کچھ روز قبل میں نے ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا ”زندہ کتاب کا ایک ورق“ اور اس میں کشف المحجوب کا ذکر کیا گیا تھا جو کئی صدیوں سے مسلمانوں کے دلوں کو گرما رہی ہے اور لاکھوں صاحبان حق کے باطن میں روحانیت کے چراغ جلا رہی ہے۔ غور کیجئے کہ گزشتہ آٹھ دس صدیوں میں لاتعداد کتابیں لکھی گئیں لیکن ان میں سے آج کتنی موجود ہیں، کتنی پڑھی جاتی ہیں اور حوالے بنتی ہیں اور کتنی ایسی ہیں جو صدیوں کا سفر طے کرنے کے باوجود خواص و عام کی توجہ یا عقیدت کا مرکز بنی ہیں۔ بلاشبہ لکھا ہوا لفظ ضائع نہیں جاتا لیکن کتنے الفاظ ہیں جو ذہنوں کو متاثر کرتے، فکر کی راہ متعین کرتے اور زندگی کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ یونان والوں کو سقراط، ارسطو، افلاطون اور ان کی کتابوں خاص طور پر ”ریپبلک“ پر بڑا ناز ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج ان کتابوں کے فلسفے طویل سفر طے کرنے کے بعد اپنی شکل بدل چکے، سیاسی فلسفے کے میدان میں بنیادی تبدیلیاں آچکیں اور یوں یہ کتابیں محض پس منظر اور ماضی کا حوالہ بن کر رہ گئی ہیں جبکہ کشف المحجوب اور کیمیا ئے سعادت(امام غزالی) اور اس نوع کی کتابیں آج بھی اتنی ہی تازہ، برمحل اور کارآمد ہیں جتنی صدیوں قبل تھیں۔ اگر کسی شخص کا مرشد نہ ہو اور وہ اس کتاب کو خلوص نیت سے بار بار پڑھے تو یہ کتاب اس کے مرشد کا کام دے گی۔ یہ الفاظ کشف المحجوب کے بارے میں ہیں اور غور کیجئے کہ یہ الفاظ حضرت نظام الدین اولیاء کے ہیں جنہیں ”محبوب الٰہی“ کہا جاتا ہے اور جو اولیائے کرام میں بلند رتبے پر فائز ہیں۔ گویا یہ الفاظ سند کی حیثیت رکھتے ہیں شرط جستجو کا خلوص اور استقامت ہے۔ جستجو ، خلوص اور استقامت وہ کنجیاں ہیں جن سے راہ سلوک کے قفل اور تالے کھلتے ہیں۔ میں نے اس کالم میں ذکر کیا تھا کہ جب انسان مکمل طور پر رضائے الٰہی کے تابع ہو جاتا ہے اور اپنی ذات کی نفی کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے نوافل و عبادات میں مصروف رہتا ہے تو ایک وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا کان، آنکھ اور ہاتھ بن جاتا ہے۔ دو دوستوں نے وضاحت چاہی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ معاف کرے یہ قرآن مجید کا قولِ فیصل نہیں بلکہ حدیث قدسی ہے۔ حدیث قدسی اسے کہتے ہیں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی اتری ہو لیکن الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے ہوں۔ دراصل ان الفاظ میں معانی کا سمندر پنہاں ہے جنہیں مجھ جیسا گناہگار پوری طرح نہیں سمجھ سکتا کیونکہ ایسے معانی کا تعلق واردات قلبی سے ہوتا ہے۔ چنانچہ ممتاز ہستیوں کے الفاظ اور وضاحتوں کی طرف رجوع کر رہا ہوں۔ حدیث پاک ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو شخص میرے ولی کے ساتھ عداوت رکھتا ہے میں اس کے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میرا بندہ فرائض سے زیادہ اور کسی محبوب عمل کے ساتھ میرا تقریب حاصل نہیں کر سکتا، میرا بندہ نوافل پڑھ کر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو محبوب سمجھتا ہوں تو میں اس کا کان ہو جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے ، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے، اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو اس کو دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ حاصل کرے تو میں اس کو دیتا ہوں“۔ (بخاری ) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اس حدیث کا یہ مطلب بیان فرمایا کہ بندہ عبادت کے ذریعے جب اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے تو اللہ کا نور اس کو گھیر لیتا ہے پھر اسی کی برکت سے اس شخص سے ایسی چیزیں ظاہر ہوتی ہیں جو خلافِ عادت ہوتی ہیں۔ قرآن مجید میں متعدد مثالیں ملیں گی مثلاً ”اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کنکریاں تم نے نہیں، ہم نے پھینکی تھیں“ ۔ مولانا ادریس کاندھلوی فرماتے ہیں اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کو اللہ سے قرب حاصل ہوتے ہوتے اس درجہ شدید تعلق و محبت ہو جاتی ہے گویا وہ اللہ کی آنکھ و کان اور ہاتھ سے دیکھتا، سنتا اور کرتا (معاذ اللہ اتحاد یا حلول ثابت کرنا مقصود نہیں ہے)۔ شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نوافل کے ذریعے سے بندے کا اللہ جل شانہ سے قرب ہو جاتا ہے پھر تمام معاملات اس پر منکشف ہونے لگتے ہیں۔ علامہ خطابی فرماتے ہیں کہ میں اس بندہ پر ان افعال و اعمال کو آسان کر دیتا ہوں جن کا تعلق ان اعضاء سے ہے اور ان اعمال و افعال کے کرنے کی توفیق دیتا ہوں یہاں تک کہ گویا اعضاء ہی بن جاتا ہوں۔ (بحوالہ روضة الصالحین جلد اول ، صفحات 298-300) نوٹ فرما لیں کہ اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کے خلاف اعلان جنگ فرمایا ہے (1) سود (2) اللہ کے ولی سے عداوت۔ اس حدیث کا ذکر حضرت شیخ علی ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ نے بھی کشف المحجوب میں کیا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے ”حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ترجمہ) جس چیز کو میں نے بندے پر فرض کیا ہے اس کی ادائیگی کے بغیر میرا بندہ میرا قرب حاصل نہیں کر سکتا ہاں (فرائض کی ادائیگی کے بعد) نوافل کے ذریعے وہ میرا تقرب حاصل کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ میں بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو پھر میں ہی اس کے کان اور آنکھیں اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان بن جاتا ہوں ۔ (ترجمہ محمد طفیل ، صفحہ 312) واضح ہوا کہ یہ الفاظ قرآن کے نہیں لیکن پیغام یا وحی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچی۔ جن اولیاء کرام کو اللہ تعالیٰ کا قرب اور یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے ان کی فیوض و برکات جاری و ساری رہتی ہیں اور وہ ہستیاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اتنی عزیز ہوتی ہیں کہ اللہ ان سے عداوت رکھنے والوں کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے۔ |
Sunday, 20 May 2012
ایک وضاحت جو ضروری ہے May 08, 2012
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment