یہ انتہائی دلچسپ واقعہ گاندھی جی نے خود مزے لے لے کر ابو الکلام آزاد کو سنایا اوراس کا ذکر مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب ”انڈیا وِنز فریڈم“ میں بھی موجود ہے۔ جنگ ِ عظیم کے دوران جب ہٹلر فرانس کو پچھاڑ کر انگلستان پربار بار حملہ آور ہو رہا تھا تو 29جون 1940 کو گاندھی جی ہندوستانی وائسرائے لنلتھگو سے ملنے گئے۔ گاندھی جی عدم تشدد کے شدید حامی تھے اور اپنے فلسفے کے مطابق ضرورت پڑنے پر شکست کوبھی فتح قرار دے دیتے تھے چنانچہ اس ملاقات میں گاندھی جی نے عدم تشدد کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے بعد انگریز وائسرائے کو مشورہ دیا ”برطانیہ میں اتنی جرأت ہونی چاہئے کہ وہ ہٹلر کو برطانیہ کی خوبصورت سرزمین پر قبضہ کرنے دے۔ جرمنی کو قبضہ کرنے دیجئے اوراگر ہٹلر آپ کے گھر پر قبضہ کرنا چاہے تو گھر خالی کردیجئے۔ اگر وہ آپ کو ملک سے نکلنے کے لئے محفوظ راستہ نہ دے تو اسے اجازت دیجئے کہ وہ آپ کی خواتین، بچوں اور مردوں کو ذبح کردے“ انگریز وائسرائے لنلتھگو اس مشورے پر اس قدر پریشان اور حیران ہواکہ وہ اپنے آپ میں گم ہو کررہ گیا۔ اصول اور رسم کے مطابق جب گاندھی جی جیسا کوئی بڑا لیڈر وائسرائے سے مل کر نکلتا تو وائسرائے گھٹنی بجاتا تھا۔ چنانچہ وائسرائے کا اے ڈی سی فوراً آ کرمہما ن کو باہر لے جاتااور گاڑی میں بٹھا کر رخصت کرتا تھا۔ مولانا ابوالکلام نے لکھا ہے کہ اس روز وائسرائے گھنٹی بجانا بھول گیا اور گاندھی جی کو خود ہی باہر کاراستہ تلاش کرنا پڑا اور خود ہی اپنی گاڑی ڈھونڈنا پڑی (بحوالہ نریندر سنگھ سابق اے ڈی سی ماؤنٹ بیٹن The untold story of partition pg # 34-5) اگر آپ ٹھنڈے دل و د ماغ سے غور کریں تو محسوس کریں گے کہ جو حضرات پاکستان کو سیاچن سے فوجیں بلانے میں پہل کا مشورہ دے رہے ہیں اور ہندوستان سے معاہدہ کئے بغیر واپسی کاکہہ رہے ہیں دراصل وہ وہی مشورہ دے رہے ہیں جو گاندھی جی نے برطانوی وائسرائے کو دیا تھا۔ جب سیفما کے امتیازعالم نے موجودہ سانحے اور سوگوار فضا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ”حکم“ دیا کہ پاکستان کو فوراً اپنی فوجیں سیاچن سے واپس بلا لینی چاہئیں تو ان کا مشورہ قابل فہم تھا اگرچہ ان سے کسی نے نہ پوچھاکہ حضور آپ یہ کام ہندوستان سے کیوں نہیں کرواتے جس کی محبت میں آپ ”لہولہان“ ہو رہے ہیں۔ البتہ جب میرے محترم میاں نواز شریف صاحب نے سیاچن سے فوجیں ہٹانے میں پہل کی بات کی تو ان کا مشورہ میرے لئے قابل فہم نہیں تھاکیونکہ میاں صاحب پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور پاکستان کے وقار کے محافظ ہیں۔ میاں صاحب پاکستان کے دو بار وزیراعظم رہے ہیں اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تاریخی طور پر سیاچن کے علاقے پر پاکستان کا انتظامی کنٹرول تھااور عالمی نقشوں میں اسے پاکستان کا حصہ دکھایاجاتا تھا لیکن ہندوستان نے ایک سازش کے تحت 1984 میں سیاچن کی چوٹیوں پر قبضہ کرلیا۔ سوال یہ ہے کہ جارحیت کس نے کی؟ ظاہر ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر ہندوستان نے پاکستان کے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ فوجیں واپس بلانے میں پہل کا مشورہ دینے والے ہٹلر کو انگلستان کی سرزمین پر قبضہ کا مشورہ دے رہے ہیں۔یہ بھی تاریخ کاحصہ ہے کہ پاکستان نے سیاچن سے بھارتی جارحیت کو ختم کرانے کی پانچ دفعہ کوشش کی جس میں خاصا جانی و مالی نقصان ہوالیکن چونکہ ہندوستان چوٹیوں پر قابض ہے اس لئے پاکستان کامیاب نہ ہوسکا۔ کئی دہائیوں سے اس ضمن میں ہندوستان سے گفتگو اور میٹنگوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن ہندوستان قبضہ چھوڑنے اور 1984سے پہلے والی پوزیشن پر آنے کے لئے تیار نہیں۔ہزاروں فوجی مروانے اور ایک ملین ڈالر روزانہ خرچ کرنے کے باوجود ہندوستان اپنے رویئے میں لچک دکھانے کے لئے تیار نہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسے سطحیت پسندوں کی کمی نہیں جو باربارایک ہی نغمہ الاپ رہے ہیں کہ سیاچن پر تو گھاس بھی نہیں اُگتی۔ اگر ضیاء الحق نے یہ کہا تھا تو یقینا شکست خوردہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا تھا ورنہ اصلی فوجی کی زندگی کافلسفہ ہی یہ ہوتا ہے کہ ”یاغازی یا شہید“فوجی زندگی عشق کی زندگی ہے اور عشق کی زندگی میں سب کچھ داؤ پر لگایا جاتا ہے۔ اس میں کوئی آسان راستہ نہیں ہوتا۔ میں جب اپنے دانشوروں کے یہ نغمے سنتاہوں کہ وہاں تو گھاس بھی نہیں اُگتی اس لئے 3500مربع میل کا علاقہ ہندوستان کی جارحیت کی نذرکردو تو مجھے خیال آتا ہے کہ اللہ نہ کرے کل کلاں کوئی بڑاحادثہ چولستان میں رونما ہو گیا تو ہمارے یہی دانشور کہیں گے کہ یہ علاقہ بھی ہندوستان کو دے دو، وہاں تو گھاس بھی نہیں اُگتی۔ وزیرستان ، سوات اورفاٹا کے علاقے میں ہزاروں فوجی شہید ہوئے ہیں، ہزاروں سویلین مارے گئے ہیں، بڑی تعداد میں فوجی اغوا ہوئے ہیں بعید نہیں کہ کل کلاں وہاں سے بھی فوجیں واپس بلانے کا مشورہ داغ دیا جائے اور ان علاقوں کو مکمل طور پر طالبان کے حوالے کردیا جائے۔ خدارا جذبات سے مغلوب ہو کر شکست خوردہ مشورے دینے والو ذراسوچو کہ ملک کی سرزمین کے ایک ایک انچ کی حفاظت ہمارا قومی فریضہ اور فوج کااولین فرض ہے اور یہی وہ حلف ہے جو ہر فوجی اٹھاتا اور حرز ِ جاں بناتا ہے۔ جنرل کیانی اور میاں نوازشریف کے موقف میں ایک واضح فرق ہے لیکن میں اس بحث میں الجھنے کی بجائے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیاآپ سیاچن کی بلندیوں کی فوجی اہمیت، سٹریٹجک حیثیت اورپانی کے حوالے سے ”چشمہ آب“ کی حیثیت کا شعور رکھتے ہیں؟ کیا آپ نے غور کیاکہ آخر 37برس بعد 1984 میں ہندوستان نے ایک منصوبے کے تحت وہاں قبضہ کیوں کیا؟ کیا آپ نے تجزیہ کیا کہ ہزاوں فوجی مروانے اور دس لاکھ ڈالر یومیہ خرچ کرنے کے باوجود ہندوستان سیاچن سے ہٹنے کے لئے کیوں تیار نہیں؟ طویل عرصے پر محیط مذاکرات میں ہندوستان کیوں بضدہے کہ اس کے قبضے کو تسلیم کرلیاجائے اور اسے لائن آف کنٹرول کا درجہ دے دیاجائے؟ ہمارے 135 فوجیوں اور جانثار سویلین کے برف تلے دبتے ہی ہندوستان نے ہماری دکھتی ہوئی رگ پر انگلی دباکر یہ نغمہ کیوں الاپنا شروع کردیا ہے کہ وہاں تو گھاس بھی نہیں اُگتی؟مشکلیں، امتحانات وسانحات قومی زندگی کاحصہ ہوتے ہیں اور یاد رکھئے غم کے پہاڑ تلے دب کر توازن اور ہوش کھو بیٹھنا مزید سانحات کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ہندوستان اب تک سیاچن کی چوٹیوں پر قبضہ قائم رکھنے کے لئے دس ارب ڈالر خرچ کرچکاہے بھلاکیوں؟ جنرل کیانی نے فقط اتناکہا ہے کہ سیاچن کے گلیشیئر سے دریائے سندھ میں پانی آتا ہے جوہمارے لئے رگ جان کی اہمیت رکھتاہے۔ مطلب یہ کہ اگر ہندوستان نے اس پانی کارخ موڑ لیا تو ہمارا بڑاعلاقہ بنجر ہو جائے گا۔ اول تو یہ بات ذہن میں رکھئے کہ ہندوستان نے بزور طاقت اس علاقے اور سالٹرورج کی بلندی پر قبضہ کرکے نہ صرف نادرن ایریاز بلکہ کشمیر کو بھی فوجی نگاہ میں گھیر لیا ہے بلکہ اب وہ چین اور پاکستان کے دروازے پربھی بیٹھا ہے اور تبت پر بھی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ مختصر یہ کہ سیاچن پر ہندوستانی قبضے کے بہت سے مضمرات ہیں اور ہندوستان کاقبضہ پاکستان اور چین دونوں کے لئے خطرہ بن گیا اس لئے اگر کسی معاہدے اور بین الاقوامی ثالثوں کے بغیر وہاں سے فوجیں ہٹالی جائیں اور ہندوستانی فوج کی واپسی کے بغیر علاقہ خالی کردیاجائے تو مستقبل میں اس سے پاکستان کی سکیورٹی کو بے شمار خطرات جنم لے سکتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ جب سے گیاری کاسانحہ ہواہے غمگین ہوں اور ہمہ وقت برف تلے دبے جوانوں اور جانثاروں کی زندگیوں کے لئے دعاگو ہوں۔ میں اللہ کی رحمت پر یقین رکھتاہوں۔ میں ہندوستان سے بھی دوستانہ تعلقات کا حامی ہوں۔ میری آرزو ہے کہ ہندوستان سے اختلافات اور مسائل کا حل ڈھونڈا جائے اور دونوں ممالک میں ”اعتماد“ کو مضبوط بنیادوں پر تعمیر کیاجائے لیکن اگر سمجھوتوں کے بغیر ہم کشمیر سے لے کر سیاچن تک ہندوستانی جارحیت کو تسلیم کرتے گئے تواس کے نتائج نہایت خطرناک ہوں گے۔ |
Sunday, 20 May 2012
جارحیت کے سائے April 21, 2012
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment