ڈرامہ اس وقت تک ہوتا ہے جب تک اس کی اصل اور حقیقت بے نقاب نہ ہو۔ جب سچ سامنے آجائے تو ڈرامہ حقیقت بن جاتا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت تک ڈرامہ تھا جب تک جنرل مائیک مولن کے کمزور حافظے نے اس پردہ ڈالا ہوا تھا لیکن جب بقول اس کے اپنے اسے پرانے خطوط میں سے منصور اعجاز کا بھیجا ہوا خط مل گیا اور اس نے تسلیم کرلیا کہ ہاں اسے خط موصول ہوا تھا جسے میمو کہا جارہا ہے تو پھر اس پرنالے کا ر خ پاکستانی سفیر حسین حقانی اور منصوراعجاز کی طرف مڑ گیا کیونکہ اب صرف یہ طے کرنا باقی ہے کہ خط کس کے کہنے پر لکھا گیا اور اس کا مقصد کیا تھا؟ خط کیا تھا، اس کی تفصیلات جنگ میں شائع ہوچکی ہیں۔ باقی باتوں کے علاوہ میں ابھی تک اس مخمصے میں مبتلا ہوں کہ جنرل مولن نے اس خط کا انکار کرنے کے بعد دوبارہ اس کا اعتراف کیوں کیا؟ چھ ماہ پرانی بات کو اس موقع پر کیوں سامنے لایاگیا؟ میں ہرگز سازش تھیوری کا قائل نہیں لیکن جب کوئی دھماکہ ہو تو سوچنا پڑتا ہے کہ اس کے پس پردہ محرکات اور مقاصد کیا ہوسکتے ہیں کیونکہ دنیا میں کوئی دھماکہ بھی بلامقصد نہیں ہوتا اور نہ ہی لوگ بلامقصد خواہ مخواہ اپنے لئے خطرات مول لیتے ہیں۔ اسی سوال کا شاخسانہ یہ بھی ہے کہ منصور اعجاز نے یہ خط اُسامہ آپریشن کے بعد بھیجا، وہ آج تک اس بارے خاموش کیوں رہا؟ جنرل مولن کے اعتراف پر مجھے قدرے حیرت اس لئے ہوئی کہ ان کے صدر زرداری سے تعلقات کو دوستانہ اور قابل بھروسہ کہا جاسکتا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ زرداری حکومت نے ریمنڈ ڈیوس سے لے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اُسامہ آپریشن تک ہر طرح امریکہ کی بے حد خدمت کی ہے۔ امریکی حکومت کے اگر کچھ اختلافات ہیں تو وہ فوج سے جو ان کے دباؤ اور دھمکیوں کے باوجود حقانی نیٹ ورک کے خلاف یلغار نہیں کر رہی اور ان کے کئی اور مطالبات کو التوا میں رکھے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے کہ اس خط اور اس سے وابستہ سازش کے منظرعام پر آنے سے دھچکا زرداری حکومت کو لگا ہے اور خطرات بھی زرداری حکومت کو لاحق ہیں کیونکہ اس قضیئے میں فوج ”مظلوم“ اور حکومت ”ظالم“ بن کر ابھری ہے۔ مطلب یہ کہ اگر اس سازش کا بھانڈہ پھوٹنے کے بعد فوج اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی ہے تو لوگوں کی ہمدردیاں مظلوم کے ساتھ ہوں گی نہ کہ اپنی ہی فوج کے خلاف سازش کرنے والوں کے ساتھ… آئین کے سیکشن چھ کو رہنے دیجئے کہ وہ محض ایک نمائشی سیکشن ہے جس کا مقصد فقط فوجی مداخلت کے راستے میں نفسیاتی رکاوٹ کھڑا کرنا تھا اس لئے اس کا اطلاق اب بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کے تحت اس سازش کے کرداروں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ اگر سیکشن چھ موثر اور قابل عمل سیکشن ہوتا تو جنرل ضیاء الحق کی باقیات سے لے کر جنرل مشرف تک کسی پر تو لاگو ہوتا۔ جنرل ضیاء الحق کسی بھی اقدام سے پہلے اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن انہوں نے جن جرنیلوں اور ججوں کی حمایت سے حکوت الٹنے کا کارنامہ سرانجام دیا تھا وہ تو بینظیر حکومت کے بعد دندناتے پھرتے تھے۔ بینظیر حکومت میں جرأت ہوتی تو ان کے گریبان پر ہاتھ ڈالتی۔ جنرل مشرف کو سرخ قالین پر گارڈ آف آنر دینے کے بعد کیا پیغام دیا گیا؟ یہی نا کہ کوئی مائی کا لال ہمیں چھو نہیں سکتا۔ چلئے لال مسجد اور سردار بگٹی کا قاتل ملک سے فرار ہو چکا ہے لیکن اس کے ساتھی تو پاکستان میں عیش کر رہے ہیں جنہوں نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ کیا جمہوری حکومت کے چاربرسوں میں کسی نے انہیں کٹہرے میں لانے کی کوشش کی ہے؟ بالکل نہیں۔ بلکہ وہ مسلم لیگ (ن) جو مشرف کی غداری کا نشانہ بنی تھی اور شریک ِ اقتدار بھی رہی، اس نے بھی زبانی جمع خرچ کے علاو ہ کچھ نہیں کیا۔ سو دوستو! یہ بات طے ہو چکی کہ کبھی بھی کوئی جنرل آئین کے سیکشن چھ شکنجے میں نہیں آئے گا۔ البتہ یہ بات طے نہیں کہ کیا اس کا اطلاق سویلین پر بھی ہوسکے گا یا نہیں؟ میرا خیال ہے کہ تاریخ نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں دیا۔ اصل بات تو طاقت کی ہے اور فیصلے طاقت کرتی ہے۔ ہماری سپریم کورٹ متحرک ہونے کے بعد خود نوٹس لینے کی عادی ہوچکی ہے۔ ظاہر ہے کہ جنرل مولن کو لکھا گیا خط بے شمار مضمرات کا حامل ہے اور وطن سے غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لئے اگر کسی وقت یہ مسئلہ سپریم کورٹ میں چلا گیا یا خود آگیا تو پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ بات دور نکل گئی۔ میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ ڈپلومیسی اور بین الاقوامی سیاست میں مصلحت، منافقت اور جھوٹ کامیاب ہتھیار سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارے سامنے ہر روز امریکی، یورپی اور ہندوستانی حکمران، سیاستدان اور ڈپلومیٹ بڑی ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان کے دورے کے دوران امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ کلنٹن نے اسی خط کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرکے سفید جھوٹ پولا تھا کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ اتنا اہم میمو جنرل مائیک مولن کو ملا ہو اور وہ صدر اوباما یا سیکرٹری آف اسٹیٹ کے علم میں نہ لایا گیا ہو خاص طور پر جب مولن صدر زرداری کے حوالے سے خط کے مندرجات کی تصدیق بھی کرچکے تھے۔ اگر امریکی حکومت پاکستانی حکومت کو مشکل سے بچانا چاہتی تو جنرل مولن اپنے گزشتہ بیان پرقائم رہتے کہ انہوں نے ایسا کوئی میمو نہیں دیکھا۔ بات دب جاتی لیکن جنرل مولن نے اچانک اس کا اعتراف کرکے پاکستانی فوج اور حکمرانوں کے درمیان ایسی دراڑ اور خلیج پیدا کردی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔ جس کے نتائج خطرناک نکل سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس موقع پر اس سچ اور اعتراف کی ضرورت کیوں درپیش آئی۔ فوج اپنے طور پر تحقیق کرکے اس نتیجے پر پہنچ چکی کہ خط لکھا گیا تھا اور اس نتیجے تک پہنچنے میں منصور اعجاز کے کمپیوٹر ریکارڈ اور اس کے موبائل فون پر آنے والے پیغامات اور گفتگو نے مدد کی کیونکہ ان کے ساتھ پیغا م بھیجنے والے کا نمبر بھی ہوتا ہے۔ علمی بحث و مباحثہ کے لئے صرف ایک نقطہ وضاحت طلب رہ گیا ہے کہ کیا یہ خط حسین حقانی نے خود لکھا تھا یا صدر صاحب کے حکم کے تحت لکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس سے حسین حقانی کا کوئی مفاد وابستہ نہیں اور وہ کبھی بھی ایسا خط اپنے طور پر لکھنے کی حماقت نہیں کرسکتا تھا۔ حسین حقانی نہایت ذہین انسان اور کامیاب ڈپلومیٹ ہے اس نے واشنگٹن میں پاکستان کا موثر دفاع کیا ہے اور قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ وہ سفیر نہ بھی رہے تو کسی اہم امریکی یونیورسٹی میں درس و تدریس میں مصروف ہو جائے گا۔ البتہ اس نے راستہ غلط منتخب کیا کیونکہ منصور اعجاز کے پس منظر کے پیش نظر اس طرح کی اہم مہم جوئی میں اسے شامل کرنا غلطی تھی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجبوری ہو کیونکہ اس طرح کا گیم پلان سوچ سمجھ کر بنایا جاتا ہے اور ہر طرح کے امکانات پر غور کیا جاتا ہے۔ جب محفوظ راستہ دستیاب نہ ہو تو پھر رسک لینا پڑتا ہے۔ سفیر کاخود مولن کو خط دینا بڑا رسک تھا اس لئے منصوراعجاز کو چھوٹا رسک سمجھا گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ چار فوجی حکومتوں نے اس ملک کی چونسٹھ سالہ تاریخ میں 33 برس سے زیادہ حکومت کی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر جمہوری وسیاسی حکومت نفسیاتی طور پر فوج کے خطرے میں مبتلا رہتی ہے اورفوجی مداخلت سے محفوظ رہنے کی تدابیر کرتی رہتی ہے۔ ان تدابیر کی حکمت عملی میں ایک اہم فیکٹر امریکہ ہے جو طویل عرصے سے ہمارے معاملات میں ملوث ہے۔ بھٹو بھی اس ”ہاتھی“ سے ڈرتا تھا اور صدر زرداری کے این آر اوکی طرح بینظیر بھٹو کے 1989ء میں اقتدار میں آنے کی شرائط بھی امریکہ نے ہی طے کروائی تھیں۔ جب وزیراعظم نواز شریف کو جنرل مشرف سے خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے بھی میاں شہباز شریف کو واشنگٹن بھجوا کرفوجی مداخلت کے خلاف بیان دلوایا تھا صدر زرداری صاحب بھی جب سے اقتدار میں آئے ہیں وہ فوج کو موافق بنانے اور اس خطرے سے عہدہ برآ ہونے کی ترکیبیں سوچتے رہے ہیں کیونکہ آئی ایس آئی کے پاس سارے سیاستدانوں کا ”کچا چٹھا“ موجود ہے ۔ حکومت کی تشکیل کے بعد آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنا اسی سمت میں ایک اقدام تھا جو ناکام ہوگیا کیری لوگر بل میں کچھ ایسی شرائط رکھوائی گئیں جس سے ملک کے اقتدار اعلیٰ اورفوج کی ساکھ پر نہ صرف سیاہ سائے پڑتے تھے بلکہ فوج کی آزادانہ کارروائی پربھی قدغن لگتی تھی اس وقت بھی تاثر یہی تھا کہ یہ شرائط ہمارے حکمران نے واشنگٹن میں سفیر کے ذریعے رکھوائی ہیں اس سے حکومت اورفوج کے درمیان فاصلے بڑھے جنہیں جنرل کیانی اور جنرل پاشا کی ملازمت میں توسیع کرکے ختم کرنے کی کوشش کی گئی اسی پس منظر میں موجودہ خط کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور شکوک و شبہات حقیقت کا روپ دھارتے نظر آتے ہیں جوڑ توڑ، ہوشیاری اور چالاکی ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) کی حد تک تو کامیابی سے کام دکھاتی نظر آتی ہے کیونکہ ان ساتھیوں کی اپنی مجبوریاں ہیں لیکن فوج کے حوالے سے یہ ”ذہانت“ شاید کام نہ آسکے اس بار تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے : ”خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا“۔ | |
Saturday, 19 May 2012
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا.. November 20, 2011
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment