Saturday, 19 May 2012

خوابوں کا شیر. November 19, 2011


میں کل والے کالم میں جو بات کہنا چاہتا تھا اسے سادہ الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہر نوجوان نسل کا اپنا غصہ ہوتا ہے اور وہ غصہ ملکی نظام اور بے انصافی کے خلاف ہوتا ہے،اس لئے اس سے گھبرانے ،اس پر ناک بھوں چڑھانے یا جوابی غصے کے تیر مارنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ نوجوانی خوابوں کا دور ہوتا ہے اور ہر نوجوان بہتر نظام، بہتر مستقبل اور بہتر دنیا کے سہانے خواب دیکھتا ہے۔ بے انصافی ،آمریت اور پابندیوں کے خلاف اس کا خون جوش مارتا ہے اور وہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر گریباں چاک کرکے سڑکوں پر نکل آتا ہے اگر ان حالات میں ملک کو اچھی، اہل اور کرشمہ ساز قیادت میسر ہو تو وہ نوجوانوں کی صلاحیتوں ،جوش و خروش اور خلوص کو تعمیر کے سانچے میں ڈھال لیتی ہے ورنہ ان صلاحیتوں کا سمندر پانی کی مانند بہتے بہتے ضائع ہوجاتا ہے۔ لندن میں غصیلے نوجوان فیسوں میں اضافے کے خلاف نعرے لگارہے ہیں تو امریکہ میں ایک نوجوان گروہ سرمایہ داری نظام کی بے انصافیوں کے خلاف نیویارک پولیس کی لاٹھیاں کھارہا ہے مگر پارک کا قبضہ چھوڑنے کو تیار نہیں۔ بہت جلد یہ تحریک عالمگیر تحریک بن جائے گی اور شعلہ بھڑک کر آگ کا روپ دھارلے گا۔ اے کاش گورے اردو سمجھتے ہوتے تو میں ان کو اقبال کا یہ شعر رٹا دیتا ۔
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظر روز مکافات
شاید روز مکافات دور نہیں لیکن اتنا قریب بھی نہیں، بے راہرو آزاد قلم کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے۔ میں کہنا فقط یہ چاہتا تھا کہ ہماری بزرگ نسل جو تحریک پاکستان کے دوران جوان تھی غلامی سے بے زار اور انگریز حکومت سے نفرت کرتی تھی۔قیام پاکستان سے قبل کے نوجوان غلامی اور بے انصافی کے خلاف سڑکوں پر نکلے تو انہیں قائد اعظم محمد علی جناح کی صورت میں ایک عظیم قیادت مل گئی۔ قائد اعظم نوجوانوں سے نہ صرف بے پناہ محبت کرتے تھے بلکہ انہیں وقت بھی دیتے تھے اور ضرورت پڑنے پر سمجھاتے بھی تھے۔ یہ نسل غصے سے بھری ہوئی تھی اور اپنا قومی مقدر بدلنا چاہتی تھی، چنانچہ ان نوجوانوں نے قائد اعظم کی سربراہی میں دن رات جدوجہد کرکے پاکستان بنادیا۔ خضر حیات حکومت کا تختہ ہی نوجوانوں نے الٹا تھا۔ہماری نوجوان نسل کو ایوب خان کی آمریت ملی۔ بلاشبہ ایوب خان کا دور صنعتی اور معاشی ترقی کے حوالے سے یادگار دور تھا لیکن ایوبی آمریت، شہری آزادیوں پر پابندیاں اور ذرائع اظہار پر قدغن نوجوانوں کو گوارہ نہ تھی۔ ایوب خان کے خلاف احتجاج کا سلسلہ تو1960ء کی دہائی کے آغاز میں ہی شروع ہوگیا تھا لیکن اس کے خلاف تحریک اعلان تاشقند کے بعد چلی۔تحریک چلی تو اس میں ایوب خان کے خلاف سیاسی اور بین الاقوامی قوتوں نے بھی اپنا اپنا حصہ ڈالا لیکن بالآخر اس دور کے غصیلے نوجوان ایوبی آمریت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی بے چینی اور سیاسی بغاوت کے دور میں بھٹو بحیثیت مقبول سیاسی لیڈر ابھرا اور نوجوانوں نے اسے کندھوں پر اٹھا کراقتدار کی کرسی پر بٹھا دیا۔ اسی بھٹو نے جب قوم کو مایوس کیا اور ان کے خواب چھین لئے تو ایک بار پھر نوجوان نسل باہر نکلی اور بزرگ قیادت کی سربراہی میں لاٹھیاں اور گولیاں کھانے لگی۔ ان کا خون رنگ لایا اور بھٹو اقتدار سے محروم ہوگیا۔ اقتدار کی اس محرومی میں کن سازشوں کا حصہ تھا یہ میرا موضوع نہیں کیونکہ مجھے علم ہے غصیلے نوجوان ان سازشوں سے بے خبر تھے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہر نوجوان نسل کی اپنی ناراضگی اور نظام کی بے انصافیوں کے خلاف اپنا غصہ ہوتا ہے جو سیاستدانوں کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ اس ناراضگی کے اظہار کے طریقے بھی اپنے ہوتے ہیں۔نوجوان اخلاص و وفا کے مارے اور جوش و جذبے سے معمور ہوتے ہیں اور انہیں اوپر کی سطح پر ہونے والی سازشوں یا جوڑ توڑ کا عام طور پرعمل نہیں ہوتا لیکن ہر تحریک ہر تبدیلی اور ہر انقلاب نوجوانوں کا ہی مرہون منت ہوتا ہے۔ میرا مشاہدہ اور تاریخ کا واجبی سا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ جولیڈر نوجوانوں کے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے اور ان کی آرزوؤں کی تکمیل کا وعدہ کرتا ہے وہ ان کا ہیرو بن جاتا ہے۔ ہاں ہیرو بننے کے لئے ہیرو پس منظر کی ضرروت بھی ہوتی ہے ،چنانچہ نوجوان اس کی کرشماتی شخصیت سے متاثر ہو کر اس کے ارد گرد جمع ہوجاتے ہیں اور اس کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ دراصل وہ اس شخص میں اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھتے ہیں، چنانچہ نوجوان اسے کندھوں پر اٹھاکر ایوان اقتدار میں پہنچا دیتے ہیں ۔ذرا سا فلسفیانہ پہلو پر غور کیجئے۔ دراصل یہ خواب، آرزوئیں اور تمنائیں ایک ایسا شیر ہوتی ہیں جن پر سوار ہو کر انقلابی قیادت اقتدار تک پہنچتی ہے۔ جب لیڈر ان آرزوؤں اور خوابوں سے انحراف کرتا ہے تو وہی شیر اسے کھانے کو دوڑتا ہے جس پر سوار ہو کر وہ کرسی تک پہنچا تھا۔قائد اعظم نے اور تحریک پاکستان کی قیادت میں نوجوانوں نے بے پناہ جدوجہد کی اور اپنے خواب قائدین کے حوالے کردئیے۔قائد اعظم قیام پاکستان کے ایک برس بعد انتقال کرگئے۔ پچاس کی دہائی تک مسلم لیگ کا رومانس زندہ تھا۔ مسلم لیگ نے1951ء م یں مغربی پاکستان کے صوبوں میں انتخابات جیت لئے اگرچہ ان میں جھرلو کا الزام لگا لیکن بہرحال اس وقت تک لیاقت علی خان اور مسلم لیگ کے جادو میں اثر باقی تھا۔ مشرقی پاکستان کی نوجوان نسل مسلم لیگ سے انتہائی مایوس تھی کیونکہ ان کے خواب چکنا چور ہوئے تھے ،چنانچہ1954ء کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کو شکست فاش ہوئی حالانکہ پاکستان بنے صرف سات برس گزرے تھے۔ اس مایوسی کا نقشہ اس وقت کھل کر سامنے آگیا جب ایوبی مارشل لاء کے خلاف احتجاج کی بجائے اسے خوش آمدید کہا گیا۔ ایوبی آمریت کے خلاف غصے کا اظہار آئین بننے اور بنیادی جمہوریتوں کے ذریعے اقتدار پر مستقل قبضے کا منصوبہ ظاہر ہونے پر شروع ہوا۔ بنیادی طور پر نوجوان ایوب کے ا ٓمرانہ انداز حکومت کے باغی تھے۔ بھٹو نے خواب دکھائے اور اقتدار حاصل کرلیا۔ جب بھٹو کے اندر سے روایتی حکمران اور وڈیرہ سیاستدان برآمد ہوا تو خوابوں کے اسی شیر نے بھٹو کو جھٹکا دے کر گرادیا جس پر سوار ہو کر وہ مقبول وزیر اعظم بنا تھا۔ کیا خیال ہے آپ کا کہ اگر بھٹو کی گرفتاری کے خلاف یا سزائے موت کے خلاف لاکھوں نوجوان سڑکوں پر نکل آتے تو کیا ضیائی مارشل لاء اسے یوں سزا دے سکتا تھا۔ نکلے ضرور مگر بہت ہی تھوڑے، اس طرح ضیاء الحق کا راستہ آسان ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ وہ لاکھوں نوجوان بھٹو کی گرفتاری اور سزا کے وقت کہاں چلے گئے جنہوں نے اسے کندھوں پر بٹھا کر ایوان اقتدار میں بٹھایا تھا۔ جواب صاف اور ظاہر ہے ،ان کے خواب ٹوٹ چکے تھے، اب وہ ایوب خان کے بعد ضیاء الحق کی لاٹھیاں کس کے لئے اور کیوں کھاتے؟ بات بڑی واضح ہے کہ جب لیڈر نوجوانوں کی آنکھوں میں خواب سجا کر اور ان کی آرزوؤں کے شیر پر بیٹھ کر اقتدار میں جاتا ہے تو ان خوابوں کو چکنا چور کرنے کی صورت میں آرزوؤں کا وہی شیر اسے کھا جاتا ہے۔ یہ ہے تاریخ کا طے شدہ اصول اور فیصلہ، تو پھر نوجوان مجھ سے کیوں ناراض ہوتے ہیں جب میں انہیں بتایا ہوں کہ اگر تمہارے پسندیدہ لیڈر عمران خان نے تمہیں مایوس کیا، تمہارے خوابوں کو روندا تو اس کا بھی وہی انجام ہوگا جس کی تاریخ گواہی دیتی ہے۔ آج موجود اور سابق حکمران اور آزمائے ہوئے اسی جرم کی سزا بھگت رہے ہیں اور کچھ عرصہ قبل بھگت بھی چکے ہیں اور یاد رکھو آئندہ بھی یہی اصول تاریخ کے دھارے اور رخ کو متعین کرتا رہے گا۔


No comments:

Post a Comment