Sunday, 20 May 2012

مائنڈ سیٹ February 14, 2012


آج کل ٹی وی چینلوں پر ”مائنڈ سیٹ“ کا بڑا ذکر ہوتا ہے۔ مائنڈ سیٹ کا آسان سا مطلب ہے مخصوص سوچ اور نہ بدلنے والا ذہن۔ پی پی پی کے ترجمانوں کو ہمیشہ گلہ رہتا ہے کہ ان کے مخالفین مخصوص سوچ کے مریض ہیں اور یہ ہر قیمت پر پی پی پی کو سزا دینا چاہتے ہیں۔ ان کو یہ بھی گلہ ہے کہ ہمارے مخالفین کو ہماری حکومتی کارکردگی میں کوئی اچھی بات نظر نہیں آتی اور یہ کہ میڈیا بھی ہمارے ساتھ انصاف نہیں کرتا اور ہمیں عدالتوں سے بھی انصاف نہیں ملتا۔ مختصر یہ کہ انہیں سب سے گلہ ہے اور وہ اپنے آپ کو مظلوم ترین پارٹی اور اپنی قیادت کو مظلوم ترین قیادت سمجھتے ہیں۔ اسی مائنڈ سیٹ یعنی مظلوم مائنڈ سیٹ سے ہی ہمدردی کی لہر پیدا ہوتی ہے اور سیاسی حمایت میں اضافہ ہوتا ہے۔ گویا مظلومیت کا ماتم پی پی پی کی سیاسی حکمت عملی ہے جو بدقسمتی سے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل اور محترمہ بینظیر بھٹو کے راولپنڈی میں قتل کے سانچے میں ڈھل کر تیار ہوئی ہے۔ ان دونوں سانحات میں بے چارے عوام بھی ان کے غم میں شامل رہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر کب تک مظلومیت کی میت پر سیاست کی جاسکتی ہے اور کب تک ایسی سیاست سیاسی پھل دیتی رہے گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام کا سیاسی شعور پختہ ہورہا ہے، ان میں بیداری پھیل رہی ہے اور وہ رونے دھونے کی بجائے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اس لئے آخر کب تک ہمدردی کارڈ کو کیش کروایا جاسکتا ہے۔ پی پی پی کے سیاسی مخالفین کو گلہ ہے کہ جیالے بھی ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے مریض ہیں،ان کو اپنے لیڈروں کی لوٹ مار نظر نہیں آتی، نااہلی دکھائی نہیں دیتی اور پی پی پی کی حکومت نے ملک کو لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور بے پناہ کرپشن کے تحائف دئیے ہیں جنہیں پی پی پی والے قبول کرنے کو تیار نہیں۔یہ این آر او سے لے کر صدر صاحب کے سوئٹز ر لینڈ والے اکاؤنٹ کا یوں دفاع کرتے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور ان پر غلط الزمات لگا دئیے گئے ہیں گویا دونوں طرف سے ایک دوسرے کو مائنڈ سیٹ کے طعنے دئیے جاتے ہیں جنہیں سن سن کر ناظرین محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔
ہمارے وزیراعظم پر سپریم کورٹ میں فرد جرم عائد ہوگئی اور انشاء اللہ بہت جلد وہ”وفا“ اور ”مظلومیت“ کا لبادہ اوڑھ کر میدان سیاست میں ا تریں گے۔”وفا“ ان معنوں میں کہ انہوں نے اپنی وزارت عظمیٰ گنوا دی لیکن صدر صاحب کے خلاف مقدمہ کھولنے کے لئے سوئٹرز لینڈ حکومت کو خط نہیں لکھا۔ سوئٹرز لینڈ مقدمہ پر نہایت ذہانت اور ہوشیاری سے پہلے ہی بینظیر کی قبر کے ٹرائل کا غلاف چڑھا دیا گیا تھا حالانکہ اصل مسئلہ قبر کا ٹرائل نہیں بلکہ چھ کروڑ ڈالر بچانا تھا۔ میں نے انہی کالموں میں کئی بار لکھا کہ صدر صاحب کسی قیمت پر بھی چھ کروڑ ڈالر ملک و قوم کو واپس نہیں کریں گے،چاہے اس کے لئے انہیں کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔ گیلانی صاحب کی قربانی تو معمولی چیز ہے کیونکہ وہ جائیں گے تو پی پی پی سے کوئی اور وزیر اعظم آئے گا پھر اسے سپریم کورٹ خط لکھنے کا کہے گی اور اسی تگ و دو میں مارچ تک کا عرصہ گزر جائے گا۔مارچ کے بعد صدر صاحب کے خلاف سوئٹرز لینڈ میں مقدمہ ویسے ہی بند ہوجائے گا کیونکہ ان کے قانون کے مطابق پندرہ برس بعد مقدمہ ختم ہوجاتا ہے اور تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ صدر صاحب کا مقدمہ اسی زمرے میں آئے گا۔ اس سے دو فوری فائدے ہوں گے۔ اول تو چھ کروڑ ڈالر محفوظ رہیں گے جو صدر صاحب نے بڑی محنت سے کمائے ہیں، دوم پی پی پی کو ایک اور شہید مل جائے گا جو اس کی زوال پذیر رگوں میں نئے جوش و جذبے کا خون دوڑائے گا۔اس بار مظلومیت کی لہر میں عدلیہ کو نشانہ بنایا جائے گا اور ثابت کیا جائے گا کہ پی پی پی کو کبھی انصاف نہیں ملا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں پی پی پی کے ترجمانوں کی اس منطق سے بہت لطف اندوز ہوتا ہوں کہ ملک میں کرپشن کے ایک ہزار مقدمات زیر سماعت ہیں صرف صدر صاحب کو کیوں ٹارگٹ کیا جارہا ہے یعنی ان کا دفاع یہ نہیں کہ صدر صاحب نے کمیشن نہیں لیا بلکہ یہ ہے کہ باقی مقدمات کو چھوڑ کر ان کے خلاف مقدمہ کیوں سنا جارہا ہے۔ اس منطق میں بھی مظلومیت کا پہلو پنہاں ہے لیکن معصومیت کا نہیں، چنانچہ آج کل ہمارے پیارے جیالے ایک بار پھر وہ خبر چینلوں پر سنارہے ہیں کہ کس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے، ان کے نزدیک سپریم کورٹ مقتل ہے اور گیلانی صاحب کے قیمتی سوٹ دھج ہیں۔ اس مقتل اور دھج کو وہ آنے والے انتخابات میں کیش کروانا چاہتے ہیں لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس بار مظلومیت کا کھیل شاید ماضی کی مانند فائدہ مند نہیں ہوگا کیونکہ اس بار مظلومیت کی علامت ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو نہیں بلکہ جناب آصف علی زرداری صاحب ہیں۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ آج کل ٹی وی چینلوں پر مائنڈ سیٹ کا بڑا چرچا ہے جس کو یار لوگ مذاق سے ٹی سیٹ اور ٹی وی سیٹ کہنے لگے ہیں۔ اسی طرح میرا بھی ایک مائنڈ سیٹ ہے، ایک مخصوص ذہن ہے اور یہ مخصوص ذہن پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ نہ گھبراتا ہے اور نہ ہی مرجھاتا ہے۔ میں گزشتہ دو برسوں سے عرض کررہا ہوں کہ انشاء اللہ2012ء سے پاکستان کے حالات بہتری کی جانب بڑھنا شروع ہوں گے، پاکستانی سیاست کے گندلے تالاب کو قدرے صاف کیا جائے گا، سیاسی ڈھانچہ بدلے گا، مقابلتاً اہل لوگ برسراقتدار آئیں گے، تشدد میں کمی آئے گی، معاشی حالت سنبھلنا شروع ہوگی اور انشاء اللہ اگلے سال2013ء سے پاکستان ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن ہوگا۔ میں نہ ستاروں کا علم جانتا ہوں اورنہ ہی کوئی غیبی قوتیں مجھ جیسے گناہگار کی مدد کرتی ہیں۔ یہ صرف اور محض علم قیافہ ہے ، ایک احساس ہے جو میرے باطن سے اٹھتا ہے اور ذہن پر چھا جاتا ہے۔ شاید اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں پاکستان کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوں جسے مائنڈ سیٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔ بڑی بڑی تبدیلیاں آنے والی ہیں اور یہ سلسلہ جلد ہی شروع ہوتا نظر آتا ہے۔ فی الحال دیکھئے کہ وزیر اعظم صاحب پر فرد جرم کیا رنگ لاتی ہے اور کیا رنگ دکھاتی ہے۔ اس کے بعد طویل عرصے سے لٹکے ہوئے اس کیس کی باری ہے جس کا تعلق آئی ایس آئی کے سیاستدانوں میں رقوم بانٹنے سے ہے۔ مرزا اسلم بیگ اور جنرل درانی کے بیانات عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں، یونس حبیب کے ذریعے چودہ کروڑ روپے تقسیم کرنے کے ثبوت موجود ہیں۔ جنرل درانی نے عدالت میں حلیفہ بیان دیا ہے جس سے صرف نظر کرنا مشکل ہے۔ سپریم کورٹ متحرک بھی ہے اور انصاف دینے کا مصمم ارادہ بھی رکھتی ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس مقدمے کی زد کچھ حضرات پر ضرور پڑے گی اور سیاست کے گندلے تالاب کی صفائی کا عمل شروع ہوگا۔ فی الحال29فروری کا انتظار کیجئے۔ اس کے بعد میمو سیکنڈل سیاست کے درو دیوار ہلائے گا اور اس کے اثرات بھی دور رس ہوں گے۔ جب ہمارے تجزیہ نگاروں نے منصور اعجاز کے انکار کے بعد اس مقدمہ کو کفن پہنا کر دفن کردیا تھا تو میں نے بار بار عرض کیا تھا کہ جلدی نتائج نہ نکالئے اس مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر دفن نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے تین بار یہ لکھا تھا کہ ملک میں بڑی تبدیلیاں ان شخصیات کے مرہون منت ہوں گی جن کے عہدوں کے ساتھ ”چیف“ کا لفظ آتا ہے۔ میرا مائنڈ سیٹ کہتا ہے کہ یہ سال بہتر تبدیلیوں کا سال ہے اور انشاء اللہ اس سال کے خاتمے تک حالات بہتر ہوچکے ہوں گے اور اگلے سال انشاء اللہ پاکستان ابھرنا شروع ہوگا۔ فی الحال تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیں اور مجھے میرے مائنڈ سیٹ کی کامیابی کے لئے دعا کرنے دیں۔
کرم مانگتا ہوں، عطا مانگتا ہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں

No comments:

Post a Comment