائیں، قومی خزانہ لوٹیں یا اپنے ساتھیوں کو دونوں ہاتھوں سے جیبیں بھرنے دیں اس سے ان کے ووٹ بنک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ چنانچہ جوں جوں انتخابات قریب آئیں گے دونوں بڑی پارٹیاں اپنے کارکنوں کو جوش کے ٹیکے لگانے اور اپنے ووٹروں کو گرمانے کے لئے نفرت کا الاؤ بھڑکائیں گی۔ اگر آپ گزشتہ تین چار دہائیوں کی سیاست کا بغور مطالعہ کریں تک آپ کو احساس ہوگا کہ پاکستان کی ساری سیاست کی بنیاد ہی نفرت پر ہے۔ ہمارے لیڈروں اور روایتی حاکموں کے پاس عوام کو دینے کے لئے نفرت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے چنانچہ وہ بڑی محنت اور خلوص سے نفرت بانٹتے اور معاشرے کو محاذآرائی کا شکار کرکے تقسیم کرتے ہیں۔ میں ہر روز، ہر محفل اور ہر اجتماع میں سیاسی کارکنوں کو باہمی نفرت میں مبتلا دیکھتا ہوں تو سوچنے لگتا ہوں کہ دنیا بھر میں جمہوریت معاشرے میں ہم آہنگی، اتفاق رائے اور اتحادکی فضا پیدا کرتی ہے جبکہ ہماری جمہوریت کی بنیاد ہی ذاتیات، شخصیات اور باہمی نفرت پر ہے اور یہی وہ تحفہ ہے جو ہمارے لیڈران کارکنوں میں تقسیم کرتے اور قوم کو پیغام کی صورت میں بہم پہنچاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاستدان نفرت کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اسے ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ یا ہتھکنڈہ سمجھتے ہیں جبکہ اس طریقہ واردات سے معاشرے میں انتشار پھیلتا اور نفرت کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔
ہم جمہورت کیوں مانگتے تھے اور جمہوریت کی بحالی کے لئے قربانیاں کیوں دیتے تھے؟ پہلا مقصدتو عوامی مسائل کا حل تھا اور دوسرا مقصد صوبوں میں یگانگت اور ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنا اور معاشرے میں محبت اور اتحاد کو فروغ دینا تھا کیونکہ فوجی آمریت صوبوں کے درمیان نفرت کے بیج بوتی، قومی اتحاد کے جذبے پر ضرب لگاتی اور معاشرے کو احساس محرومی میں مبتلا کرتی ہے۔ جمہورت بحال ہوئے بلکہ جمہوری کاروبار سجے چار برس گزرے دیکھ لیجئے کہ ان چار برسوں میں کتنے عوامی مسائل حل ہوئے صرف لوڈشیڈنگ، کرپشن، بیروزگاری، غربت اور لاقانونیت اور اقربا پروری کا ذکر نہیں کررہا بلکہ میرے پیش نظر تھانہ کلچر، پولیس کارکردگی، لاء اینڈآرڈر یا امن عامہ، پٹواری کلچر اور مہنگائی جیسے مسائل بھی ہیں جن کا تعلق وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ہے۔ پی پی پی تو حکمرانی کے ایک سادے سے نسخے میں یقین رکھتی ہے اور اس پر خلوص نیت سے عمل کرتی ہے۔ وہ نسخہ ہے اقربا پروری، دوست نوازی، کارکن نوازی اور لوٹ مار کے یکساں مواقع فراہم کرنا تاکہ کارکن اور لیڈران اپنی اپنی استطاعت اور استعداد کے مطابق جیبیں بھر سکیں۔ ملک کی بڑی بڑی کارپوریشنیں، قومی ادارے اور محکمے دیکھ لیجئے آپ کو ہر جگہ جیالوں کی بھرمار ملے گی چاہے وہ ملازمت کے تقاضے پورے کرتے ہوں یا نہیں… ہر وفادار جہاں بیٹھا ہے اقتدارکی بہتی گنگا سے اپنے اپنے ظر ف اور ہمت کے مطابق جتنا ”زر“ پی سکتا ہے پی رہا ہے۔ کارپوریشن ، ادارے، محکمے یا سرکاری کارکردگی کا بیڑہ غرق ہو اس سے انہیں غرض نہیں وہ تو فقط ”بابر باعیش کوش کہ ”اقتدار“ دوبارہ نیست“ کے فارمولے پر عمل کر رہے ہیں۔ ویسے مجھے پیپلزپارٹی کی یہ ادا پسند ہے کہ اسے حکومت میں آنے کے بعد جیالوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ ان کے نزدیک ووٹ بنک کو پکا رکھنے کا یہی نسخہ ہے چنانچہ جب حکومت بدلتی ہے تو بے شمار لوگوں کو غیر قانونی تعیناتیوں کے سبب نوکریوں سے نکالا جاتا ہے۔ پھر نوکریوں سے نکلنے والے برسوں تک شام غریباں بپا رکھتے ہیں اور اپنی محرومیوں کا ماتم کرتے رہتے ہیں لیکن یہ کبھی تسلیم نہیں کرتے کہ ان کو اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا تھا۔
میں کہنا صرف یہ چاہتا تھا کہ موسم گرما کی آمد آمد ہے اور انتخابی میدان بھی گرم ہونے والا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے اور یقینا تسلی بخش نہیں۔ گزشتہ چار برسوں میں عام شہری کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور زندگی عذاب مسلسل کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ لیڈروں کے پاس نفرت تقسیم کرنے کے علاوہ اور کچھ ہے نہیں اوروہ اسی ہتھیار کو استعمال کرکے انتخابات جیتنا چاہتے ہیں۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔
کیکر تے انگور چڑھایا، ہر گچھا زخمایا
 

No comments:

Post a Comment