Saturday, 19 May 2012

کہاں سے لاؤں؟. February 05, 2012


سیاست پہ لکھوں تو کیا لکھوں کہ سارا منظر ہی دل شکن ہے۔ جمہوریت کے سب سے بڑے عہدیدار اور قوم کے لیڈر وزیراعظم پاکستان پر توہین عدالت کا الزام لگ چکا ہے اور فرد جرم عائد ہونے جا رہی ہے۔ وزیراعظم کو یوں بھی رول ماڈل ہونا چاہئے کہ قوم اس کی طرف راہنمائی کے لئے دیکھتی ہے اور اس سے متاثر ہوتی ہے لیکن ہمارے وزیراعظم صاحب تو ماشا اللہ ہمیشہ طوفانوں کی آنکھ کا تارا بنے رہتے ہیں۔ ایک سکینڈل کی آگ ٹھنڈی ہوتی ہے تو دوسرے کی بھڑک اٹھتی ہے۔ تفصیلات میں جانے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ ان کے حوالے سے خبریں ہمیشہ گرم رہتی ہیں۔ جس انداز سے انہوں نے جیل کے دوستوں کو نوازا اور جس انداز سے کرپٹ ناموں کو اعلیٰ عہدوں پر بٹھایا اس پر سپریم کورٹ بھی کئی بار حیرت کا اظہار کر چکی ہے۔ رہی قوم تو وہ ایک صدمے سے دوسرے صدمے میں چلی جاتی ہے اور حیرت کا بت بنے لوٹ مار کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ توہین عدالت چھوٹا جرم نہیں ہرگز نہیں یہ ایک آئینی عہدیدار کے لئے بہت بڑا جرم ہے اور آئینی عہدے دار بھی گیلانی صاحب جیسا جو گزشتہ دو برسوں سے ایک ہی رٹ لگارہا ہے ”ادارے اپنی حدود میں رہیں تو تصادم نہیں ہوگا، ہم بہرحال عدالتوں کا احترا م کریں گے“۔ آخر میں انہوں نے ڈیوس میں دیئے گئے انٹرویو کے دوران توہین عدالت پر جیل جانے کا عندیہ بھی دے دیا تھا اور اس سے قبل وہ ماشا اللہ جرم کی سزا پر گرفتاری کے لئے تھانے دار مقرر کرنے کے اختیار کا بھی طنزاً ذکر کر چکے تھے جس کی بازگشت سپریم کورٹ کی کارروائی کے دوران بھی سنی گئی۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب ہر روز پینترا بدلتے، قانونی موشگافیاں کرتے اور رنگ برنگے بیانات دیتے رہتے ہیں جن کی مثال اس سے قبل نہیں ملتی۔ چودھری اعتزاز احسن واضح کر چکے کہ اگر وزیراعظم پر توہین عدالت لگ بھی جائے تو وہ وزیراعظم ر ہیں گے کیونکہ ان کی رخصتی کاطریقہ آئین میں دیا گیا ہے۔ قانونی طور پر یہ بات درست ہے لیکن قانون کے علاوہ ایک شے اخلاقی جواز بھی ہوتا ہے اور دراصل اخلاقی جواز ہی جمہوریت کی ر وح ہے اور اسی سے قانونی جواز کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ اسی اخلاقی جوازکو تقویت دینے کے لئے ہر جمہوری ملک میں بڑی بڑی قربانیاں دی جاتی ہیں اور جس وقت کسی سیاسی عہدیدار پر الزام لگتا ہے وہ مستعفی ہو جاتا ہے۔ اس کا فلسفہ سیدھا سادا سا ہے ۔ الزام لگنے سے سیاسی عہدیدار عوام کی نظروں میں مشکوک ہو کر احترام کھو بیٹھتا ہے اس لئے وہ رائے دہندگان کی خوشنودی اور شفاف کارروائی (For Trial)کی خاطر کرسی خالی کر دیتا ہے۔ مطلب یہ کہ کرسیوں پر مشکوک اور ملزمان کو براجمان نہیں رہنا چاہئے۔ اسی اخلاقی جواز سے عوامی احتساب جنم لیتا ہے۔ چند روز قبل اٹلی میں ایک وزیر صاحب نے احتجاج کرنے والوں پر قابل اعتراض فقرے کسے۔ چنانچہ اگلے دن نہ ہی صرف وزیر نے عوام سے معافی مانگی بلکہ وزارت سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ برطانیہ کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ ہندوستانی جمہوریت میں بھی اس حوالے سے بے شمار مثالیں ملتی ہیں لیکن پاکستانی جمہوریت اس طرح کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اور قاصر رہے گی کیونکہ ہم جمہوریت کے علمبردار تو بنتے ہیں لیکن ہماری سوچ، ہمارے رویے اور ہمارا ذہن جمہوری نہیں بلکہ اس کے برعکس ہمارے ذہن پر فیوڈل ازم کی گہری چھاپ ہے۔ اسی لئے ہمارے ہاں جمہوری روایات نہ جنم لے سکیں اور نہ ہی مضبوط ہوسکیں۔ شیخ رشید وزیر ریلوے تھے تو کہیں حادثہ ہوگیا، کسی صحافی نے ان سے پوچھا کہ ہندوستان میں ریلوے حادثہ پر وزیر نے استعفیٰ دے دیا تھا، کیا آپ بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہوں گے۔ شیخ صاحب کا جواب پاکستانی جمہوریت کا شاہکار تھا۔ انہوں نے سگار کا سوٹا لگاتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا ”میں کوئی انجن ڈرائیور ہوں کہ استعفیٰ دوں“۔ مطلب یہ کہ غلطی کرنے پر استعفے صرف سرکاری ملازمین کو دینے چاہئیں۔ اس طرح انہوں نے اخلاقی جواز کو ملیا میٹ کر دیا حالانکہ اخلاقی جواز ہی جمہوریت کی روح ہوتا ہے اور یہی جمہوریت کو دوسرے نظاموں سے ممیز کرتا اور ارفع بناتا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاست اخلاقی قدروں سے تہی دامن ہے اور ہماری سیاست پر جھوٹ، بہتان، کرپشن اور فریب کی گرفت مضبوط ہوچکی ہے۔ دن رات سیاست کے نام پر جھوٹ بولا جاتا ہے حتیٰ کہ عرف عام میں سیاست کا نام ہی جھوٹ پڑ چکا ہے۔ ان حالات میں کسی اخلاقی جواز یا اخلاقی قدروں کا ذکر کرنا بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف ہے لیکن اتنا لکھنے میں کوئی حرج نہیں کہ جب تک سیاست میں اخلاقی قدروں، جمہوری روایات، عوامی احتساب اور جمہوری سوچ کو فروغ نہیں دیا جاتا اس وقت تک پاکستان میں جمہوریت کا پودا جڑ نہیں پکڑ سکے گا۔ بات دور نکل گئی۔ این آر او پر فیصلوں کو دو سال تک لٹکائے رکھنے اور زبانی دعوؤں کے باوجود عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ سامنے آرہا ہے جس نے ملک کو چھوٹے سے بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس سے نہ صرف وزارت عظمیٰ کا اعلیٰ اور مقدس عہدہ متاثر ہوا ہے اور عوام میں تشویش پھیلی ہے بلکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس صورتحال کے اندرونی اور بیرونی حوالے سے زندگی کے ہر شعبے پر اثرات پڑیں گے۔ میرا اندازہ ہے کہ اگر وزیراعظم نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی اور خط لکھنے کا وعدہ کرلیا تو معاملہ ختم ہو جائے گا لیکن اصل خطرہ حکمرانوں کے رویے اور ضد سے ہے جو خط نہ لکھنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔ کیازرداری صاحب وزیراعظم کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں یا آئینی اداروں کا تصادم چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ صدر صاحب کی ضد اگر گیلانی صاحب کو ”قربان“ بھی کر دے تو نئے وزیراعظم کو بھی خط لکھنا پڑے گا، ورنہ تصادم ہوگا۔ حکومتی رویے کے اثرات میمو گیٹ سکینڈل پر بھی مرتب ہوں گے جو فی الحال عدالت کے سامنے ہے۔ میرے اندازے کے مطابق میمو سکینڈل مرا نہیں، فی الحال سکتے کے عالم میں ہے اور کسی وقت بھی خطرے کا الارم بجا سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے منصور اعجاز سے بیان اورشواہد لینے کے لئے کوئی راستہ نکل آئے، ورنہ جنرل پاشا کے پاس بھی خاصے شواہد ہیں۔ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سپریم کورٹ میں بیانات فائل کر چکے ہیں اور میمو کی تصدیق کر چکے ہیں۔ کیا وہ ان سے پیچھے ہٹ جائیں گے یا انہیں ثابت کرنے کے لئے شواہد پیش کریں گے؟
میں نے ساری عمر جمہوریت کے قصیدے پڑھے اور لکھے اور اس کی سزا بھی پائی لیکن اس جمہوریت کا کیا کروں کہ سارا سیاسی منظر ہی دل شکن ہے۔ تین کروڑ چھتیس لاکھ جعلی ووٹوں پر اسمبلیاں وجود میں آئیں اور ان میں سے سینکڑوں اراکین اسمبلیاں جعلی ڈگریوں کی زد میں آگئے۔ گویا اسمبلیوں کا قانونی جواز جعلی ووٹوں نے اور اخلاقی جواز جھوٹ بولنے والی جعلی ڈگریوں نے ختم کر دیا۔ پارلیمینٹ اس قدر غیر موثر کہ اس کی قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں پھنیک دیا جاتاہے۔ حکومتوں کی کارکردگی لوڈشیڈنگ، لاقانونیت، بڑھتی ہوئی غربت اور مہنگائی اور بے روزگاری اور کرپشن کی بے مثال مثالیں پیش کر رہی ہے۔ پنجاب میں ڈینگی کے بعد دوائیوں کے ردعمل سے لوگ اور خاص طور پر غریب لوگ مر رہے ہیں۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ شروع ہوچکی ہے۔ اندرون سندھ ابھی تک سیلاب کی تباہ کاریوں کا علاج نہیں ہوسکا۔ بلوچستان میں ایک طرف ٹارگٹ کلنگ تو دوسری طرف شہریوں کو اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ خیبر پختون خوا میں تشدد کی نئی لہر خون بہا رہی ہے، لوگ مر رہے ہیں اور ہر طرف موت کے سائے لہرا رہے ہیں۔ مہران بینک سکینڈل اور آئی ایس آئی کی سیاستدانوں کو ننگی رشوت، ننگی تلوار بن کر لٹک رہی ہے۔ ان سب پر مستزاد وزیراعظم توہین عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں ان حالات میں میں اپنی جمہوریت کے لئے کلمہ خیر کہاں سے لاؤں؟
 

No comments:

Post a Comment