Sunday, 20 May 2012

قلم کا گھوڑا. March 27, 2012


میری برسوں پرانی عادت ہے کہ میں لکھنے سے پہلے کلمہ اور درود شریف پڑھ کر اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے سچ لکھنے کی توفیق مانگتا ہوں اور پھر قلم کے گھوڑے کو کاغذ کے بحر ظلمات پر کھلا چھوڑ دیتا ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سچ اپنا اپنا ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ میرا سچ آپ کا بھی سچ ہو۔ بہرحال اس سے قطع نظر میں تو وہی بات لکھوں گا جو میرے ذہن اور ضمیر کے قریب ہو گی اور جسے میں سچ سمجھتا ہوں۔ ہاں اس میں مشاہدے اور تجزیے کی غلطی ہو سکتی ہے لیکن نیت کی ہرگز نہیں کیونکہ مجھے اپنی قبر میں جانا ہے جہاں جھوٹ، خوشامد، بہتان وغیرہ وغیرہ کے بچھو کاٹ کاٹ کر انسان کو لہولہان کر دیتے ہیں اور جن کے لئے جھوٹ بول کر بچھو کے زہریلے ڈنگ کو دعوت دی جاتی ہے وہ کیا مدد کریں گے وہ تو خود اپنی قبر میں پڑے تڑپ رہے ہوتے ہیں۔
لکھنے کا ارادہ عمران خان کی ٹھہری ہوئی سونامی کے بارے میں تھا لیکن نہ جانے یہ تمہید درمیان میں کہاں سے ٹپک پڑی۔ مجھے کہنے دیجئے کہ میں عمران خان کو فقط شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کے حوالے سے جانتا ہوں لیکن مجھے اس کی سوچ، فہم ، ویژن اور مزاج کا اندازہ اس کے بے شمار ٹی وی پروگراموں سے ہوا ہے۔ اتنی طویل زندگی گزرنے کے بعد انسان کا تجربہ، مشاہدہ اور انسانی مطالعہ ہمارے کان اور آنکھیں بن جاتے ہیں اور انہی کے ذریعے انسانوں کو پرکھا اور تولا جاتا ہے۔ کبھی مجھے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے والا عمران ایک کھلنڈرا نوجوان لگتا تھا لیکن گزشتہ چند برسوں سے مجھے وہ ایک سنجیدہ سیاستدان لگتا ہے جس کی واحد آرزو قوم کی خدمت اور پاکستان کے روایتی نظام میں تبدیلی لا کر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے۔ میں نے 2007 اور 2008 میں انہی کالموں میں چند بار لکھا تھا کہ پاکستان میں بہتر تبدیلی لانے کی صلاحیت مجھے دو نوجوان سیاستدانوں میں نظر آتی ہے ، اوّل عمران خان دوم شہباز شریف۔ ہو سکتا ہے آپ کہیں کہ میں نے شہباز شریف کے ضمن میں غلطی کی لیکن میں آج بھی اپنی رائے پر قائم ہوں۔ شہباز شریف نے پنجاب میں بہت سے اہم فلاحی اور ترقیاتی کام کئے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ نے بے پناہ جذبہ دیا ہے ۔ میرے نزدیک اس کا اصل پرابلم جذباتی انداز فکر اور غیرمتوازن رویہ ہے اور اس کا دوسرا پرابلم نالائق ٹیم ہے جس نے اس کی محنت کے درخت کو اتنا پھل نہیں لگنے دیا جتنا پھل لگنا چاہئے تھا۔ سیاسی برگد تلے ابھرنے والے اس پودے کو کچھ بالغ نظر، تجربہ کار، متوازن سوچ اور ویژن والے مالیوں کی ضرورت تھی جو اس کی صحیح نشو و نما کرتے لیکن ہوا یہ کہ اسے خوشامدیوں، درباریوں اور نالائقوں نے گھیر لیا اور یہی میرے نزدیک کسی بھی حکمران کی بدقسمتی ہوتی ہے۔ شہباز شریف کی کارکردگی کے حوالے سے غیرمتوازن حکمت عملی اور وسائل کے زیاں سے اختلافات کے باوجود میں آج بھی شہباز شریف کو ایک بہتر حاکم اور تبدیلی کا ایجنٹ سمجھتا ہوں۔ میں اس کے خلوص نیت کا قائل ہوں۔ ہاں یاد آیا، ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، پاکستان کے دو ذہین بچوں موسیٰ فیروز اور حسنین نے پندرہ لاکھ بچوں کے عالمی مقابلہ برائے ریاضی میں اوّل اور دوم پوزیشنیں جیت کر پاکستان کی مٹی انتہائی زرخیز ہونے کا ثبوت دیا ہے اور ان دونوں بچوں کا تعلق پسماندہ علاقوں سے ہے۔ ان میں کوئی بھی دانش سکولوں کا طالب علم نہیں۔ شہباز شریف صاحب! آپ نے آج کل لیپ ٹاپوں کی بارش کر رکھی ہے۔ ذرا اقبال کے ان دو شاہینوں کو بھی بلایئے، ان کی عزت افزائی کیجئے، انہیں انعامات دیجئے اور ہاں لیپ ٹاپ دینا نہ بھولئے گا کہ یہ آپ کی پہچان بن چکا ہے۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ملک بھر سے ایسے طالب علموں کو بلایئے جنہوں نے اے، او لیول میں مختلف مضامین میں عالمی سطح پر پوزیشنیں حاصل کی ہیں، زیادہ سے زیادہ اے پلس گریڈ لے کر ملک کا نام روشن کیا ہے یا کسی شعبے میں بھی اعلیٰ ترین کارکرد گی کا مظاہرہ کیا ہے اور ان کے لئے ایک شام وقف کیجئے کہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے ان بچوں کو حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔
رہا عمران خان تو میری بے پناہ توقعات اس سے وابستہ ہیں کیونکہ مجھے اس میں ایک بے لوث، مخلص، ایماندار اور جذبوں سے معمور انسان نظر آتا ہے جو پاکستان کے ٹوٹے پھوٹے، زنگ آلود اور کرپٹ نظام کو بدلنا چاہتا ہے۔ خدمت کے شعبے میں شوکت خانم اور نمل کا تعلق صحت اور تعلیم کے شعبوں سے ہے اور یہی دو شعبے عوام کی خدمت کا بہترین ذریعے سمجھے جاتے ہیں۔ ان دو شعبوں میں عمران خان نے بہترین ادارے قائم کر کے اپنی صلاحیت اور ویژن کا ثبوت دے دیا ہے۔ اگر ذاتی سطح پر وہ ایسے کارنامے سرانجام دے سکتا ہے تو پھر سرکاری سطح پر اس کی کارکردگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ سرکاری سطح سے مراد ملکی وسائل کا میسر ہونا ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ بنیادی طور پر ایماندار اور نیک نیت انسان ہے اور مستقبل کی جھلک دکھانے والی میری آنکھ راہنمائی کرتی ہے کہ اگر کبھی عمران کو اقتدار ملا تو وہ پاکستان کو خاصی حد تک صاف ستھری اور کرپشن فری حکومت فراہم کریگا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسکی سربراہی میں حکومتی اراکین اور کابینہ میں شامل حضرات نہ کرپشن کر سکیں گے اور نہ ہی قومی خزانے کو عیش و عشرت کے لئے استعمال کر سکیں گے۔ میرا تجربہ شاہد ہے کہ اگر حکمران یعنی ”ٹاپ“ ایماندار ہو، کرپشن کی دشمن ہو اور فضول خرچی کا خاتمہ کرنا چاہے تو یہ پیغام تیزی سے نیچے پہنچتا ہے اور کسی حد تک اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ ہو گا کہ ساری انتظامیہ کا کردار راتوں رات دھو کر اجلا بنایا جا سکتا ہے کیونکہ اس کیلئے نظام وضع کرنے، عملی مثالیں دینے اور سخت محاسبے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں وقت لگتا ہے۔ کبھی آپ نے نوٹ کیا کہ شہباز شریف کے پہلے دور حکومت میں کرپشن کم ہوئی تھی اور دوسرے دور حکومت میں رشوت اور لاقانونیت بڑھی ہے حالانکہ حکومت کسی کرپشن سکینڈل میں ملوث نہیں، حکومت پر صرف وسائل کے غیر متوازن استعمال اور زیاں کا الزام ہے۔ اس کی بنیادی وجہ محاسبے اور نگرانی کے نظام کا فقدان ہے جبکہ ذیلی وجہ وزیر اعلیٰ کا خادم اعلیٰ بن کر ساری حکومت کا وزن اپنی جان ناتواں پر لادنا ہے اور تیسری وجہ نالائق ٹیم ہے۔ اگر آپ کو میری رائے سے اختلاف ہے تو اختلاف آپ کو مبارک لیکن یہ میری رائے ہے۔
چھوٹے سے کالم میں سب کچھ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں اس لئے تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران کا سونامی رک گیا ہے۔ میرے نزدیک یہ پراپیگنڈہ ہے اور سطحیت کی غمازی کرتا ہے۔ ویسے میں سونامی وغیرہ کا قائل نہیں ۔ یہ باتیں جلسوں کو سجانے کے لئے ہوتی ہیں۔ تاریخ ہر کامیاب فاتح کے بارے میں بتاتی ہے کہ وہ کچھ علاقہ فتح کرنے کے بعد بگولے کی مانند آگے بڑھنے سے قبل مفتوحہ علاقوں میں قدم جماتا اور اپنی فتوحات کو مستحکم بناتا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے عمران لاہور، کراچی، پشاور وغیرہ فتح کرنے کے بعد اب اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لئے رورل اضلاع میں جا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ گراس روٹ لیول پر سیاسی رشتوں کی نشو ونما کے لئے ممبر سازی یا رکن سازی کا کام کر رہا ہے جس کی حیثیت عمارت میں بنیاد کی سی ہوتی ہے۔ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، بہاول نگر، مظفر گڑھ، خانیوال، گوجر خان، تھرپارکر اور کئی اضلاع کے بعد میانوالی میں ایک بڑے جلسے اور جوش و خروش کا مظاہرہ یہ راہنمائی کرنے کے لئے کافی ہے کہ عمران کا سونامی نہ رکا ہے اور نہ سست ہوا ہے بس اب یہ سونامی اپنی پوزیشن مستحکم کر رہا ہے اور دور دراز کے عوام تک پہنچ رہا ہے۔ اگر سونامی سے مراد بڑے ”ناموں“ کی شمولیت ہے تو اس محاذ پر سست روی میں عمران کی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ عمران خان پچاس لاکھ پرائمری رکن بنانا چاہتا ہے اور میرا اندازہ ہے کہ وہ یہ کام آسانی سے کر لے گا۔ اس کے متحرک کارکن نچلی سطح پر خاصا کام کر رہے ہیں۔ اس طرح عمران خان کو ایک مستحکم بنیاد مل جائے گی جس پر مستحکم عمارت تعمیر کر سکے گا۔ میں عمران خان کو نہیں جانتا اور نہ ہی سطحی حوالے سے کسی کا اندازہ ہوتا ہے لیکن میرا دل کہتا ہے کہ عمران اس ملک میں بہتر تبدیلی لا سکتا ہے۔ میں صرف اور صرف ملک میں بہتر تبدیلی کی آرزو رکھتا اور مستقبل کے سہانے خواب دیکھتا ہوں اس لئے میری دعاؤں کا تاج اسی کے سر پر ہو گا جو ملک کی تقدیر بدلے گا۔ مزید انشاء اللہ پھر۔ 
 

No comments:

Post a Comment