Saturday, 19 May 2012

قائد اعظم کا پاکستان۔چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی December 25, 2011


یوں تو ہماری قومی تاریخ سانحوں اور المیوں کی عبرتناک داستان ہے جن میں سب سے بڑا سانحہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی تھی لیکن اگر آپ اپنی تاریخ کا تجزیہ کریں تو ان سانحات کی جڑیں ایک ہی المیے میں پیوست نظر آتی ہیں اور وہ المیہ ہے قائد اعظم کے تصور پاکستان کو پس پشت ڈال دینا اور اسے عملی جامہ پہنانے سے گریز کرنا۔ قائد اعظم کے تصور پاکستان کو عملی جامہ پہنانا کیوں ضروری تھا؟ جواب سیدھا یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے قائد اعظم کے تصور پاکستان کے حق میں ووٹ دئیے تھے اور اس کے لئے تاریخی قربانیاں دی تھیں اس لئے ان کا تصور پاکستان قوم کی مقدس امانت تھی جس پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم پاکستان کو ایک مستحکم جمہوری اور خوشحال ریاست بناسکتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ قائد اعظم نے مسلمانان ہند و پاکستان کے سامنے پاکستان کا کیا تصور پیش کیا تھا اور ان سے کس پاکستان کے لئے قربانیاں مانگی تھیں۔ تحریک پاکستان کے منصفانہ مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قائد اعظم ایک اسلامی ماڈرن جمہوری اور فلاحی ریاست چاہتے تھے، یہی ان کا تصور پاکستان تھا اور اس کے لئے مسلمانوں نے قربانیاں دی تھیں۔ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل کوئی ایک سو بار سے زیادہ اور قیام پاکستان کے بعد کوئی چودہ مرتبہ کہا کہ وہ ایسی جمہوری ریاست کاخواب دیکھ رہے ہیں جس کے آئین، قانون اور ضابطے کی بنیاد اسلامی اصولوں پر ہوگی۔ جب وہ اسلامی اصولوں کی بات کرتے تھے تو خلافت راشدہ کا دور ان کا آئیڈیل ہوتا تھا کیونکہ بقول پروفیسر طوسی جو قائد اعظم کی دعوت پر چند ماہ ان کی ذاتی لائبریری میں کام کرتے رہے کہ قائد اعظم نے خلافت راشدہ کا گہرا مطالعہ کر رکھا تھا اور وہ حضرت عمر فاروق سے بہت متاثر تھے۔
ہمارے ہاں عملاً کیا ہوا اور کیا ہورہا ہے؟ اسلام سے تو ہماری وابستگی واجبی سی ہے ورنہ فرقہ واریت اور مذہبی تشدد کا ہمارے معاشرے میں وجود تک نہ ہوتا۔ ہم نے جمہوریت سے بھی وفا نہ کی جس کے نتائج ہولناک نکلے ۔ ہماری چونسٹھ سالہ تاریخ میں بتیس برس فوجی حکومتوں اور مارشلاؤں کی نذر ہوگئے اور جرنیلوں کی ہوس اقتدار کی بھنیٹ چڑھ گئے جس کے نتیجے کے طور پر ہم نہ صرف مشرقی پاکستان گنوا بیٹھے بلکہ دوسرے صوبوں کو بھی احساس محرومی میں جھونک دیا جبکہ اس کے عملی مناظر آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ بلوچستان کا مسئلہ دن بدن گھمبیر شکل اختیار کرتا جارہا ہے اور اس کی جڑیں فوجی طرز حکومت میں پیوست ہیں۔ افسوس کہ موجودہ جمہوری حکومت بھی اپنی نااہلی کے سبب بلوچستان کے قومیت پرستوں کو قومی دھارے میں نہیں لاسکی۔ میرے نزدیک یہ قیادت کی ناکامی ہے یا پس پردہ غیر جمہوری قوتوں کے دباؤ کا شاخسانہ ہے ورنہ سیاسی قیادت ہی قومیت پرستوں کو قومی دھارے میں ضم کرنے کی اہل ہوتی ہے۔ دراصل ہماری”عظیم ترین“ غلطی اور ناکامی قیام پاکستان کے فوراً بعد دستور سازی میں ناکامی تھی۔ قائد اعظم نے بحیثیت گورنر جنرل پاکستان کئی باراعلان کیا کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی ایک ایسا جمہوری دستور تشکیل دے گی جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر ہوگی لیکن بدقسمتی سے ان کی عمر نے وفا نہ کی اور ان کے جانشین سیاسی گٹھ جوڑ میں الجھ کر رہ گئے۔ لیاقت علی خان بھی اگر کچھ عرصہ مزید زندہ رہتے تو شاید ہم اس ناکامی سے بچ جاتے لیکن اکتوبر 1951ء میں لیاقت علی خان کی شہادت نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور پھر ہمارے سیاستدان محلاتی سازشوں میں مصروف ہو کر دستور نہ بناسکے،اگر پاکستان اپنی زندگی کے اولین برسوں میں دستور بنالیتا اور اس دستور کے تحت سارے صوبوں میں انتخابات ہوجاتے اور نئی قومی اسمبلی نئے مینڈیٹ کے ساتھ معرض وجود میں آجاتی تو کسی نہ کسی طرح جمہوریت کی گاڑی چلتی رہتی اور فوج کو اقتدار پر شب خون مارنے کا موقع نہ ملتا۔ جمہوری عمل کے جاری و ساری رہنے کی صورت میں نہ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوتا اور نہ ملک میں آمرانہ قدریں نشو و نما پاتیں۔ قائد اعظم جب انسانی مساوات اور سماجی ومعاشی عدل پر زور دیتے تھے تو ان کے پیش نظر قانون کی حکمرانی کا تصور ہوتا تھا۔ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل کئی موقعوں پر واضح کیا تھا کہ پاکستان میں جاگیرداری اور فیوڈل ازم کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ ایک موقع پر تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ انہیں جاگیرداروں اور وڈیروں کا پاکستان نہیں چاہئے۔
ہندوستان نے1949ء میں زرعی اصلاحات کرکے ملک میں جاگیرداروں کی کمر توڑ دی جبکہ پاکستان میں دستور سازی میں تاخیر، نئے انتخابات کے التوا اور جاگیرداروں کی سیاسی گرفت نے زرعی اصلاحات نہ ہونے دیں اور قائد اعظم کے انتقال کے بعد جاگیردار ، وڈیرے اور فیوڈل لارڈ پاکستان کی سیاست اور اقتدار پر قابض ہوگئے۔ قیام پاکستان سے قبل یہ دولت مند بااثر طبقے انگریز حکومت کے ستون اور پشت پناہ تھے اور قیام پاکستان کے بعد یہ لوگ وفاداریاں بدل کر ہر مقتدر قوت کا ساتھے دیتے رہے۔ نتیجے کے طور پر پاکستان پر آج بھی جاگیردارانہ سوچ کی گرفت مضبوط ہے چنانچہ قانون کی حکمرانی اور انسانی مساوات کے تصورات65برس بعد بھی تشنہ تکمیل ہیں۔ عملی طور پر آج کے پاکستان میں کسی غریب آدمی کا سیاسی سیڑھی چڑھ کر اقتدار تک پہنچا ناممکن ہے چاہے وہ کتنا ہی اہل اور ایماندار کیوں نہ ہو، اسی طرح آج کے پاکستان میں امیر آدمی کے لئے قانون کچھ اور ہے اور غریب شہری کے قانون کچھ اور…بااثر طبقات ملکی وسائل پر قابض ہیں جبکہ عام شہری غربت کی چکی میں پس رہا ہے، درحقیقت یہ سب کچھ قائد اعظم کے تصور پاکستان کی نفی ہے کیونکہ انہوں نے یہ ملک مانگا اور بنایا ہی عام مسلمانوں کی فلاح، ترقی اور خوشحالی کے لئے تھا جبکہ طاقتوروں نے عام شہریوں کو آزادی کے ثمرات سے محروم کر رکھا ہے۔
قائداعظم کے تصور پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہونا تھا اور مذہبی رواداری کا دور دورہ جبکہ موجودہ پاکستان میں قائد اعظم کے وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے اقلیتوں کو سماجی انصاف سے محروم رکھا جارہا ہے اور مذہبی رواداری کی جگہ فرقہ واریت اور مذہبی تشدد نے لے لی ہے۔
قائد اعظم  گورنر جنرل بنے تو ان کے ایک رشتے دار انہیں ہندوستان سے ملنے آئے۔ باتوں ہی باتوں میں انہوں نے پاکستان میں ہجرت کرنے کا عندیہ دیا اور کہا کہ انہیں گورنر جنرل کی رشتہ داری کے سبب سرکاری محکموں سے لائسنس لینے اور کاروبار کرنے میں سہولت رہے گی۔ قائد اعظم نے انہیں فوراً پاکستان آنے سے منع کردیا۔ قائد اعظمکی گیارہ اگست1947ء کی تقریر کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے اور سیکولر حضرات اس سے من پسند مفہوم نکالتے ہیں لیکن اس تقریر کے دوسرے روشن نقاط ہماری توجہ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس تقریر میں جہاں قائد اعظم نے پاکستان میں کرپشن، رشوت خوری اور سفارش کلچر کے خاتمے کے ارادے کا اظہار کیا تھا وہاں ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا اعلان کیا تھا۔قائد اعظم کے ان فرمودات کے برعکس آج کے پاکستان میں سفارش کلچر اس قدر غالب ہے کہ کوئی کام بغیر سفارش نہیں ہوتا چاہے وہ کس قدر جائز ہو۔ سفارش کلچر نے غریب اور محروم طبقوں کو احساس محرومی کی دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ ذخیرہ اندوزی کا یہ حال ہے کہ پاکستان میں شوگر مافیا، سیمنٹ مافیا، آٹا مافیا اور نہ جانے کتنے ہی مافیاز معرض وجود میں آچکے ہیں جن کے سامنے حکومت بے بس ہے۔ وہ اپنی مرضی سے قلت پیدا کرتے اور قیمتیں بڑھاتے ہیں۔ اس طرح عام شہری مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ گیارہ اگست1947ء کی تقریر میں قائد اعظم نے کرپشن کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تھا جبکہ آج پاکستان پر کرپشن کا راج ہے ۔حج سکینڈل، این ایل آئی سی سیکنڈل، پنجاب بنک سیکنڈل، سٹیل ملز اور پی آئی اے جیسے قومی اداروں میں کروڑوں اربوں کی کرپشن نے قوم کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ کوئی دن نہیں گزرتا کہ کرپشن کا کوئی میگا سکینڈل سامنے نہ آتا ہو اور ان میں حکمرانوں کے ملوث ہونے کی خبریں نہ پھیلتی ہوں۔ مذہبی تشدد، کرپشن، بدامنی اور لاقانونیت نے نہ صرف ملک کی بنیادیں ہلا دی ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کے وقار بھی کو داغدار کردیا ہے اور دنیا بھر میں پاکستانیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔ ایک طرف غربت اور مہنگائی کا خوفناک طوفان ہے تو دوسری طرح ہمارے شاہ خرچ مغل شہزادے حکمران ہیں جن کا خرچہ کروڑوں اربوں روپوں میں ہے۔ قائد اعظم شدید علالت کے سبب زیارت میں قیام پذیر تھے تو ان کے معالج ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش نے لاہور سے ایک اچھا باورچی منگوایا۔
قائد اعظم نے اس کا پکایا ہوا کھانا رغبت سے کھایا اور پوچھا کہ کھانا کس نے پکایا ہے۔ پتہ چلنے پر انہوں نے باورچی کا تمام خرچہ اپنی جیب سے ادا کیا۔ اس کے برعکس ہمارے موجودہ حکمران قومی دولت کو پانی کی طرح خرچ کرتے ہیں اور قومی خزانے کو ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں۔ مختصر یہ کہ موجودہ پاکستان بدقسمتی سے وہ پاکستان نہیں جس کا تصور قائد اعظم نے پیش کیا تھا اور جس کا خواب مسلمانان ہند نے دیکھا تھا۔یقین رکھیئے کہ پاکستان اس وقت تک ایک مستحکم خوشحال اور اسلامی جمہوری ملک نہیں بن سکتا جب تک ہم اسے قائد اعظم کا پاکستان نہیں بناتے۔ گویا ہم نے زمینی پاکستان تو حاصل کرلیا ہے لیکن وہ نظریاتی پاکستان ابھی حاصل کرنا باقی ہے جس کا تصور قائد اعظم نے دیا تھا۔
چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی

No comments:

Post a Comment