چلتے چلتے پاکستانی نوخیز جمہوریت کا کارواں پُر پیچ اور خار دار وادی میں داخل ہو گیا ہے۔ اس وادی سے نکلنے تک کس کس کے پاؤں لہو لہان ہوں گے، کون حیرت کے گنبدوں میں گم ہو جائے گا، کون تاریخ کا حصہ بن جائے گا اور کون فتح و کامیابی کے شادیانے بجاتا نظر آئے گا اس منظر کے کھلنے میں چند ماہ لگیں گے اور پھر اس کارواں کا سفر کسی منطقی انجام کی طرف بڑھے گا۔ میں اسے جمہوریت کا نوخیز کارواں اس لئے کہتا ہوں کہ ابھی تو پرویز مشرف سے نجات حاصل کئے صرف چار ہی برس گزرے ہیں اور انتخابات کی بنیاد پر تشکیل پانے والی حکومت نے بھی پوری طرح پاؤں نہیں جمائے کہ دو متضاد، مشکوک اور پیچدار کرداروں نے ہماری سیاست کے کارواں کو خار دار اور تاریک وادی میں دھکیل دیا ہے۔ پہلا کردار تو منصور اعجاز ہے جو تعارف کا مرہون منت نہیں۔ اس نے پہلے میمو اسکینڈل کا دھماکہ کر کے اور پھر اسامہ آپریشن کے حوالے سے انکشافات کر کے ملک میں سیاسی بھونچال کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ منصور اعجاز کے جواب میں حسین حقانی نے بھی اپنے فون کے بلز جمع کروائے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ان بلز سے ان کے منصور اعجاز سے رابطوں کا دستاویزی ثبوت مل جائے گا اور اسی لئے حسین حقانی نے کہا ہے کہ منصور اعجاز سے رابطوں کا انکار نہیں لیکن میمو پر کبھی بات نہیں ہوئی۔ میمو پر بات ہوئی یا نہیں اور کتنی ہوئی اس کا اندازہ تو حقانی کے موبائل فون اور کمپیوٹر سے ہی ہو سکتا ہے جن کے ذریعے پیغام رسانی ہوتی رہی لیکن حقانی صاحب کا موبائل گم ہو چکا ہے اور موبائل کمپنی نے ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس صورت میں صرف وہی ڈیٹا اور موبائل فون عدالت کے پاس موجود ہیں جو منصور اعجاز نے پیش کئے ہیں۔ اس افسانے کا اہم کردار جنرل پاشا ریٹائر ہو رہا ہے لیکن وہ عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل اپنا حلفی بیان بھی دے چکا ہے اور اپنے بیان کے حق میں شواہد بھی اکٹھے کر چکا ہے۔ جب تک جنرل کیانی آرمی چیف ہیں جنرل پاشا پر نہ دباؤ ڈال کر بیان سے انحراف کروایا جا سکتا ہے اور نہ ہی انہیں منصور اعجاز کی مانند ڈرایا دھمکایا جا سکتا ہے۔ ان تمام عوامل کے باوجود جب تک جوڈیشل کمیشن اور سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ آئے یہ کہنا غیر مناسب ہو گا کہ کون ملزم ہے اور کون مجرم ہے، کون جھوٹا ہے اور کون سچا بادی النظر میں میمو سکینڈل نے پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے درمیان فاصلے بڑھا دیئے ہیں اور ”دشمنی“ کو گہرا کر دیا ہے جس کے اثرات مہران بینک سکینڈل کی کارروائی کے دوران ظاہر ہوں گے۔ البتہ ہمارے سیاستدان ماشاء اللہ خاصے سیانے ہیں اور عملیت پسند ہیں اس لئے تمام تر دشمنی اور مخالفت کے باوجود سینٹ کے انتخابات میں جہاں جہاں ممکن ہو ”مک مکا“ کر لیتے ہیں۔ اصولوں سے ہٹ کر جب صرف مفادات کا کھیل کھیلا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے، دن کے اجالے میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رات کی تاریکی میں سمجھوتے بھی کر لیتے ہیں اور مفادات کے حصول کے لئے ہاتھ بھی جلا لیتے ہیں۔ اس حد تک تو ہمیں اپنے سیاستدانوں کی ”عقلمندی“ کی داد دینی چاہئے۔ اس پس منظر میں یہ توقع بھی کی جا سکتی ہے کہ بظاہر دو متحارب اور دشمن سیاسی قوتوں کو اگر کل کلاں کسی مشترکہ طاقتور دشمن سے پالا پڑے تو دونوں آپس میں ایڈجسٹمنٹ کر لیں اور اخبارات کے صفات پر برپا ”چور“ ”چور“ کا شور مصلحتوں کے نیچے دبا دیں۔ میں جب پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہوں تو اس میں بعض سیاستدانوں اور تاریخی کرداروں کے بارے میں لفظ ”گھاگ“ استعمال ہوتا تھا اور میں سوچتا تھا کہ نہ جانے یہ گھاگ کیا بلا ہوتی ہے۔ اب جب میں اپنی سیاست کے ظاہر اور باطن کو دیکھتا ہوں تو سمجھ کی کھڑکی تھوڑی سی کھلتی ہے گھاک وہ سیاسی کردار ہوتا ہے جو ظاہراً تو دشمن کے خون کا پیاسا ہو لیکن ضرورت پڑنے پر چپکے سے مک مکا کر لے اور لوگوں کو اس راز کی ہوا بھی نہ لگنے دے۔ بات ذرا دور چلی گئی۔ کہہ میں یہ رہا تھا کہ دو جاسوسی کرداروں نے ہماری سیاست کے نوخیز قافلے کو پُر پیچ اور خار دار وادی میں دھکیل دیا ہے۔ اول تو منصور اعجاز اور دوم یونس حبیب… منصور اعجاز کی توپوں کا رخ بذریعہ حقانی ایوان صدارت کی جانب ہے جبکہ یونس حبیب کے ”نزاعی بیان“ کا نشانہ شریف برادران ہیں۔ فی الحال چودھری برادران، الطاف حسین اور عمران خان اس آندھی سے محفوظ ہیں لیکن کون جانے کہ کل کلاں کوئی اور سیکرٹ ایجنٹ یا وطن کی محبت سے سرشار شخصیت اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے میدان میں کود پڑے اور ایسے انکشافات کا دھماکہ کر دے جس کے اثرات یا جھٹکے ان سیاستدانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں جو معصوم بنے بغلیں بجا رہے ہیں کیونکہ ماشاء اللہ ہمارے ملک میں مرچ مصالحے کی بھی کمی نہیں اور ایسے افراد بھی خاصی تعداد میں پائے جاتے ہیں جو جوانی میں ہر قسم کا کھیل کھیلتے رہے، ضمیر خان کی لاش پر کھڑے ہو کر قومی مفادات کا سودا کرتے رہے لیکن جب اچانک ان کا ضمیر جاگ اٹھا ہے چنانچہ آپ کو اکثر پرائیویٹ ٹی وی چینلوں پر ایسے حضرات ملامت زدہ چہرے سجائے ملیں گے جو اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے انکشافات کے انبار لگا رہے ہیں۔ ان انکشافات سے فقط یہی پتہ چلتا ہے کہ ہم گندگی کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے ہیں بس اوپر سے صرف تھوڑا سا پردہ ہٹانے کی ضرورت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پردہ ہٹانے سے جو بدبو پھیلتی ہے وہ کس کے مفاد میں ہے؟ کون چاہتا ہے کہ ہمارے سیاسی راہنما، قومی مقدر بنانے بگاڑنے والے اور ملک کی کشتی چلانے والے قوم کی نگاہوں میں بے عزت اور بے وقار ہوں، دوسرے الفاظ میں کہ قوم ان سے متنفر ہو اور نتیجے کے طور پر جمہوریت اور سیاست سے ہی بدظن ہو جائے۔ عام حالات میں اس سوال کے جواب میں انگلیاں فوج اور آئی ایس آئی کی جانب اٹھتی تھیں لیکن موجودہ صورتحال عام حالات کی غمازی نہیں کرتی کیونکہ منصور اعجاز ہو یا یونس حبیب دونوں توپوں کے گولے فوج اور آئی ایس آئی پر بھی برس رہے ہیں۔ عام طور پر اس طرح کی صورتحال میں ہمارے دانشوروں کا تجزیہ جاسوسی اداروں کی دہلیز پر پہنچ کر ختم ہو جاتا تھا لیکن اب تو خود جاسوسی ادارے بھی بے نقاب ہو رہے ہیں یا مکافات عمل کا شکار ہیں اور ہو سکتا ہے کہ یہ مکافات عمل ان کے پر کاٹ دے اس لئے ہمارے تجزیہ نگاروں کو ابھی تک کوئی قربانی کا بکرا نہیں ملا اور وہ اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ اپنے سیاستانوں کے اعمال کی سیاہی کس کے منہ پر ملیں؟ آسمان سے ٹپکنے والے دونوں سنسنی خیز کرداروں کی تضاد بیانی ہمیں کنفیوژ کر دیتی ہے۔ یونس حبیب نے پہلے میاں نواز شریف کو 35 لاکھ دینے کا انکشاف کیا اب اس رقم کو بڑھا کر 60 لاکھ کر دیا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ 35 لاکھ مونگ پھلی کی مانند چھوٹی رقم ہے جس سے میاں صاحب کی ہتک ہوئی لیکن اب یونس حبیب نے اسے ساٹھ لاکھ کر کے اپنے پہلے دعوے کو بھی مشکوک بنا دیا ہے اس کا یہ کہنا کہ شہباز شریف کو 25 لاکھ ٹی ٹی کے ذریعے ٹرانسفر ہوئے کامن سینس کی توہین لگتی ہے کیونکہ کون اس طرح کی رقم بذریعہ ٹی ٹی لے گا؟ رحمان ملک کا حسب معمول دعویٰ ہے کہ اس کی پٹاری میں سارے ثبوت موجود ہیں سپریم کورٹ کو چاہئے کہ رحمان ملک سے اس دعوے کے شواہد ما نگے اور اس معاملے کی تہہ تک پہنچے کیونکہ اس کے نتیجے کے طور پر کچھ سیاستدانوں پر پابندی لگ سکتی ہے جو اہم معاملہ ہے۔ یحییٰ خان کو میں نے نہیں دیکھا لیکن سنا ہے وہ ایسے مواقع پر لوگوں کو ”بچُو“ کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ ابھی تک بچے رہنے والو زیادہ خوشیاں نہ منائیں۔ بچُو تمہارے بارے میں بھی انکشافات کا مصالحہ تیار ہو رہا ہے۔ فی الحال بچے گا عمران خان لیکن اس کی ذاتی زندگی کے مردہ سکینڈلز کو انتخابات سے تھوڑا سا قبل ہوا دی جائے گی۔ بچُو میں یہ بات اپنے تجربے کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔ بچُو میری بات نوٹ کر لو پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ |
Sunday, 20 May 2012
چلتے چلتے! March 14, 2012
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment