نوجوانوں کے ایک چھوٹے سے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے میں کہہ رہا تھا کہ میں نے ایک طالبعلم کی حیثیت سے انقلاب فرانس اور انقلاب روس سے لے کر تحریک پاکستان تک ان موضوعات کو تھوڑا تھوڑا پڑھا ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان تمام انقلابات کی کامیابی میں نوجوانوں کے غصے نے اہم ترین کردار سرانجام دیا۔ نوجوان بے لوث اور مخلص ہوتے ہیں اور وہ جس مقصد یا منزل کے لئے بھی باہر نکلتے ہیں اس کے حصول کے لئے سردھڑ کی بازی لگادیتے ہیں۔ میں نوجوانوں کے چہروں پر جو غصہ دیکھ رہا ہوں وہ نہ ہی بلاوجہ ہے اور نہ ہی ضائع جائے گا۔ یہ ضرور رنگ لائے گا اور پاکستان میں مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا، البتہ مجھے یہ کہنے دو کہ پاکستان میں روس یا فرانس جیسے انقلابات کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ وہ انقلابات تاریخ کا حصہ بن چکے اور ان کی نفرت اور غصے کے غباروں سے ٹوٹی پھوٹی جمہوریت اور طاقتور میڈیا نے ہوا نکال دی۔ ہم پاکستان میں جس انقلاب کا خواب دیکھ رہے ہیں اس کی تعبیر فقط ان چند موٹے موٹے اصولوں میں پنہاں ہے۔ اول کرپشن کا خاتمہ، دوم قانون کی حاکمیت یعنی قانون کے سامنے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک سبھی شہری برابر ہوں ،سوم غربت، مہنگائی، بے روزگاری پر قابو پانے کے لئے موثر اقدامات، چہارم بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرکے اسلامی قوانین کی روح کے مطابق فلاحی ریاست کا قیام، جب قانون کی حاکمیت ہو تو میرٹ اور انسانی برابری کے اصول خود بخود حرکت میں آجاتے ہیں جن سے سفارش ،کرپشن، بااثر اور دولت مند طبقوں کا تسلط اور احساس محرومی رفتہ رفتہ اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔ حکمران ایماندار ہوں اور اہل ہوں اور خلوص نیت سے کام کریں تو کرپشن خود بخود کم ہوجاتی ہے اور باقی ماندہ کرپشن کو احتساب کے کڑے نظام اور سخت قوانین کے ساتھ کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ حکمرانوں میں بصیرت، اہلیت ا ور خدمت کی سچی آرزو ہو تو لوڈ شیڈنگ ختم کرکے صنعتی کاروباری اور معاشی زندگی کو متحرک کرنے سے بے روزگاری ،غربت اور مہنگائی پر آہستہ آہستہ خاصی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ جب میں اسلامی فلاحی ریاست کی بات کرتا ہوں تو اس کا ہدف فقط یہ ہے کہ کوئی بچہ غربت کے سبب تعلیم سے محروم رہے، کوئی ذہین اور قابل طالبعلم غربت کے سبب اعلیٰ تعلیم کی سیڑھیاں چڑھنے سے محروم نہ رہے، کوئی شہری علاج سے محرومی کے سبب وفات نہ پائے اور کوئی بیوہ، بے سہارا یا ناکارہ شہری بھوکا نہ سوئے۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ سب کچھ ممکن ہے، اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں بے پناہ وسائل، اہلیت اور مواقع دئیے ہیں لیکن ہم فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ کبھی تم نے غور کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو سونے چاندی، تیل ،کا پر، نمک اور کوئلے کی صورت میں بیک وقت جتنے معدنی وسائل اور انعامات دئیے ہیں وہ کم کم ملکوں کو نصیب ہوتے ہیں، کہیں سونا ہے تو کوئلہ نہیں، کوئلہ ہے تو تیل اور گیس نہیں، تیل ہے تو کاپر، سونا اور دوسرے معدنی وسائل نہیں۔ معدنی وسائل ہیں تو اعلیٰ درجے کے سائنسدان ،انجینئر اور ٹیکنیکل جواہر نہیں، سائنسدان ہیں تو اتنی زرخیز زمین ،اعلیٰ زراعت، گرم و سرد موسم، پہاڑ اور دریا نہیں۔ مختصر یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پاکستان کو ہر قسم کے قدرتی وسائل دئیے ہیں اور محنتی جفاکش زور بازو کے مالک شہری دئیے ہیں اگر آپ قدرت کے بیک وقت سارے انعامات کو سامنے رکھ کر دوسرے ممالک سے موازنہ کریں تو آپ کو احساس ہوگا کہ آپ کتنے خوش قسمت ہیں اور پاکستان میرے رب کا کتنا بڑا انعام ہے۔ ہماری ٹریجڈی منصوبہ بندی کی کمی ، اہل قیادت کا فقدان، کرپشن کاراج اور بصیرت و خلوص کا قحط ہے۔ تم جتنی سماجی برائیاں دیکھتے اور کڑھتے ہو مثلاً دھوکہ دہی، چوری، لوٹ مار، قبضہ گروپ، بے انصافی، انسانی حقوق کی پامالی، بدمعاشی، غریب اور بے بس کی بے بسی وغیرہ وغیرہ ان کا اصل سبب جہالت، اخلاقی تربیت کا فقدان اور معاشی بدحالی ہے۔ میں ہرگز نہیں کہتا کہ ان تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑہ جاسکتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ انہیں خاصی حد تک کم کیاجاسکتا ہے۔ ضرورت ہے صحیح نصاب تعلیم کی، اچھے اساتذہ کی اور تعلیم کو عام کرنے کی، میرا دل اور تجربہ کہتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھول کر اور خلوص نیت سے معاشرے میں اصلاحی تحریکیں شروع کرکے قوم کی اخلاقی تربیت کی جاسکتی ہے، جو کام ہمارے مذہبی حلقے اور منبر و محراب پر متمکن حضرات نہیں کرسکے وہ کام معاشرے میں اصلاح کے خواہش مند اور جذبوں کے مالک کافی حد تک کرسکتے ہیں۔ ضرورت ہے انہیں منظم کرنے اور حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی اور یہ ضرورت صرف جذبہ رکھنے والی ایماندار اور اہل قیادت ہی پوری کرسکتی ہے۔ برائی کا راستہ صرف اچھائی روک سکتی ہے، نیکی روک سکتی ہے، اس لئے اگر برائی کرنے والوں کا راستہ روکنا ہے تو پھر اچھے اور نیک لوگوں کومنظم کرکے ان کے راستے میں کھڑا کرنا پڑے گا۔ (جاری ہے) |
Saturday, 19 May 2012
نوجوان اور میرا خواب. January 04, 2012
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment