فرق صرف یہ پڑا ہے کہ یہ لوگ پہلے دبی زبان اور دھیمے لہجے میں بات کرتے تھے اوراب یوں لگتا ہے کہ وہ لٹھ اٹھا کر قائداعظم اور تحریک ِ پاکستان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ فرق معمولی نہیں، یہ فرق بہت بڑاہے۔ محترم نجم سیٹھی کو تاریخ پاکستان پر تنقید کا حق حاصل ہے لیکن اس حق کا فائدہ اٹھانے سے پہلے تاریخی عوامل کا گہرا مطالعہ اور زمینی حقائق اور پس منظر کو تفصیل سے جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔ محترم نجم سیٹھی صاحب نے جن الزامات کی بارش قائداعظم پر کی ان میں موٹے موٹے الزامات یہ تھے کہ انہوں نے آمرانہ انداز سے صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) کی حکومت ختم کردی۔ صدر دستور ساز اسمبلی اور مسلم لیگ اور گورنرجنرل کے عہدے اپنی ذات میں جمع کرلئے اورمشرقی پاکستان میں جا کر اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دے کر حماقت کی۔ صوبہ سرحدکی کانگریسی حکومت کا خاتمہ قدرے لمبی کہانی ہے اس لئے اس پر بعد ازاں لکھوں گا ویسے ان دو الزامات کا جائزہ لے لوں جن کا تعلق عہدوں اور قومی زبان سے ہے۔ اس تمثیل کا پس منظر یہ ہے کہ 14اگست 1947سے لے کر دسمبر تک پاکستان قیامت خیز حالات سے گزر رہا تھا۔ حکومت وقت مہاجرین کی آبادکاری، نئی حکومت کے قیام، مالی قحط اور پاکستان کے وجودکو خطرات سے نپٹنے میں اس قدر مصروف تھی کہ قائداعظم اور ان کے رفقاء کو سر کھجانے کی بھی مہلت نہ تھی۔ ذراحالات سنبھلے تو قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کا پاکستان میں آخری اجلاس دسمبر 1947 میں کراچی میں بلایا جس میں مسلم لیگ کو دو حصوں ”آل پاکستان مسلم لیگ“ اور ”آل انڈیا مسلم لیگ“ میں تقسیم کردیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ کی کونسل نے وزیراعظم لیاقت علی خان کو کنوینرمنتخب کیا۔ جن کے سپرد پارٹی کی تنظیم نو اور دستورسازی کا کام تھا چنانچہ لیاقت علی خان پارٹی کے کرتا دھرتا بن گئے اور قائداعظم پارٹی سیاست سے الگ ہوگئے۔ مسلم لیگ کے نئے دستور کی تشکیل تک لیاقت علی خان ہی مسلم لیگ کے کنوینر تھے۔ جب فروری 1948 میں مسلم لیگ کا دستور بنا تو اس میں حکومتی اور پارٹی عہدیداروں کو الگ الگ کردیا گیا یعنی حکومتی عہدیدار پارٹی عہدے نہیں سنبھال سکتے تھے۔ قائداعظم کو آمرانہ فیصلوں کاطعنہ دینے والے یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ قائداعظم وقتی طور پر سرکاری اور پارٹی عہدوں کویکجا رکھنے کے حق میں تھے جس طرح ہندوستان میں نہرو اور انگلستان میں وزیراعظم عام طور پر پارٹی سربراہ بھی ہوتا تھا لیکن جب مسلم لیگ کونسل جو مسلم لیگ کی پارلیمینٹ تھی نے قائداعظم کی مرضی کے خلاف فیصلہ دے دیا تو انہوں نے بخوشی اسے قبول کرلیا ۔جب مسلم لیگ کونسل نے قائداعظم کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دینا چاہا تو انہوں نے انکار کردیا۔ اس موقعہ پر چودھری خلیق الزمان کو مسلم لیگ کا چیف آرگنائزر مقرر کیا گیا اور وہ 1949 تک مسلم لیگ کے چیف آرگنائزر رہے۔ جب ممبر سازی ہوچکی اور پاکستان مسلم لیگ جماعتی تقاضے پورے کرچکی تو چودھری صاحب کو پاکستان مسلم لیگ کا صد ر منتخب کرلیا گیا۔ آئینی اور قانونی طور پر دسمبر 1947 میں مسلم لیگ کی تقسیم کے بعد پاکستان مسلم لیگ کا کوئی آئین تھا اور نہ ہی پرانے عہدے موجود تھے۔ یہ عہدے دستورسازی کے بعد معرض وجود میں آئے۔مت بھولیں کہ قائداعظم فادر آف دی نیشن یعنی بابائے قوم تھے، ان کی سربراہی میں مسلم لیگ نے پاکستان بنایا تھا، وہ مسلمانوں کے اتحاد کی علامت اور عظیم ترین رہنما تھے اور ساری پاکستانی قوم رہنمائی کے لئے ان کی طرف دیکھتی تھی۔ ان کا اخلاص، بصیرت اور کردار شک و شبے سے بالاتر تھا۔ اس لئے قیام پاکستان کے فوراً بعد قومی حیات و موت کی کشمکش کے دوران صرف قائداعظم کی ذات سے عوام کے اعتماد کے چشمے پھوٹتیتھے۔ اس لئے قائداعظم کو عہدوں کی ضرورت نہیں تھی۔ دراصل عہدوں کو قائداعظم کی ضرورت تھی اور یہ ضرورت قوم کی یک جہتی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے تھی۔ بلاشبہ قائداعظم نے سرکاری دورے کے دوران مشرقی پاکستان میں اردو کو واحد قومی زبا ن قرار دیا کیونکہ اردو کا نہ صرف مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت سے گہرا تعلق تھا بلکہ اردو نے تحریک پاکستان میں بھی اہم کردار سرانجام دیا تھا۔ میری خواہش ہے کہ لوگ قائداعظم کی ڈھاکہ والی تقریر پڑھیں جو 21مارچ 1948 میں جلسہ عام میں کی گئی۔ اس تقریر کے ایک ایک لفظ میں قومی اتحاد کی شدید آرزو تڑپتی نظر آتی ہے۔ قائداعظم جانتے تھے کہ پاکستان دشمن عناصر قوم میں تفریق اور انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔ ان کو خبر تھی کہ ہندوستان مشرقی پاکستان کو متحدہ بنگال کا حصہ بنانے کے لئے سازش کر رہا ہے۔ انہوں نے ان خطرات کا اپنی تقریر میں برملا اظہار کیا۔ قومی اتحاد کے پس منظر میں قائداعظم نے واضح کیا کہ ایک قومی زبان کی ضرورت کیونکر ہے ذرا ان کے الفاظ ملاحظہ فرمایئے ”اس میں کوئی حقیقت نہیں کہ زبان آپ کی معمول کی زندگی یا بنگالی زبان پر اثر انداز ہوگی کیونکہ بالآخر اس کا فیصلہ صوبے کے عوام کو کرنا ہے کہ ان کے صوبے کی زبان کیا ہوگی؟ میں یہاں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ریاست پاکستان کی زبان اردو ہوگی کیونکہ ایک زبان کے بغیر نہ قوم متحد رہ سکتی ہے اور نہ کام کرسکتی ہے۔ اس لئے ہماری سرکاری زبان اردو ہوگی لیکن اس فیصلے میں وقت لگے گا“ گویا قائداعظم نے واضح کردیا کہ یہ ان کی نصیحت بحیثیت بابائے قوم ہے لیکن اس کا فیصلہ دستور سازی کے دوران ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ مشرقی پاکستان کی حکومت اور لوگ اپنے صوبے کے لئے بنگالی کو بطور سرکاری زبان اختیار کرسکتے ہیں جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اسے ذریعہ تعلیم اور صوبائی زبان قرار دے کر اپنی ثقافت اور ادب کو ترقی دے سکتے ہیں لیکن صوبائی رابطے کے لئے اردو قومی زبان ہوگی جبکہ عملاً صوبائی رابطے، سرکاری خط و کتابت اور بین الاقوامی سطح پر صرف انگریزی زبان ہی استعمال کی جارہی تھی اور آج بھی وہی نظا م جاری و ساری ہے۔ آج 65 برس بعد ان خطرات کا اندازہ لگانا مشکل ہے جو قیام پاکستان کے فوراً بعد ملک کو درپیش تھے لیکن اپنی جگہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قائداعظم نے جن خطرات کی نشاندہی مارچ 1946 میں کی تھی وہی بالآخر ہماری تباہی اور قومی انتشار و تفریق کا باعث بنے۔ اس تقریر میں قائداعظم نے صوبائیت کے خلاف وارننگ دی اور لوگوں کو صوبائیت کے زہر سے دور رہنے کی تلقین کی۔ انہوں نے کہا کہ صوبے محض جغرافیائی اکائیاں ہیں لیکن دراصل ہم ایک قوم ہیں۔ ”تم نے وہ سبق بھلا دیا ہے جو تیرہ سوسال قبل پڑھا تھا۔ ہم صرف مسلمان اور مسلمان ہیں۔“ پھر انہوں نے دکھ بھرے لہجے میں انتباہ کیا ”وہ دشمن قوتیں جو قیام پاکستان کے خلاف تھیں اپنی ناکامی کے بعد قوم کو تقسیم کرنے کے درپے ہیں۔ ان کے جھانسے میں نہ آؤ۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیاکہ تمہاری صفوں میں ایسے عناصر موجود ہیں جو بیرونی دشمنوں سے روپیہ لے کر انتشار پھیلا رہے ہیں۔ یہ تمہارے دشمن ہیں ان سے ہوشیار رہو۔“ تقریر کے آخر میں جب قائداعظم نے پوچھا کہ ”کیا تم انڈین یونین میں واپس جانا چاہتے ہو؟“ تو لوگوں نے یک زبان ہوکر کر ”نہیں نہیں“ (No, No) کی آوازیں بلند کرکے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ صوبائیت آج بھی ہماری قومی سلامتی اور ملکی اتحاد کے لئے بڑا خطرہ ہے اور آج بھی ہماری صفوں میں ایسے عناصر موجود ہیں جو ہمارے دشمنوں سے مالی امداد لے کر ملک میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ (جاری ہے) |
Saturday, 19 May 2012
خدارا، قائداعظم کو معاف کردو December 21, 2011
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment