یہ چند ماہ قبل کی بات ہے ایک ایرانی فیملی خاصے عرصے سے دبئی کے ایک پوش فلیٹ میں رہ رہی تھی۔ فیملی کا سربراہ ایک ہفتے کی چھٹی پر ایران گیا۔ اور پیچھے اپنی بیوی اور بچوں کو چھوڑ گیا۔ ایک روز ماں بیٹی کو اسکول چھوڑنے گئی اور چھوٹے بچے کو گھر چھوڑ گئی۔ بچہ کھیلتے کھیلتے کھلی کھڑکی پر چڑھ گیا اور پھرعمارت سے نیچے گر کر ہلاک ہو گیا۔ ماں واپس آئی تو اچانک صدمے سے نیم پاگل ہو گئی پھر لوگوں نے دیکھا کہ اس ماں نے اسی کھڑکی سے نیچے چھلانگ لگا دی جس سے گر کر اس کا بیٹا مرا تھا۔ تھوڑی سی دیر میں ماں بیٹا دونوں اللہ کو پیارے ہو گئے، ماں کی روح بیٹے کی تلاش میں آسمانوں پر چلی گئی اور ہنستا کھیلتا گھرانہ اجڑ گیا۔ امریکہ میں ایک مشہور این جی او ہے جس کا سربراہ جانا پہچانا خوشحال انسان ہے۔ نام اس کا بھول گیا ہوں۔ اس کی ماں نے اسے موت سے پہلے جو خط لکھا وہ بھی ماں کی محبت کا نادر اور اٹل نمونہ ہے۔ اس نے لکھاکہ تم ساری زندگی میرے بدشکل چہرے سے نفرت کرتے رہے ہو اور مجھے علم ہے کہ تم میرے چہرے کی طرف دیکھنے سے اجتناب کرتے تھے کیونکہ میری ایک آنکھ نہیں تھی اور اس محروم آنکھ میں ایک گہرا گڑھا تھا جس نے مجھے بدصورت بنا دیا تھا۔ میرا چہرہ تمہیں بدصورت لگتا تھا جس کا اظہار تمہاری حرکات سے ہوتا رہتا تھا۔ اب مرنے سے پہلے میں تمہیں ایک راز بتانا چاہتی ہوں اور وہ راز یہ ہے کہ تم ابھی بچے ہی تھے کہ تمہاری ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی جس نے تمہیں بدصورت بنا دیا تھا۔ مجھے یہ احساس ہر لمحہ تڑپاتا تھا کہ تم عمر بھر نہ صرف ایک آنکھ کی بینائی سے محروم رہو گے بلکہ لوگ تمہارے چہرے کی طرف بھی دیکھنا پسند نہیں کریں گے، چنانچہ میں نے اپنی ایک آنکھ تمہیں دے دی تاکہ تمہاری دنیا روشن، آباد اور خوشیوں سے بھری رہے اور خود کو ”یک چشمی“ بنا کر بدصورت بنا لیا، اس قدر بدصورت کہ تم بھی میرے چہرے سے آنکھیں چراتے تھے لیکن مجھے اس سے ہرگز ملال نہیں ہوتا تھا۔ میری خوشی اور قلبی تسکین کی انتہا یہی تھی کہ تم مجھے دونوں آنکھوں سے دیکھو۔ میری روحانی مسرت اسی میں تھی کہ میرا بیٹا بدصورتی سے بچ گیا تھا۔ کل کی بات ہے کہ روحیفہ بی بی ہمارے سنگدل اور قانون سے آزاد یعنی لاقانون معاشرے سے ہمیشہ کے لئے روٹھ کر اپنے رب کے پاس چلی گئی جہاں وہ فریاد بھی کرے گی اور اس کی فریاد آسمانوں کو چیرتی ہوئی مالک حقیقی کے پاس بھی پہنچے گی۔ انصاف کا ایک دن مقرر ہے، اسی روز ہر مظلوم کو انصاف ملے گا لیکن یقین رکھئے کہ یوم انصاف سے قبل ہماری آنکھوں کے سامنے عبرت کی کہانیاں جنم لیتی رہیں گی۔ یہ نہیں ہو سکتا، ہرگز ممکن نہیں کہ کوئی ظلم کی انتہا کرے، کسی معصوم کی جان لے لے، کسی کا گھر اجاڑ دے، کسی بیگناہ کے جسم کے ایک ایک حصے کو ٹارچر کی سولی پر چڑھا دے اور پھر عبرت کا سامان بھی نہ بنے۔ ایک انتقام انسان کا ہوتا ہے اور دوسرا انتقام قدرت کا۔ انسان کا انتقام جادو ہے جو سر پر چڑھ کر بولتا ہے جبکہ قدرت کا انتقام خاموش ہوتا ہے اور عبرت کی کہانیوں کو جنم دیتا ہے۔ کبھی یہ انتقام ایک شخص تک محدود رہتا ہے اور کبھی کبھی آئندہ نسلوں تک پھیل جاتا ہے اور ہاں، اس کی لامحدود شکلیں ہوتی ہیں جنہیں دیکھا بھی جا سکتا ہے اور محسوس بھی کیا جا سکتا ہے لیکن شرط غورو فکر ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب، تہہ در تہہ اور راز و نیاز میں لپٹا ہوا سلسلہ ہے جسے سمجھنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہ ہمارے انصاف کے پیمانوں کی خلاف ورزی ہے لیکن قدرت کے اپنے پیمانے اور اپنے انداز ہیں جن پر ہمارا بس نہیں چلتا۔ روحیفہ بی بی کے تین بیٹے تھے عبدالصبور، عبدالماجد اور عبدالباسط، تینوں خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں تھے جس کی تفصیل اخبارات میں چھپ چکی اس لئے اسے دہرانے کا کیا فائدہ؟ عبدالصبور زیرحراست چل بسا۔ ان بچوں کی ماں پانچ سال تک عدالتوں کی خاک چھانتی رہی اور انصاف کے لئے دہائیاں دیتی رہی۔ ظاہر ہے کہ وہ اکیلی ماں نہیں تھی جس کے جواں بیٹے خفیہ ایجنسیوں کے مہمان تھے، ہمارے اندھے معاشرے میں لاتعداد مائیں انصاف کی بھیک مانگ رہی ہیں اور لاتعداد بیویاں اپنے اٹھائے گئے گمشدہ خاوندوں کی تصویریں سینوں سے لگا کر احتجاج بھی کر رہی ہیں اور عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹا رہی ہیں۔ اسلام آباد میں محترمہ آمنہ مسعود جنجوعہ کی سربراہی میں بہت سے خاندان طویل عرصے سے اپنے گمشدہ پیاروں کی یازیافت کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کے مطابق سولہ سو افراد کو غائب کرکے ان کے خاندانوں کو ”وچھوڑے کے درد“ میں مبتلا کیا گیا ہے۔ بلوچستان میں صورتحال دل کا خون کرنے والی ہے کہ اب تک 286 خاندانوں کو ان کے پیاروں کی مسخ شدہ لاشوں کے تحفے دیئے جا چکے ہیں۔ روحیفہ بی بی اپنے بیٹے عبدالصبور کا غم برداشت کر گئی لیکن ظاہر ہے کہ نوجوان بیٹے کی بے وقت موت نے اسے توڑ پھوڑ کر چکنا چور کر دیا تھا۔ چند روز قبل سپریم کورٹ کے حکم پر جب خفیہ ایجنسیوں نے قیدی عدالت میں پیش کئے تو ان میں روحیفہ بی بی کے جگر کے ٹکڑے عبدالماجد اور عبدالباسط بھی تھے۔ سپریم کورٹ کے جج حضرات بھی ان قیدیوں کی حالت زار پر دل ہی دل میں آنسو بہائے بغیر نہ رہ سکے اور روحیفہ بی بی اپنے بیٹوں کے صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔ موت برحق سہی لیکن موت کا سبب بننے والوں کو بہرحال اس کا جواب دینا پڑے گا۔ اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی… روحیفہ بی بی تو انصاف مانگنے اپنے رب کے پاس چلی گئی لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ وہ مائیں زندہ ہیں جن کے بے گناہ بچے اٹھائے جا چکے ہیں تو آپ کو غلط فہمی ہے۔ وہ مائیں زندہ نہیں بلکہ چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔ نہ زندہ اور نہ مردہ۔ ان میں کتنے گناہگار ہیں اور کتنے بے گناہ… میں نہیں جانتا لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ قدرت بے بس مظلوم کے ساتھ روا رکھے گئے ظلم کا خود انتقام لیتی ہے چاہے وہ ظلم اغوا اور قتل برائے تاوان کا ہو، پولیس ٹارچر سے ہلاکت کا ہو، جعلی دوائی کا ری ایکشن ہو، یتیم یا بیوہ کی جائیداد ہتھیانے کا ہو یا خفیہ ایجنسیوں کی زیرنگرانی قتل و غارت کا ہو۔ |
Sunday, 20 May 2012
درد وچھوڑے دا February 18, 2012
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment