چالیس برس گزر چکے اور اس دوران کئی نسلیں پیدائش سے لے کر جوانی تک کے مراحل طے کر چکیں لیکن میرا زخم ہے کہ بھرتا ہے نہ مندمل ہوتا ہے۔ میرے لئے چالیس برس گزرنے کے باوجود سولہ دسمبر کا دن نہایت اداس اور غمناک ہوتا ہے اور میں دن بھر دعائیں مانگتا رہتا ہوں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ پاکستان کو پھر یہ دن کبھی نہ دکھائے۔ دل کہتا ہے انشاء اللہ ایسا کبھی نہیں ہو گا لیکن معروضی و سیاسی حالات، عالمی اور بین الاقوامی کرداروں اور روائتی دشمنوں کے ارادے دیکھتا ہوں تو کوئی انجانا سا خوف میرے دل کے صحن میں یوں اترنے لگتا ہے جیسے رات کی تاریکی آہستہ آہستہ میرے گھر کے صحن میں اترتی ہے۔ اس انجانے خوف کی تہہ میں اترنے کی کوشش کرتا ہوں تو قیادت کی نالائقیوں، قومی کوتاہیوں اور ناکامیوں کی داستانیں ہاتھ باندھے کھڑی نظر آتی ہیں تب یہ احساس شدت سے ذہن کی لوح پر تڑپنے لگتا ہے کہ ہماری بے حسی، نااہلی اور بدقسمتی کی حد ہے کہ ہم نے سولہ دسمبر 71ء سے کوئی سبق نہیں سیکھا، اپنے معاملات کی ذرا بھی اصلاح نہیں کی اور نہ ہی قومی تقاضوں کو عملی جامہ پہنانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ ہم وہی غلطیاں کئے جا رہے ہیں جبکہ دشمن ہوشیار ہے اور ہماری ناکامیوں سے فائدہ اٹھانا جانتا ہے۔ قوموں کی زندگی میں ایسے حادثات اور سانحات دوستوں دشمنوں کی پہچان کراتے اور قومی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن مجھے یوں لگتا ہے جیسے سقوط مشرقی پاکستان جیسے خوفناک ترین حادثے اور سانحے نے بھی ہماری آنکھیں نہیں کھولیں۔ آنکھیں نہ ظاہر کی نہ باطن کی… ہم یوں ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ میں نے تو دسمبر 71 کی جنگ بھی دیکھی، ملک کی قیادت اور یحییٰ خان کے رنگ بھی دیکھے لیکن ہماری نوجوان نسلیں تو سولہ دسمبر کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ ہمارے بزرگوں نے پاکستان بنتے دیکھا، ہم نے پاکستان ٹوٹتے دیکھا، ہماری نوجوان نسلوں کو پاکستان کو مضبوط و مستحکم بنتے دیکھنا چاہئے تھا لیکن ہماری بدقسمتی کہ وہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ میں پاکستان ٹوٹنے کا عینی شاہد بھی ہوں اور ایک طالب علم کی حیثیت سے اس پر غور اور تحقیق بھی کرتا رہا ہوں۔ میرے مطالعے کے مطابق اس سانحے کے بے شمار پہلو ہیں، ان گنت تاریخی محرکات ہیں، اس کے پس منظر میں جذبوں کی طلوع ہوتی روشن صبح سے لے کر مایوسیوں اور محرومیوں کی پھیلتی تاریکی تک سبھی شامل ہیں لیکن سیاسی، تاریخی، معاشرتی اور معاشی عوامل کے ساتھ ساتھ تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ مشرقی و مغربی پاکستان مذہبی یا سیاسی و جمہوری حوالے سے ایک قوم نہ بن سکے اور دوسری تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان نے اس بحران سے خوب فائدہ اٹھایا اور پھر فوجی قوت کے بل پر ملک توڑ دیا۔ ذرا غور کیجئے کہ اگر ہندوستان ہمارا ہمسایہ نہ ہوتا تو کیا ملک ٹوٹ جاتا؟ بحران ملکوں کی سیاست کا حصہ ہوتے ہیں، بحران سیلاب کی مانند آتے اور گزر جاتے ہیں لیکن یہ ہمارا ہمسایہ ہندوستان تھا جس نے پاکستان کو توڑنے کی منصوبہ بندی کی اور پھر اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گیا۔ البتہ یہ ہماری تاریخ کا ایک نہایت درد ناک اور عبرت ناک باب ہے کہ ہماری نالائق فوجی قیادت نے اپنی حماقتوں سے بحران پیدا کیا پھر اسے سنبھالنے اور سیاسی انداز سے حل کرنے میں ناکام رہی اور بالآخر ملک ٹوٹنے میں شریک ہو گئی۔ اگر اس وقت پاکستان سمجھدار سیاسی حکومت ہوتی جو سیاسی مسئلے کو فوجی آپریشن اور گولی کی بجائے سیاسی انداز سے حل کرنے کی کوشش کرتی تو ہندوستان اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہو سکتا لیکن یہاں تو عیاش جرنیل حکمران تھے جو سیاسی شعور کے فقدان کے سبب اپنی غلطیوں سے بالواسطہ ہندوستان کی مدد کرتے رہے اور ملک ٹوٹنے کا منظر دیکھتے رہے۔ ہم نے اتنے بڑے سانحے سے کیا سبق سیکھا؟ میں عرض کرتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے تاریخی، معاشی، سیاسی اور فوجی عوامل کو رہنے دیجئے کہ وہ تاریخ کا حصہ بن چکے سوچنے کی بات فقط اتنی سی ہے کہ قیام پاکستان کے پینسٹھ برس بعد اور سقوط مشرقی پاکستان کے چالیس برس بعد کیا ہم ایک قوم بن سکے ہیں؟ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ مشرقی و مغربی پاکستان ایک قوم نہ بن سکے، دونوں صوبے باطنی طور پر ایک دوسرے کا حصہ نہ بن سکے اور پھر سیاسی و معاشی محرومیوں کے سیلاب میں بہہ کر الگ الگ ہو گئے۔ کیا آج پاکستان کے چاروں صوبے باطنی طور پر ایک مستحکم قوم ہیں؟ اگر ہیں تو پھر سندھ کارڈ کہاں سے ابھرتا ہے اور بلوچستان میں آزادی کی تحریک کیونکر پروان چڑھ رہی ہے؟ خیبر پختونخوا کے کچھ علاقے ہم سے بیزار کیوں ہیں اور پنجاب گالی کا نشانہ کیوں بنا ہوا ہے؟ یہ سارے جراثیم، علامات اور آثار یہ راز فاش کرنے کے لئے کافی ہیں کہ ہم نے سانحہ سقوط مشرقی پاکستان سے کچھ نہیں سیکھا اور ہم آج بھی ایک قوم نہیں ہیں۔ میں کتابی سی بات لکھنے لگا ہوں لیکن کیا کروں کہ کتابیں سچ بولتی ہیں اور سچ ذرا کڑوا ہوتا ہے۔ کتابیں بتاتی ہیں کہ قوم کو باطنی طور پر متحد و مستحکم کرنے کے لئے مختلف قومیتوں، علاقائی اکائیوں اور لسانی ثقافتوں کو ایک قوم کے سانچے میں ڈھالنے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ سارے ملک کے عوام کو اقتدار میں شریک کیا جائے تاکہ انہیں احساس ہو یا ان میں احساس پیدا ہو کہ قومی مقدر بنانے یا بگاڑنے میں وہ بھی شریک ہیں، قومی تعمیر میں ان کا حصہ ہے، ملک چلانے میں وہ شامل ہیں اور وہ سب دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں یعنی ان کی خوشیاں اور غم سانجھے ہیں۔ قومیت کے اس احساس ا ور جذبے کو ابھارنے میں اہم ترین کردار سیاسی قیادت اور ملکی ڈھانچے کا ہوتا ہے۔ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم طویل عرصے سے ایسی بابصیرت قیادت سے محروم ہیں جو قوم کو اندرونی اور باطنی طور پر متحد و مستحکم بنانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ میں نے بہت سی حکومتیں اور رنگ برنگے حکمران دیکھے اور کسی بھی حکمران میں چاروں صوبوں میں بسنے والے عوام کو ایک قوم بنانے کا ویژن نہ دیکھا۔ ویژن تو دور کی بات ہے انہیں اس مسئلے کا احساس ہی نہیں تھا۔ کتابوں سے راہنمائی لینا ان کی عادت نہیں تھی اور انہیں عادت تھی ”ڈنگ ٹپاؤ“ پالیسیاں اپنانے، اقتدار کو انجوائے کرنے، دوستوں، عزیزوں اور پارٹی وفاداروں یا حواریوں کو عہدوں پر بٹھانے اور غیر ملکی دوروں کی اور شان و شوکت کی… کتابیں بتاتی ہیں کہ صرف مذہب علاقائی اکائیوں، مختلف ثقافتوں اور صوبائی کدورتوں کو قوم کے سانچے میں نہیں ڈھال سکتا لیکن مذہب قوم یکجہتی کے عمل میں بہت مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ بنیادی نقطہ صرف یہ ہے کہ ملک بھر کے عوام کو اقتدار میں شریک کیا جائے اور انہیں عملی طور پر تجربہ ہو کہ وہ قومی مقدر میں حصہ دار ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ سوات وزیرستان فاٹا کے علاقوں میں لوگوں پر قیامت گزر رہی ہو، سندھ میں سیلابوں نے قیامت برپا کر رکھی ہو، کراچی میں گولیاں چل رہی ہوں، بلوچستان سے لوگ اٹھا کر غائب کئے جا رہے ہوں، غیر بلوچیوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہو اور بلوچی سرداروں کے صاحبزادگان آزادی کی تحریکیں چلا رہے ہوں اور ملک و قوم کا ایک حصہ دوسرے سے لا تعلق، لاپرواہ اور ساری قوم عام طور پر بے حس۔ بھلا ایسا کیوں ہے؟ یہ اس لئے ہے کہ ہم میں ایک قوم ہونے کے احساسات و جذبات کی کمی ہے، ہم قومی دھارے سے الگ ہیں اور ہمارے قومی لاشعور اور سیاسی شعور کا دریا علاقائی ندیوں میں تقسیم ہو چکا ہے اور ہم نے اقبال کا بتایا ہوا وہ روشن اصول فراموش کر دیا ہے کہ # ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ کتابیں بتاتی ہیں کہ جب ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ نہ رہے تو ملت، ملت نہیں رہتی۔ انشاء اللہ اس موضوع پر آئندہ بھی گفتگو جاری رہے گی۔ فی الحال اسے کافی سمجھیں۔ آخر میں ایک وضاحت بھی کرنی ہے۔ میرا بدھ کے روز چھپنے والا کالم بات مکمل کئے بغیر اچانک ختم ہو گیا جس پر بہت سے حضرات نے ایس ایم ایس کئے اور چند ایک نے فون کئے۔ بدقسمتی سے اس کالم کی آخری آٹھ سطریں چھپ نہ سکیں اور کسی سبب رہ گئیں اس لئے کالم ادھورا لگا۔ میری دعا ہے آئندہ ایسا نہ ہو۔ |
Saturday, 19 May 2012
16/ دسمبر کا رستا زخم. December 17, 2011
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment