Saturday, 19 May 2012

نقطہ آغاز؟. January 28, 2012


تاریخ کا مطالعہ کریں تو احساس ہوتا ہے کہ ہر عہد کی اپنی پہچان اور یاد ہوتی ہے جو تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔ پاکستان کی 65سالہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لیاقت علی خان کے دور حکومت کی یاد مہاجرین کی آباد کاری، معیشت اور دفاع کی استواری، قرارداد مقاصد اور آئین سازی میں ناکامی کے گرد گھومتی ہے۔ خواجہ ناظم الدین کے دور حکومت کی پہچان خوراک کی قلت اور سول و ملٹری بیورو کریسی کا غلبہ ہے جبکہ ممتاز دولتانہ وزیراعلیٰ پنجاب کا دور حکومت اینٹی احمدیہ ایجی ٹیشن کی یاد دلاتا ہے۔ غلام محمد گورنر جنرل کے دور کی پہچان نظریہ ضرورت اور جمہوریت کی پامالی ہے اور چودھری محمد علی کی یاد 1956ء کے آئین سے وابستہ ہے۔ سکندر مرزا کی یاد کے ساتھ محلاتی سازشیں، سول ملٹری بیورو کریسی گٹھ جوڑ اور مارشل لاء کی آکاس بیلیں لپٹی ہوئی ہیں جبکہ ایوب خان کا دور جمہوریت کے قتل، صدارتی نظام حکومت، شہری آزادیوں کے انکار، معاشی استحکام و ترقی اور 1965ء کی جنگ کی یاد دلاتا ہے۔ یحییٰ خان کا شراب و کباب میں ڈوبا ہوا مارشل لاء امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر کی چین یاترا، انتخابات، مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن اور پھر دسمبر 1971ء کی لہولہان یادوں سے خون کی ندیاں بہاتا اور رلاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت روٹی کپڑا اور مکان، اسلامی سوشلزم، طبقاتی کشمکش، عوامی بیداری کی لہر، سیاسی مخالفوں پر جبر اور قتل اور نیشنلائزیشن (قومیانے) کی پالیسی سے عبارت ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور کی پہچان کوڑے، فوجی تسلط ، ریفرنڈم، آٹھویں ترمیم، اسلام کا نفاذ، افغان وار اور ہیروئن کلاشنکوف کلچر ہے جبکہ بے نظیربھٹو کا دور سازشوں، وفاق اور صوبے کے تصادم، سیاسی گھوڑوں کی خرید و فروخت اور کرپشن کی کہانی معلوم ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف کا دور موٹر وے، ایٹمی دھماکے، فارن ایکسچینج اکاؤنٹس کی ضبطی، فنانس کمپنیوں کے اسکنیڈلز، سیف الرحمن، آرمی چیف، چیف جسٹس اور صدر مملکت کی بے وقار رخصتی، منی لانڈرنگ، اقرباء پروری اور سپریم کورٹ پر حملے کی شیریں و تلخ یادوں کا مجموعہ ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا دور سیاسی مخالفوں سے انتقام و جلاوطنی، آئین کی پامالی، احتساب کے نام پر جوڑ توڑ، فوج کا بے پناہ سیاسی استعمال، جعلی ریفرنڈم و انتخاب، افتخار چودھری کا حرف انکار اور ججوں کی معزولی، مذہب کی تضحیک، لال مسجد کا قتل عام، سردار بگتی کا قتل، امریکہ کی غلامی اور افغانستان پر حملہ، این آر او، شراب و عیش عشرت اور میڈیا کی آزادی کی تلخ اور رنگین یادوں کے چراغ جلاتا ہے۔جناب صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی کا دور حکومت بے پناہ کرپشن، لوٹ مار، نااہلی و نالائقی، اقربا پروری و دوست نوازی، مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ، معیشت کی تباہی، اسامہ بن لادن اور بی بی کے قتل، ڈرون حملوں، خودکش حملوں، رحمان ملک، توہین عدالت، میمو گیٹ سکینڈل اور کرپٹ تقرریوں کی دردناک داستان ہے جو ہر روز ایک نئے سکینڈل کو جنم دیتی ہے جن میں حج سکینڈل، این آئی ایل سی، سٹیل ملز، رینٹل پاور ہاؤسز، پی آئی اے، مختلف مافیاز کی لوٹ کھسوٹ اور تازہ تازہ معمول کا سکینڈل خرم رسول شامل ہیں۔ اس دور کے اہم واقعات میں وکلاء تحریک، ججوں کی بحالی، اعلیٰ عدلیہ کی آزادی و مضبوطی، میڈیا کی آزادی، نیٹو سپلائی کی بندش، امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی، وزیراعظم کی پہلے حملہ کرنے اور پھر معافی مانگنے کی پالیسی، بی بی کے قاتلوں کی گرفتاری میں ناکامی اور این آر او کی تنسیخ ہے۔ تاریخ کا دھارا بہہ رہا ہے، نئے نئے واقعات و حادثات اپنے نقوش مرتب کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ لکھنے والے لکھتے رہیں گے، ظلم و زیادتی کا نشانہ بننے والے پستے رہے ہیں، لوٹ مار جاری رہے گی، غریبوں کی قیمت پر عیش و عشرت کے محلات تعمیر ہوتے رہیں گے اور اس طرح ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لئے تاریخی ورثہ چھوڑ جائیں گے جو ورثہ کم اور سانحہ زیادہ ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ اپنے 65سالہ ماضی پر نگاہ دوڑائیں تو ہماری تاریخ ناکامیوں، گڈ گورننس کی قلت، جمہوریت کے قتل، حکومتی نااہلیوں کے سبب معاشی تنزل، اخلاقی انحطاط، کرپشن، لاقانونیت، لوٹ کھسوٹ، ظلم و زیادتی، غربت، بالائی طبقوں کی من مانیوں، مختلف معاشی و سیاسی مافیاز، معاشرتی تقسیم اور سردمہری میں روز افزوں اضافے کی تاریخ ہے۔ بلاشبہ ہم نے ایٹم بم بھی بنایا ہے، موٹر ویز اور ہائی ویز بھی تعمیر کئے ہیں، کچھ نہ کچھ ڈیم بھی بنائے ہیں، دیہاتوں اور شہروں میں پکے مکانات اور محلات نما گھروں میں بھی اضافہ ہوا ہے، سائنسی زندگی کی جو سہولتیں ساٹھ برس قبل ناقابل تصور تھیں وہ آج دستیاب ہیں، آزادی کے وقت تعلیم کی شرح پندرہ سولہ فیصد تھی آج پچاس پچپن فیصد ہے، فی کس آمدنی بھی بڑھی ہے، میڈیا آزاد اور عدلیہ طاقتور ہوئی ہے، شہری آزادیوں کا شعور پھیلا ہے، تمام تر مشکلات کے باوجود نئی صنعتیں بھی لگی ہیں اور اس کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں ترقی بھی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے قومی افق پر مایوسی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں اور ہر نوجوان کی پہلی ترجیح ملک سے ہجرت ہے۔ جس نوجوان کو امریکہ، یورپ، یو اے ای، سعودی عرب، قطر، کویت یا کسی بھی ترقی پذیر معیشت میں جاب مل جاتا ہے وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہے اور ملک کی یاد میں بے چین رہنے کے باوجود واپسی کا نام نہیں لیتا۔ وہ یہاں نہ اپنا اور نہ اپنی آئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ سمجھتا ہے اور ملکی حالات پر کڑھتا رہتا ہے۔ پڑھا لکھا اور جوہر قابل امریکہ یورپ جاتا ہے تو گاؤں اور شہروں کے خاندان اپنی ساری جمع پونجی اور تھوڑی بہت جائیداد بیچ کر اپنے نیم خواندہ بچوں کو مزدوری کے لئے نزدیک یا دور دراز ملکوں میں قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے بھجوانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ اس جدوجہد میں بے شمار خاندان ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ کر عمر بھر کی کمائی بھی گنوا بیٹھتے ہیں اور بعض اوقات اپنے جگر پاروں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ ہر روز غیر قانونی ہجرت کرنے والوں کی گرفتاریوں، کشتیوں کے ڈوبنے، فائرنگ کے حادثات میں زندگی سے ہاتھ دھونے اور ایجنٹوں کے ہاتھوں تذلیل اور دھوکے کی خبریں شائع ہوتی ہیں لوگ پھر بھی دن رات اپنے نوجوان بچوں کو باہر بھجوانے کے خواب دیکھتے اور منصوبے بناتے ہیں۔ اسی لئے لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان ”مسائلستان“ بن چکا ہے۔ان مسائل کا تانا بانا الجھا ہوا ہے اور انہیں حل کرنا آسان بھی نہیں، ان مسائل پر قابو پانے کے لئے جس بصیرت افروز قیادت کی ضرورت ہے وہ فی الحال نظر نہیں آتی۔ شاید قوم بھی اپنی حالت بدلنے پر مائل نہیں۔یہ مایوسی کا نتیجہ ہے یا شعور کے فقدان کا کیا دھرا ہے؟ آپ خود فیصلہ کرلیں۔
خیال اپنا اپنا۔ مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ ان مسائل کے حل کا نقطہ آغاز کون سا ہو، ہم تعمیر، امید اور روشن مستقبل کا عمل کیسے شروع کریں تو میرا سوچا سمجھا جواب ہوگا کہ اس عمل کے آغاز کا نقطہ آغاز قانون کی حاکمیت، قانون کے مکمل نفاذ اور انصاف میں مضمر ہے۔ قانون کی حاکمیت ہی کو انصاف کی ضمانت حاصل ہوتی ہے اور قانون کی حاکمیت کے لئے ہمیں امریکی امداد کی ضروت ہے نہ مالی وسائل کی۔ اس کے لئے صرف مصمم ارادے اور خلوص کی ضرورت ہوتی ہے چاہے اس حوالے سے سرجیکل آپریشن کرنا پڑے۔ مجھے آج کے اکثر مسائل کی جڑوں میں قانون کی حاکمیت کے فقدان کے بیج نظر آتے ہیں۔ چاہے وہ کرپشن کے سکینڈلزہوں یا ڈینگی اور غیر معیاری ادویات کے سبب بے پناہ اموات۔ کالم کا دامن تنگ ہے انشاء اللہ اس پر آئندہ پھر کبھی لکھوں گا حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی۔


No comments:

Post a Comment