Saturday, 19 May 2012

نوجوان اور میرا خواب.(گزشتہ سے پیوستہ) January 05, 2012


تم میں سے وہ نوجوان جو خدمت اور نیکی کا جذبہ رکھتے ہیں محدود پیمانے پر اپنے محلے یا علاقے میں اس کا تجربہ کرکے دیکھ لو اور اپنے ساتھ کچھ بزرگوں کو ملا کر اس کا اثر ملاحظہ فرمالو۔ تم ٹھیک کہتے ہو کہ ہمارا کرپٹ پولیس نظام چوروں ،ڈاکوؤں اور مجرموں کی پشت پناہی کرتا ہے اور پولیس وارداتوں میں ملوث ہوتی ہے لیکن اس مسئلے کا حل بھی قانون سازی اور بہتر گورننس ہے۔ گڈ گورننس بھی وہی لوگ لائیں گے جو خود بہتر ہوں گے اور قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں گے۔ میں جب اعلیٰ تعلیم کے دروازے سب پر کھولنے کی بات کرتا ہوں تو میرا تجربہ شاہد ہے کہ اگر حکومتی تعلیمی بصیرت رکھتی ہو تو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے کیمپس پاکستان میں کھولے اور قائم کئے جاسکتے ہیں اور اس طرح غریب اور متوسط طبقوں کے طلبہ کو غیر ممالک کے اخراجات کا بوجھ اٹھائے بغیر حکومتی امداد سے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم دی جاسکتی ہے۔ نوجوانو! غور کرو تو محسوس کروگے کہ ہمارے بیشتر مسائل اور معاشرتی برائیوں کی جڑیں جہالت اور اعلیٰ تعلیم کے فقدان میں پیوست ہیں اور ہمارے اکثر مسائل کا حل تعلیم میں مضمر ہے۔
عمران میانوالی میں نمل یورنیورسٹی قائم کرچکا ہے جہاں انگلستان کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی کی ڈگری ملے گی، دیکھ لینا اس علاقے میں ایک دہائی کے اندر اندر انقلاب آجائے گا۔ اسی طرح کا چھوٹا سا انقلاب کسی زمانے میں علی گڑھ یونیورسٹی نے بھی برپا کیا تھا جس کے طلبہ شائستگی ،کردار اور تعلیمی معیار کے بہتر نمونے سمجھے جاتے تھے۔ گزشتہ چند برسوں سے ہمارا بنیادی مسئلہ بدامنی، دہشتگردی اور خود کش حملے تھے جنہوں نے کرپشن سے مل کر بیرونی سرمایہ کاری کے راستے بند کررکھے تھے اور جن کی وجہ سے ملکی سرمایہ بیرون ملک ہجرت کررہا تھا۔ انشاء اللہ اس سال سے یہ خطرات بتدریج گھٹ جائیں گے اور اگر ہمیں ایماندار،اہل اور جذبوں والی قیادت مل جائے تو اللہ کے فضل و کرم سے دو سال کے اندر اندر ملک میں انقلاب آجائے گا۔ انقلاب سے میری مراد قتل و غارت، آتش زنی اور انتقام کی پیاس بجھانا نہیں بلکہ انقلاب سے مراد ملک کے قانونی، معاشی، تعلیمی ،اخلاقی اور آئینی ڈھانچے میں تبدیلی اور بہتری ہے۔ملک و قوم کو کرپشن، بے عملی، نااہلی، بدامنی اور معاشی تباہی کی دلدل سے نکال کر خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ میرا دل کہتا ہے کہ یہ انقلاب آزمودہ اور بار بار آزمائے ہوئے نہیں لاسکتے ، اگر وہ اس قابل ہوتے تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ وہ انقلاب کا نعرہ زبان سے لگارہے ہیں جبکہ ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس کے دل کی گہرائیوں سے انقلاب کا نعرہ نکلے اور ملک کا مقدر بن کر چھا جائے۔ باقی انشاء اللہ پھر۔
 

No comments:

Post a Comment